بعداز خرابیِ بسیار

مقتدا منصور  اتوار 20 جنوری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اتوار13جنوری کولاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ اور پھر اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے جاری رہنے والاچارروزہ دھرنا ،حکومت اورادارہ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری کے درمیان معاہدے کے بعد 17جنوری کو اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔23دسمبر2012ء کو لاہور میںہونے والے جلسے سے 17جنوری2013ء کو دھرنے کے اختتام تک رونما ہونے والے مختلف واقعات اور حکومت کے ساتھ معاہدے کے ملکی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔اس لیے اس پوری صورتحال کے مختلف پہلوئوںکاجائزہ لینے کی ضرورت ہے،تاکہ معروضی حقائق تک پہنچنے میں مددمل سکے۔

سب سے پہلے اس دھرنے کے مثبت پہلوئوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔اول،پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک بہت بڑا اور پرامن دھرنا تھا، جس میں نوجوانوں کے علاوہ خواتین، بچے اور بوڑھے بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔  دوئم،ان چار دنوںکے دوران نہ کوئی پتھرپھینکاگیا، نہ کوئی گملاٹوٹا۔نہ گولی چلی نہ گاڑی جلی اور نہ ہی کسی قسم کی افراتفری پھیلی،جس سے شرکا کے صبر وتحمل اور ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوںمیںنظم وضبط اور ان کی اعلیٰ تربیت کااندازہ ہوتاہے۔ سوئم، شرکا کی بڑی تعداد تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل تھی، جنہوں نے موسم کی سختیوں اور منفی پروپیگنڈے کے باوجود یکسوئی کے ساتھ چار دن گزارکرثابت کیا کہ وہ اس ملک میں سنجیدگی کے ساتھ تبدیلی کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے ہرقسم کی قربانی دے سکتے ہیں،جو ایک خوش آیند بات ہے۔

چہارم،ذرایع ابلاغ نے بحیثیت مجموعی اس دھرنے کے ہر موقعے کی غیرجانبدارانہ کوریج اورہرپہلو پر بحث ومباحثے کے ذریعے عوام تک معلومات پہنچاکرانھیں غور وفکر کے نئے زاوئیے دیے اور انسانی مسائل کو اجاگر کیا۔ پنجم،اپنی تمامتر انتظامی خرابیوں اورفکری انتشار کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت نے گوکہ تاخیر کے ساتھ ہی سہی ادارہ منہاج القرآن کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنے جمہوری رویوں اورسیاسی عزم کا مظاہرہ کیا۔اس کے علاوہ اس جماعت نے ہر ایسے اقدام سے گریز کیا جس سے انتشار میں اضافہ ہوسکتا تھا۔ششم، گزشتہ بدھ کو میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میںاپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں نے انتخابی عمل پر دوٹوک موقف اختیار کرکے جمہوری عمل کے تسلسل کوتقویت دی۔ جس کے قومی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

جومنفی باتیں اس دوران سامنے آئیںوہ بھی قابل غور ہیں۔اول،23دسمبر 2012ء سے17جنوری2013ء کی شب کو ہونے والے معاہدے تک علامہ طاہر القادری کا رویہ اور طرز عمل غیر متوازن اور غیر ذمے دارانہ تھا۔جس کی وجہ سے ان کے جائز مطالبات بھی متنازع ہوگئے۔دوئم،علامہ مناسب ہوم ورک اورسیاسی دوراندیشی کے بغیر میدان میں اترے۔انھیں کچھ قوتوں سے حمایت کی توقع تھی،جس کا شاید وعدہ بھی کیا گیاہو۔مگر معروضیت کودیکھتے ہوئے وہ قوتیں آہستہ آہستہ پیچھے کھسکتی چلی گئیں اور علامہ میدان میں تنہارہ جانے کے باعث بند گلی میں پھنس گئے۔اگر پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں انھیں اس صورتحال سے نہ نکالتیں، تو خود ان کے لیے نئے مسائل پیدا نے کاامکان تھا۔

دوئم، مسلم لیگ(ن) نے جس طرح علامہ قادری اور ان کے مطالبات کوانا کا مسئلہ بنایا،اس روش سے اس کاقومی جماعت والا کرداربری طرح متاثرہوا۔یہ بھی اندازہ ہواکہ اس جماعت میں مسائل کی نزاکتوں کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزماہونے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ اس جماعت کے رہنمائوں نے مختلف چینلز پر جوطرزعمل اورجس زبان کا استعمال کیا،وہ نہ صرف اخلاق سے گری ہوئی تھی بلکہ ان کی سیاسی کوتاہ بینی کابھی اظہار تھی۔ سوئم، وفاقی وزیر داخلہ کارویہ ان کے مقام ومنصب کے منافی تھا، جس کی وجہ سے تنائو میں اضافے کاخطرہ پیداہوگیاتھا۔ چہارم ، بعض سینئر صحافیوں اور اینکرپرسن کا رویہ بھی خاصا جارحانہ اور جانبدارانہ تھا۔ وہ جس اندازمیں اس دھرنے پر تبصرہ یا رائے کا اظہار کررہے تھے، اس سے ان کی سیاسی وابستگیاں صاف نظر آرہی تھیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں حکمرانی کے مسائل کا حل صرف اور صرف جمہوریت کے تسلسل میں ہے۔مگر ساتھ ہی اچھی حکمرانی بھی ایک لازمی شرط ہے۔اچھی حکمرانی اعلیٰ صلاحیتوں اور بلند کردار کے حامل افراد کے منتخب ہونے سے مشروط ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے،جب انتخابی عمل میں بعض کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔ یہ درست ہے کہ کرپشن اور بدانتظامی پر قابوپانے کے لیے قانون سازی ہویا انتخابی عمل میںاصلاحات صرف پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار ہے۔مگر جب پارلیمنٹ میں ایسی قوتیں حاوی آجائیں،جومثبت تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہوں،توان پر دبائو ڈالنے کے لیے اس قسم کے گھیرائوکے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔ جس کی مثال بھارت میں اناہزارے کی تحریک ہے، جو دھرنوں کے ذریعے کرپشن کے خلاف قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ پر دبائو ڈال رہی ہے۔

پاکستان میںموجودہ نظام کے خلاف عوام کی ناپسندیدگی اور اکتاہٹ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔جس کے مظاہر وقتاً فوقتاً نظر آتے رہتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ پاکستان میںاس وقت جو پارلیمنٹ موجود ہے،اس میںٹیکس نادہندگان، بدعنوانی اورجعلسازی سمیت مختلف جرائم میں ملوث افراد بھاری تعداد میں موجود ہیں،جو عوامی خواہشات کی حامل ترقی دوست قانون سازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ انتخابی عمل میں پائے جانے والی خامیوں کی وجہ سے آیندہ انتخابات میں ان عناصرکاراستہ روکاجانا ممکن نہیں ہے۔اس لیے انتخابات سے قبل انتخابی عمل میں مناسب اصلاحات بہر حال ایک ناقابل انکار ضرورت ہے۔ جس کے لیے عوامی دبائو وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔اس قسم کے دبائو میں عددی تعداد سے زیادہ لوگوں کی استقامت قابل غور ہوتی ہے۔اس لیے علامہ قادری کے مطالبات اور طریقہ کار میں موجود نقائص اور ان کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ انھوں نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینک کر ارتعاش ضرور پیدا کیا ہے۔جس کے بہر حال دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔

عوام میں موجودہ طرز حکمرانی کے لیے اکتاہٹ اور تبدیلی کے لیے امنگ،ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو سیاسی عمل کا حصہ ہیں۔عوام کے رجحان اور رویوں کو دیکھتے ہوئے انھیں اپنی پالیسیوںاور حکمت عملیوں میںمناسب تبدیلی لانا ہوگی۔ساتھ ہی انھیں اپنے اقدامات سے اپنے سیاسی وجود اور اقتدار میں آنے کا جوازمہیاکرنا ہوگا۔انھیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت اورجمہوری عمل بے شک ایک دن میں مستحکم نہیں ہوتا،جس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔مگرسمت کا تعین بہر حال اولین ترجیح ہوتی ہے۔انھیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ تبدیلی کا مطالبہ آج بعض عناصر آئین وقانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کررہے ہیں۔اگر انھوں نے اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کیا تو ہوسکتا ہے کہ کسی وقت ایسی قوتیں سامنے آجائیں جو آئین کی حرمت اور قانون کی بالادستی سے انکاری ہوں،ان سے مذاکرات اور انھیں آئین کے دائرے میں لانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔اس لیے انھیںایسی کسی صورتحال سے پہلے اپنی سمت کو درست کرنا ہوگا۔

یہاں ذرایع ابلاغ کو بھی اپنے رویوں اور طریقہ کار میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ذرایع ابلاغ جس تحرک اور فعالیت کا مظاہرہ کررہاہے،اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ میڈیانے گزشتہ دس برسوں کے دوران عوام کے سیاسی اور سماجی شعور میںبے پناہ اضافہ کیاہے،جس کی وجہ سے انھیںمزید بے وقوف بنانا مشکل ہوچکاہے۔لیکن ساتھ ہی بعض اینکرپرسن،رپورٹر زاورتجزیہ نگاروں پر ان کی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے انگشت نمائی بھی ہورہی ہے۔یہ شکایت بھی عام ہے کہ کچھ تجزیہ نگارمعروضیت کے بجائے سیاسی مقاصد کو اولیت دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے بہت سے قومی امور کی تفہیم وتشریح وسیع تر قومی مفاد کے بجائے سیاسی جماعتوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے۔حالانکہ ذرایع ابلاغ کی ایک ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ دوانتہائی رویوں کے درمیان کسی معتدل اوردرمیانی سوچ کے لیے گنجائش پیداکرے۔ اس مقصد کے لیے صحافیوں اور تجزیہ نگاروںکو پیشہ ورانہ غیر جانبداری اور صورتحال کی معروضیت پرتوجہ مرکوز کرناہوگی۔

بہر حال بعد از خرابی بسیار علامہ قادری کا دھرنا کسی جانی ومالی نقصان کے بغیرپرامن طورپر ختم ہوچکاہے۔ مگر اہل وطن خاص طورپر سیاسی جماعتوں کے لیے ان گنت سوالات چھوڑ گیا ہے۔ جس کے جوابات تلاش کرنا اب حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے۔ انھیں سوچنا ہوگا کہ آیا اس نظام کو ایسے ہی چلانا ہے یا مرغ باد نما ہواکا جو رخ بتا رہاہے اس کے مطابق کچھ تبدیلیاں اور تیاریاںبھی کرنا ہیں۔انھیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس سال کے آغاز میں چند ہزار لوگوں نے ایوانوں کا چندروز تک گھیرائو کیااور مصالحت پر آمادہ ہوگئے۔ ہوسکتاہے کہ آنے والے وقتوں میں یہ تعداد کئی گنا بڑھ جائے اورکسی اصول ،کسی ضابطے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے  کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ بھی نہ ہوں۔ اس لیے عقل وخرد کا تقاضہ ہے کہ اس سے قبل کوئی ہمیںجبراً تبدیل ہونے پر مجبور کرے،ہم اپنی روش خود ہی تبدیل کیوں نہ کرلیںاور ماضی کی غلطیوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔