طاہر القادری کا بے مثال دھرنا

زمرد نقوی  اتوار 20 جنوری 2013

ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ شروع ہو کر دھرنے پر ختم بھی ہو گیا لیکن لوگ ابھی تک پوچھ رہے ہیں کہ اس دھرنے کا مقصد کیا تھا۔ اس لانگ مارچ کے حوالے سے دو باتیں انتہائی اہم ہیں کہ اس لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران نہ تو کوئی شیشہ ٹوٹا نہ گملا۔ اگر پاکستان کی متشدد سیاست کو دیکھا جائے تو یہ ایک بے نظیر پرامن لانگ مارچ تھا جس کی پاکستان کی سیاست میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکا کا جذبہ بھی ناقابل فراموش تھا کہ وہ دن رات اس دھرنے میں شامل رہے لیکن ان کے پائے ثبات میں لرزش نہیں آئی۔ طاہر القادری کے ناقدین کے حوالے سے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ان پر تنقید کرتے وقت تہذیب کے دائرے سے باہر نکل گئے اور یہاں تک کہ بات گالم گلوچ تک پہنچ گئی۔

طاہر القادری بھی آخر ایک انسان ہی ہیں، ان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں اور ہو سکتی ہیں۔ اگر یہ لکھنے اور بولنے والے اگر اپنے ممدوح قائدین کے ماضی کو بھی سامنے رکھ لیتے تو شاید و کچھ نہ بولتے اور لکھتے جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام کی نظروں میں ان کا بھرم اور اعتبار ہی ختم ہو گیا۔ لانگ مارچ اور دھرنے پر اعتراض کرنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کا لانگ مارچ اور دھرنا ماضی میں (ن) لیگ اور پی پی پی کر دیتی تو پاکستان میں نہ تو کبھی مارشل لاء لگتا اور نہ ہی آمریت آتی۔ ناقدین یہ بات بھی بڑی شدت سے دھرا رہے ہیں کہ طاہر القادری کے ساتھ جانے والے عوام تو چار دن اور رات باہر سخت سردی میں بیٹھے رہے جب کہ ان کے لیڈر کیبن میں رہے۔

یہاں ان سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ جب ان کے چاہنے والوں کو ا س پر اعتراض نہیں تھا تو آپ کون ہیں اعتراض کرنے والے ؟کیا اتنے بڑے اجتماع میں آپ نے کسی ایک کو بھی اعتراض کرتے دیکھا؟ جب کہ تمام ٹی وی چینلز اس کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے چاہنے والوں کی خواہش پر ہی کیبن میں تھے کیونکہ وہ اپنے لیڈر کی ہر لحاظ سے سلامتی چاہتے تھے جہاں ہر لمحہ دہشت گردی کا خطرہ تھا۔ لگتا ہے کہ قادری صاحب کے مخالفین اس سارے عمل میں ان کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچنے پر سخت مایوسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس دھرنے میں دودھ پیتے بچے ماؤں کے ساتھ‘ لڑکیاں‘ عورتیں‘ مرد سب اپنی مرضی سے شامل تھے۔ دھرنے نے یہ ثابت بھی کر دیا کہ وہ زبردستی نہیں لائے گئے تھے نہ ہی یہ کوئی سرکاری جلسہ تھا جس میں پٹواری تحصیل د ار اور سرکاری مشینری کے ذریعے لوگ اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ دھرنے پر یہ بھی اعتراض کیا گیا کہ اس میں لوگ مجبوری سے شامل تھے۔

کیا ڈاکٹر طاہر القادری نے ان کے پیروں میں زنجیریں باندھ دیں تھیں کہ یہ لوگ دھرنا چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔ یہ تمام لوگ ایک مشن اور جذبے کے تحت آئے تھے۔ بجائے اس کے آپ ان کے اس جذبے کی تعریف و تحسین کریں جو پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا،آپ ان کی مذمت کر رہے ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنی مرضی سے آئے تھے اور ایک مشن جذبے کے تحت آئے تھے۔ کیا پاکستان کی دونوں بڑی جماعتوں نے اس طرح کا کا کوئی لانگ مارچ اور دھرنا دیا ہے۔ آپ ان کے مقاصد سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کے اس مشن اور جذبے کا انکار نہیں کر سکتے جس کے لیے انھوں نے موسم کی سختیاں برداشت کیں۔

کیا پی پی پی اور (ن) لیگ کے ہمنوا بھی اس جذبے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ماضی کے لانگ مارچوں کا نتیجہ نکل، اس کا کیا نکلا ہے۔ اس کا نتیجہ آئین کے آرٹیکل 62,63 پر عمل درآمد کرانا ہے۔ اگر اس الیکشن میں ان آرٹیکلز پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کیا گیا تو پہلے سے بھی بڑا لانگ مارچ اور دھرنا تیار ہے جس میں عمران خان کی شمولیت بھی یقینی ہے۔ طاہر القادری پر دل کھول کر اعتراض کریں آپ کو اجازت ہے لیکن کان کھول کر سن لیں کہ ڈاکٹر صاحب کے مطالبات قوم کی خاموش اکثریت کی آواز ہیں ،کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ قوم اب ایسے انتخابات چاہتی ہے جس میں مورویثت اور خاندانی بادشاہتوں کا خاتمہ ہو۔ باپ کے بعد بیٹا‘ بھائی‘ بھتیجا اور بیٹی ہی نہ نوازی جائے بلکہ عوام کو بھی اسمبلیوں کی ممبر شپ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم بننے کا موقع ملے۔

ہمارے موجودہ نظام کا نام جمہوریت ہے لیکن صرف نام بدلا ہے بادشاہت کا نظام جاری و ساری ہے۔ ہمارے خطے میں سیکڑوں سال سے جاری بادشاہت نے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے جمہوریت کی نقاب اوڑھی ہوئی ہے جس میں عوام کو ایک ’’معمول‘‘ کی طرح ہانک کر پولنگ اسٹیشنوں پر لے جایا جاتا ہے‘ ٹھپے لگوائے جاتے ہیں‘ یہ ہے عوام کی اوقات اور حقیقت۔ ان میں سے جو کچھ زیادہ ’’خوش نصیب‘‘ ہوتے ہیں انھیں قیمے والے نان اور پلاؤ مل جاتا ہے۔ انتخابی عمل دس سے بیس کروڑ کے اخراجات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اتنی ساری دولت وہی خرچ کر سکتا ہے جس نے عوام کی دولت کو لوٹا ہو۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کروڑوں روپے پارٹی سربراہ کو سلامی میں دینے کے لیے بھی ہونے چاہئیں۔ اب بے چارے عوام اپنی حق حلال کی کمائی سے ایسے الیکشن تو نہیں لڑ سکتے۔

حقیقت میں ہمارا موجودہ کرپٹ انتخابی نظام صرف چند سو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ ایم این اے، ایم پی اے اور سینٹرز کے طور پر منتخب ہونے والوں کی تعداد کم و بیش ہزار ہوتی ہے۔ اربوں روپے کے انتخابات کے ذریعے صرف  ان لوگوں اور ان کے اہل خانہ‘ قریبی عزیزوں اور دوستوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔ ہر طرح کے عہدے پرمٹ ٹھیکے یہ اپنے ہی لوگوں میں بانٹ لیتے ہیں اور عوام کے حصے میں صرف بھوک‘ غربت‘ بیروزگاری ہی آتی ہے۔

ہم اس گلوبل دنیا کا حصہ ہیں جس میں مشرقی وسطیٰ سے برصغیر تک بڑی تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ہمیں موجودہ لانگ مارچ اور دھرنے کو اس پس منظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم نہیں دیکھیں گے تو حقیقت کو نہیں پا سکیں گے۔ تبدیلی کا یہ عمل کتنا تیز ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ حال ہی میں سعودی شاہی خاندان کے اہم رکن 82 سالہ شہزادہ فیصل نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب میں پارلیمانی جمہوریت نافذ کی جائے۔ شہزادہ فیصل نے کہا کہ انھیں شاہ عبداللہ سے بہت امید ہے کہ وہ تبدیلی کے ایجنڈے کو تیزی سے نافذ کر سکتے ہیں اور اس کے فوراً بعد یہ خبرآتی ہے کہ شاہ عبداللہ نے سعودی کونسل میں 30 خواتین کو نامزد کر دیا ہے۔ دوسری عرب ریاستیں بھی تیزی سے تبدیلی کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ تبدیلیاں کیوں آ رہی ہیں اور کیوں لائی جا رہی ہیں۔ پاکستان بھی ان تبدیلیوں کا حصہ ہے۔ مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک خطے کا ’’نیا جنم‘‘ ہونے جا رہا ہے۔

انیسویں صدی کے آخر اور 1947ء کے بعد مشرق وسطیٰ میں بادشاہتوں کا قیام اور پاکستان اور بھارت کی ’’آزادی‘‘ نظر کا دھوکہ تھی۔ امریکا پہلی مرتبہ حقیقی تبدیلی  اس خطے میں لا رہا ہے۔ اس سے پہلے وہ ہمارے ملک اور خطے میں جو تبدیلی لاتا تھا وہ عوام دشمن ہوتی تھی۔ یعنی اس کے فائدے میں عوام کا نقصان ہوتا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ خطے میں جمہوریت لا رہا ہے۔ جمہوریت لانے میں بھی اس کا ’’بڑا فائدہ‘‘ ہے لیکن اس فائدے میں پاکستانی عوام اور خطے کے عوام کا بھی فائدہ ہے کہ بقول امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ پاکستان میں کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے اور پاکستانی عوام کو بھی ایسی جمہوریت چاہے جو کرپشن اور موروثیت سے پاک ہو‘ جس کے نتیجے میں پاکستانی عوام کے حالات بہتر اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔

سیاسی حوالے سے آنے والی اہم تاریخیں 26-25 جنوری ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔