سچ اور کرپشن

جاوید قاضی  جمعرات 27 اپريل 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہم نے مانا کہ پاکستان میں تاریخی اعتبار سے کرپشن کو بہانہ بنایا گیا، شب خوں کی خاطر۔ وہ بھی زمانے تھے کہ اس کے لہو میں نظریہ ضرورت دوڑتا رہا۔ شب خوں و نظریہ ضرورت ایک سکے کے دو رخ  ہیں۔ جمود و ساکت تھا سب کچھ، جب میڈیا نہ تھا، میڈیا تو تھا مگر آج جیسا نہ تھا۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، اتنے طبل اتنے باجے کہ پل بھر میں بیانیہ بنتا ہے اور پل بھر میں بیانیہ بگڑتا ہے۔ بیان دو اور بیان کو رد کرو۔ بیانیہ رد بیانیہ یعنی Narrative  کا Counter Narrative۔ ایک تھا سچ، پھر ہوا پوسٹ سچ، اور سچ کیا ہے، اگر آپ کی آنکھ میں یرقان ہے تو سچ بے چارہ کیا کرے۔

ایک ایمان رکھتا ہوا پکا کرسچن دنیا کو، زماں کو مکاں کو کرسچن آنکھ سے دیکھتا ہے، ایک ایمان والا پکا مسلمان بھی اسی مظہر میں غلطاں ہے۔ سچ کے سامنے ثقافتیں، مذاہب، مفادات، طرح طرح کے خیالات آجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی نے کہا کہ سی پیک، ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند ہے، اور اگر کوئی حقائق کو بلیک اینڈ وہائٹ کر کے دیکھے تو اس کی معصومیت کا کیا کہئے۔ وہ بھول گیا تین سو سال کی ارتقاء کے زینے سارے بلیک بورڈ سے صاف کرگیا۔ جب چاند پر آدمی پہنچا ہم انکاری ہوگئے۔ ہم نے پولیو کے ٹیکوں پر کہا، اس سے فرد ناتواں ہوجاتا ہے یا یوں کہیے کہ ہم وہ طوق اتار ہی نہ سکے، جس سے سچ کی آبیاری ہو۔

سچ بے چارہ برہنہ اور ہم اسے کپڑے پہناتے ہیں، اپنے مزاج کے۔ عجیب تھے اعتزارا حسن، جب یہ کہہ رہے تھے کہ اس فیصلے میں نظریہ ضرورت کا استعمال کیا گیا ہے اور ان کے برابر بیٹھے تھے عزت مآب زرداری صاحب۔ زرداری کے دائیں تو اعتزاز احسن تھے، بائیں تھے فاروق ایچ نائیک۔ جِن کو سندھ حکومت، مختلف کیسز کی فیس کی مد میں ان چار سال میں، چالیس کروڑ روپے دے چکی ہے۔ کوئی غلط غیر قانونی نہیں ہے، مگر یہاں آپ عوام کی آنکھ سے تو دیکھو۔ بقول شاعر

میری آنکھوں سے اس دنیا کو دیکھو
پھر جو چاہو تو چلی جانا

ایک تو سچ کا وہ پہلو ہے جو میں نے بیان کیا اور سچ کے سامنے آتے ہوئے تضادات بھی، دوسرا پہلو یہ ہے کہ سچ absolute بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی static ہوتا ہے۔ سچ کی ایک دھارا ہوتی ہے، سچ Organic ہوتا ہے۔ سچ حالات و سکنات میں اپنی ماہیت تبدیل کرتا جاتا ہے۔ سچ کا اپنا Context ہوتا ہے، تبھی تو بیسویں صدی آئن اسٹائن کی پوری کی پوری Theory of Relativity کے گرد گھومتی رہی۔ کیونکہ آئن اسٹائن نے کائنات کی پوری تشریح ہی change کردی۔

آئن اسٹائن سے پہلے Newton اور دوسرے سائنسدانوں نے کائنات کی تشریح جامد وساکن طور طریقوں سے پیش کی اور آئن اسٹائن نے اس پورے خیال کو ایک اور ڈائیمنشن دے دی، وہ ہے ’’وقت‘‘۔ اس سے پہلے ’’مکاں‘‘ تو دریافت ہوا تھا مگر ’’زماں‘‘ نہیں، یعنی  Space کا تعین تو ہوا ’’Time‘‘ کا نہیں۔

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے
سب ورق ہیں تیری یاد کے

کوئی لمحہ صبح وصال کا
کئی شام حجر کی مدتیں

اور پھر آگے اسٹیفن ہاکنگ آئے، روشن ہے جمال یار کی طرح، انھیں پوری کائنات میں Time & Space کا عکس نظر آیا، جو وہ اپنی کتاب Brief History of time میں رقم کرتے ہیں۔

اب آتے ہیں ہم کرپشن کو سمجھنے کی خاطر، اس کو نہ پیپلز پارٹی کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، نہ مسلم لیگ، نہ پی ٹی آئی، نہ فوج، نہ سپریم کورٹ کی۔ نہ سچ ہتھوڑا ہوتا ہے، نہ گلاب کی مانند۔ اب کرپشن کا یہ زاویہ وہ نہیں جس کے لیے58(2)(B) استعمال ہوتی ہے۔ نہ یہ کہ پھر ’عزیز ہم وطنو، کی بازگشت ہو۔ دنیا کا امیر ترین ملک امریکا اور اس کا صدر اوباما ایک غریب شخص۔ ایسے تو نہیں ہوا امریکا سپر پاور، جس طرح حادثے اچانک جنم نہیں لیتے، اسی طرح پاناما تک ہم ایک رات میں نہیں پہنچے۔

فرض کر لیجیے پاناما نہ ہوتا تو یہ ہنگامہ بھی نہیں ہوتا۔ کون آیا ہماری دہلیز پر دستک دینے؟ وہ تھے آئی سی آئی جے والے (International Consortium of Investigating Journalists)   کہ کس طرح پاناما موزیک فونزیکا نامی ایک لاء فرم تیسری دنیا کے لیڈر اپنی قوم سے لوٹی ہوئی رقم، ٹیکسز بچاتے ہیں، منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔ بے نامی ہوکے دنیا میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم سوئٹزرلینڈ کے اکائونٹس تک تو نہ پہنچے کہ کس طرح سے یہاں سے لوٹا ہوا پیسا وہاں پہنچتا ہے۔ مگر شکریہ آئی سی آئی جے آپ ہماری مدد کو آئے۔

یہ سب نیو لبرل ہیں، ٹرمپ سے لے کر سعودی عرب کے فرمانروا تک۔ ان کے پیسے ثقافت و مذہب کے زاویے نہیں رکھتے۔ وہ ہر طوق سے آزاد ہیں، ہر بیانیہ و رد بیانیہ سے۔ تو پھر کیوں نہیں غریب کی بھوک بھی آزاد ہو۔  ہمارا Rule of Law بھی بیچارہ، غریبوں کے لیے کچھ نہیں دیتا۔ اب کہاں سے کرے غریب کوئی اعتزار احسن کو اپنا وکیل، جس طرح زرداری صاحب اپنی پریس کانفرنس میں فرما رہے تھے۔

ترکی کے اردوان بالآخر، ترکی کی جمہوریت کو یرغمال کر بیٹھے۔ 1998ء میں میاں صاحب کے پاس بھاری مینڈیٹ تھا۔ وہ درباریوں کے چنگل میں آگئے۔ وہ ہی کچھ کرنا چاہتے تھے جو ترکی میں اردوان نے کیا۔ وہ امیرالمومنین بننا چاہتے تھے۔ اقتدار چیز ہی بڑی عجیب ہے۔ آدمی حقییقت سے ناتا توڑ دیتا ہے۔ وہ سماج کو، اداروں کو ساکت دیکھتا ہے۔ اسے یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ ان میں ’’وقت‘‘ بھی موجود ہے اور وہ وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

یہ وہ سپریم کورٹ نہیں، جس نے بھٹو کے لیے پھانسی کے آرڈر صادر کیے۔ یہ وہ فوج نہیں جس کے سربراہ جنرل ضیاء  ہوا کرتے تھے۔ اگر سب کچھ یونہی چلتا رہا تھا تو سندھ میں مسلسل تیسری بار حکومت زرداری صاحب بنائیں گے، اور پنجاب میں میاں صاحب۔ اب ایک افسر کی تنخواہ اگر ہے دو لاکھ اور اس کی side کی کمائی ہے دس لاکھ، دو لاکھ تو اور اس کو ملتے رہیںگے۔ مگر دس لاکھ لینے کے لیے اس کو سیاستدانوں کے گھروں کے چکر لگانے ہوں گے۔ ان کے تلوؤں تلے بیٹھنا ہوگا۔

اب کی بار رسم یہ چلی ہے، ادارے کوئی آمریت نہیں جمہوریت تباہ کرے گی۔ کیونکہ یہ جمہوریت بیانیہ و رد بیانیہ کی dynamics پر نہین پھلتی پھولتی، یہاں کا ووٹر ارتقاء کرتے ہوئے شعور کے اس زینے پر نہیں پہنچا جہاں ہندوستان یا یورپ و امریکا کا ووٹر پہنچا ہے۔ پھر مشکل یہ ہوئی ہندوستان کے ووٹر کے ساتھ کہ وہ دائیں بازو کے انتہاپرست بیانیہ کے شکار ہوگیا۔ آج کل فرانس میں یہی ماجرا ہے، ہالینڈ نے اپنی کوکھ سے جنم لیے ہوئے ٹرمپ نما شخص کو شکست دے دی اور ٹرمپ بھی ادارے کے بیچ پھنس گیا ہے۔

آج ہماری جمہوریت کے اندر بگاڑ اداروں نے روک دیا ہے اور ہم ہیں کہ اداروں کو متنازعہ بنارہے ہیں۔ کرپشن بہرحال ووٹروں کے شعور کا حصہ بن گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ اربن پاکستان میں آئی، پھر آہستہ آہستہ رورل پاکستان میں اتر گئی۔ ہماری جمہوریت دوسری جمہوریتوں سے مختلف اس طرح سے ہے کہ وہ پہلے بیساکھیوں پر چلتی رہی، اور اب وہ جڑیں پکڑ چکی ہے اور اب پاکستان نئی راہیں متعین کر چکا ہے، اسے ادارے اور قدراً شفاف و ایماندار لیڈر ملنے کی امید ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔