اوراقِ ناخواندہ

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 27 اپريل 2017

’’اوراقِ ناخواندہ‘‘ ڈاکٹرطاہر مسعود کے شخصی خاکوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انھیں خاکہ نگاری اس لیے اچھی لگتی ہے کہ انھیں انسانوں سے محبت ہے، انھیں دوست تو اچھے لگتے ہیں، دشمن بھی برے نہیں لگتے اور وہ انھیں اور ان کی دشمنی، ان کی نفرت اور حسد کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

طاہر مسعود نے ’’اوراق ناخواندہ‘‘ میں جن شخصیات کا خاکہ لکھا ہے وہ شخصیتیں ہیں جن سے وہ ملے ہیں، متاثر ہوئے ہیں، کچھ سیکھا، کچھ سمجھا ہے، جنھوں نے انھیں ملول کیا ہے، جن کے ذریعے انھیں مسرتیں ملی ہیں، جنھوں نے انھیں بگاڑا ہے اور بنایا ہے۔

سب سے پہلے اپنے چچا کا جنھیں طاہر مسعود اپنی جان کہتے تھے، ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ہم لوگوں کی تربیت میں ابا جان کا اتنا دخل نہ تھا جتنا ابّی جان کا تھا۔ وہ ہم بھائیوں سے تبادلہ خیال کرتے تھے۔ ان کی تربیت میں جبر نہیں تھا، خشک پند ونصائح کی بھرمار تھی۔ وہ زندگی اور معاملاتِ زندگی کو برتنے کا ایک صحیح اور معتدل رویہ متعین کردیتے تھے، درست سمت (Right Diversion) کی نشان دہی کردیتے تھے اور یہ فیصلہ ہم بھائیوں پر چھوڑ دیتے تھے کہ اسے قبول کریں یا نہ کریں۔‘‘

طاہر مسعود نے اپنے ابّی کی دو ناپسندیدہ باتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایک غصہ اور دوسری شراب نوشی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا تو اس کی تلافی بھی کرلیا کرتے تھے۔ وہ ان کم لوگوں میں تھے جن کے اندر احساس گناہ قوی تھا۔

ایک خاکہ طاہر مسعود کی پھوپھی اصغری کا ہے جن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ مظلومیت کا ایک دکھ بھرا پیکر رہی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا دکھ ان کے بچوں کی پے درپے موت تھا۔ یہ وہ دکھ تھا جس کا کوئی مداوا نہ تھا۔ طاہر مسعود لکھتے ہیں۔ ’’انھوں نے اپنے درد کو دوسروں کی خدمت کا ذریعہ بنالیا تھا۔ اس سے انھیں راحت ملتی تھی اور سکون جو ان کی نیندوں کو بے خواب نہیں ہونے دیتا تھا۔‘‘

سلیم احمد کے بارے میں طاہر مسعود لکھتے ہیں۔ ’’میں نہیں جانتا کہ انھوں نے مجھ پرکیا جادو کردیا تھا کہ آج تک میں ان کے سحر سے نکل نہیں پایا ہوں۔ اکثر چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، لکھتے پڑھتے ناگاہ ان کا خیال آجاتا ہے اور میں رک کر، سارے کام چھوڑ کر انھیں سوچنے لگتا ہوں اور جب ان کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہوں تو یوں ہوتا ہے کہ وہ میرے اندر بیدار ہوجاتے ہیں جیسے گہری نیند سے سوتے سوتے کوئی جاگ پڑتا ہے۔‘‘

سلیم احمد نہ کوئی سیاسی مبصر تھے نہ انقلابی، طاہر مسعود لکھتے ہیں ’’وہ ایک ایسے دانشور تھے جو الجھے اور سلگتے ہوئے مسائل کو اپنے مخصوص زاویہ نظر سے دیکھتے، پرکھتے اور ایسی تعبیر پیش کرتے کہ مسئلے کی حقیقت گہرائی سے نکل کر واضح ہوکر سامنے آجاتی تھی۔‘‘ طاہر مسعود کہتے ہیں کہ سلیم احمد نے ادب میں اپنا مقام اپنی تخلیقی صلاحیت اور ذہانت کے علاوہ بڑی محنت سے بنایا تھا۔

مشتاق احمد یوسفی کے خاکوں کا عنوان ہے۔’’چند سخن گسترانہ یادیں‘‘ لکھتے ہیں۔ ’’یوسفی صاحب کے فقرے بے شک نہایت چمکدار Quotable Quote کی طرح زبان زد عام و خاص ہوجانے والے ہیں لیکن بدقسمتی سے میری نگاہ عیب جو کو ان فقروں کے عقب سے وہ مشقت اور محنت جھانکتی ہوئی نظر آجاتی ہے جو لکھتے، سوچتے اور گھڑتے ہوئے ان پر کی گئی ہے۔ یہ وہی فرق ہے جو کسی پہاڑی دوشیزہ کے حسن میں اور اس کے مقابلے میں کسی میک اپ زدہ حسینہ کے حسن میں پایا جاتا ہے۔‘‘

طاہر مسعود لکھتے ہیں۔ ’’جہاں تک یوسفی صاحب کی شخصیت کا معاملہ ہے، کسی حد تک ناقابل فہم ہے۔ جتنا میں نے انھیں قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے اور ان کی شخصیت کا جو تاثر میرے قلب و ذہن پر مرتب ہوا ہے، اس میں ایک طرف ان کی شرافت، وضع داری، دلداری اور نجابت و مروت کا احساس غالب ہے تو دوسری طرف اپنی شخصیت کی بابت نازک مزاجی بھی ہے۔‘‘

افتخار عارف کے بارے میں طاہر مسعود لکھتے ہیں۔ ’’یہ صحیح ہے کہ افتخار عارف خود پسند ہیں، شہرت سے انھیں لگاؤ ہے، چاہے جانے سے جنون کی حد تک عشق ہے۔ انھیں محفل سجانے کا فن آتا ہے، لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے کے ہنر میں وہ طاق ہیں۔ کسی حد تک ان میں نرگسیت بھی ہے۔ ان سب کے باوجود ان کے رکھ رکھاؤ میں شستگی اور شائستگی پائی جاتی ہے۔ وہ دوسرے ادیبوں کی طرح اپنی کھال میں مست رہنے کی پالیسی پر گامزن نہیں۔ دوسروں کے حال و قال سے بھی واقف رہتے ہیں۔ انھیں حفظ مراتب کا بھی بہت خیال رہتا ہے۔‘‘

افتخار عارف کی شاعری کے بارے میں طاہر مسعود کہتے ہیں کہ انھوں نے مشق سخن سے اپنا ایک شعری لب و لہجہ تلاش کیا، اپنے موضوعات اور اپنا شعری پیرایہ وضع کیا اور یوں مواد اور فن پر مضبوط گرفت کے نتیجے میں ادبی دنیا میں اپنا مقام بنالیا۔

میجر ابن الحسن کے خاکے کا عنوان ’’ورق ناخواندہ‘‘ ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’میرے بزرگ‘‘ ایک ایسی ہستی جیسی دیکھی نہ سنی۔ جانے ان میں ایسی کیا بات تھی کہ نوجوانی میں بھاگ بھاگ کر ان کی خدمت میں حاضری دیتا تھا۔ وہ بولتے رہتے، میں خاموشی سے، ادب سے، ان کی باتیں سنتا رہتا تھا۔ سوائے سننے اور یاد رکھنے والی بات کو گرہ میں مضبوطی سے باندھ لینے کے کم ہی کچھ کہنے کی ہمت ہوتی۔‘‘

طاہر مسعود پر ابن الحسن کی شخصیت کا جو اثر ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ان کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے سے خاموشی سے میرا ذہنی ارتقا ہوا۔ یہ ذہنی اور فکری نشوونما کچھ ایسی تھی کہ میں نے زندگی کو برتنے اور اس کے مسائل کو مثبت انداز میں دیکھنے کا زاویہ نظر اپنے اندر پایا۔ یہ سیکھا کہ چیزوں کو، لوگوں کو، دکھوں اور خوشیوں کو روپیہ پیسے کو کن نظروں سے دیکھنا چاہیے۔ میرے پوچھے بغیر مجھے زندگی کی اعلیٰ قدروں سے انھوں نے روشناس کرادیا۔

ابن الحسن فوج میں میجر تھے، تعلقات عامہ کے شعبے سے تعلق تھا، وہاں سے آئے تو صحافت کے کوچہ ہی میں رہے۔ پاکستان گلف اکنامسٹ کے ایڈیٹر ہوئے اور ’’نوائے وقت‘‘ کے مستقل کالم نویس۔ ان کے یہ کالم ’’جملۂ معترضہ‘‘ کے عنوان سے چھپتے تھے اور بہت پسند کیے جاتے تھے۔ اکنامسٹ میں ان کا ہفتہ وار کالم انگریزی میں ہوتا تھا، طنزومزاح کی شوخی کے ساتھ ایسا کہ لندن سے اس پر تبصرے آتے تھے۔ ابن الحسن کے منتخب کالم ’’جملۂ معترضہ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں۔

طاہر مسعود کی پروین شاکر سے کبھی دوستی نہ رہی اور نہ ایسے مراسم کہ قریب سے دیکھا ہو پھر اس کے باوجود انھوں نے ان کا خاکہ لکھا ہے، کیوں؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں۔

ایک سال یونیورسٹی یونین نے ہفتہ طلبا میں ایک ادبی عدالت لگائی۔ پروین شاکر کو بھی بلایا گیا۔ جرح کے دوران طاہر مسعود نے ان سے سوال کیا، آپ نے اپنے مجموعہ کا نام ’’خوشبو‘‘ کیوں رکھا، ’’بدبو‘‘ کیوں نہیں رکھا؟ پروین تلملا گئیں، کوئی سخت سا جواب دیا۔ طاہر مسعود نے پھر ان کی ایک نظم سناکر جس میں محبوبہ اپنے محبوب سے اس بات پر اظہار افسوس کرتی ہے کہ آہ میں تمہیں یہ نہ بتا سکی کہ کل موسم کی پہلی بارش تھی، سوال کیا، ’’محترمہ! یہ فرمائیے اتنی اہم اطلاع اپنے محبوب کو دینے میں کیا امر مانع تھا؟‘‘ پروین تو پہلے ہی بھری بیٹھی تھیں، غصے میں جواب دیا۔ ’’آپ ابھی بچے ہیں ان باتوں کو نہیں سمجھیں گے۔‘‘

طاہر مسعود نے خاکہ نگاری میں اپنے باطنی تجربے اور صاف گوئی سے کام لیا ہے۔ انھوں نے اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتا دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی بات ناگوار ہو تو وہ یہ سوچ کر معاف کردیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔

’’اوراقِ ناخواندہ‘‘ میں جن شخصیات کے خاکے ہیں ان میں سے زیادہ تر معروف اور جانی پہچانی ہیں۔ طاہر مسعود کہتے ہیں۔ ’’شہرت اور ناموری کے باوجود ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کی بنا پر غالبؔ کے الفاظ میں وہ بہ حیثیت فرد اب بھی ورق ناخواندہ ہیں۔ ان اوراقِ ناخواندہ کو میں نے جس طرح اپنے طور پر پڑھا ہے، اسی طرح اپنے پڑھنے والوں کو پڑھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔