دو راستے

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 20 جنوری 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

اقبال نے کیا خوب کہا تھا    ؎

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اس کا احساس اکثر ہوتا ہے خاص کر جب دیندار اور پڑھے لکھے نوجوانوں پر نظر پڑے۔کچھ عرصے قبل راقم نے اپنے کالم میں جامعہ کراچی کے شعبہ ویژول اسٹڈیز کی نمائش کا ذکر کیا تھا جس میں نوجوان طلبا نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف ملکی مسائل کے حل کو پیش کر نے کی کامیاب کو ششیں کی تھیں۔ ان کوششوں میں معاشرتی اور اخلاقی مسائل بھی شامل تھے۔ پوسٹرز کے ذریعے جن مسائل کی جانب نشاندہی کی گئی تھی ان میں چند انتہائی متاثرکن تھے اور راقم کو حیرت ہورہی تھی کیونکہ جن مسائل کی طرف طلبا نے اپنے انداز میں توجہ دلائی تھی عام طور پر مساجد کے امام اپنے جمعہ کے بیان میں پیش کرتے ہیں یا ان کو عموماً دینی حلقے ہی اہمیت دیتے ہیں، طلبا نے عصبیت، غیبت اور رشوت جیسے مسائل کو معاشرتی نقطہ نظر سے اپنے پوسٹرز میں پیش کرکے ان کی تباہی کی طرف متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

مذکورہ تینوں مسائل یا درحقیقت برائیوں کو ہم نے اس قدر اپنے اندر جذب کرلیا ہے کہ اب یہ برائی کم اور معاشرتی ضرورت بلکہ بنیادی ضرورت بن گئی ہیں۔ اس کا خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ ماضی میں ہم رشوت لینے دینے والے کو محتاط انداز اور پردے کا استعمال کرتے دیکھتے تھے لیکن اب تو یہ کھلے عام ’’معزز عمل‘‘ بنا لیا گیا ہے۔ گویا اس کے ثمرات و فوائد کے اس قدر قائل ہوگئے ہیں کہ اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی نہ ہی اس کا انجام برا سمجھا جاتا ہے۔

راقم کو اس وقت اپنے اسکول کے ایک استاد کی حق و حلال کی نصیحت یاد آرہی ہے جو انھوں نے ہم سب اسکول کے طلبا کو 14 اگست کے موقع پر ایک تقریر میں مشہور واقعہ سناتے ہوئے کی تھی، ہمارے استاد کے الفاظ آج بھی ہمارے کانوں میں سنائی دیتے ہیں۔ انھوں نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بچو سنو! حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے 12 بیٹے تھے۔ جب ان کے انتقال کا وقت قریب آیا تو ان کے سالے مسلمہ بن عبدالملک ان سے کہنے لگے کہ اے امیر المومنین! آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا، ظلم کیا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے پوچھا کہ کون سا ظلم کیا ہے؟ جواب میں مسلمہ بن عبدالملک نے کہا کہ آپ ترکہ میں اپنی اولاد کے لیے جو کچھ چھوڑے جا رہے ہیں وہ فی کس دو درہم سے زیادہ نہیں بنتے۔

جواب میں پھر حضرت عبدالعزیزؓ نے کہا کہ میں نے اپنی اولاد کو حرام کا ایک ذرہ نہیں کھلایا جب کہ حلال میرے پاس اس قدر تھا کہ ان کو ترکہ میں دو درہم ہی ملتے۔ اس موقع پر مسلمہ بن عبدالملک نے کہا کہ میں ایک لاکھ درہم دیے دیتا ہوں اپنے بچوں میں تقسیم کردیں تاکہ ان کی دنیا سدھر جائے۔ یہ سن کر جواب میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے کہا کہ جہاں جہاں سے تم نے ظلم اور رشوت سے یہ پیسہ اکٹھا کیا ہے، ان لوگوں کو واپس لوٹا دو، میرے بچوں کو تمہارے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اس کے بعد حضرت عبدالعزیزؓ نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ تمہارے لیے دولت جمع کرتا، چاہے حلال ہوتی یا حرام، اس کے بدلے میں مجھے دوزخ ملتی اور دوسرا راستہ یہ کہ تمہیں تقویٰ سکھاتا، اﷲ سے لینا سکھاتا اور خود جنت میں جاتا۔ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا کیونکہ میں دوزخ کی آگ برداشت نہیں کرسکتا۔

یہ کچھ بتانے کے بعد استاد نے ہم سب بچوں کو مخاطب کرکے کہا کہ معلوم ہے بچو! ان دونوں حضرات کی اولاد کے ساتھ آگے کیا کچھ ہوا؟ مسلمہ بن عبدالملک جو اپنے بچوں کے لیے فی کس دس، دس لاکھ درہم چھوڑ کر مرے تھے، ان کی اولاد مسجد کی سیڑھیوں پر بھیک مانگا کرتی تھی اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی اولاد ایک ایک مجلس میں سو سو گھوڑے اﷲ کے نام پر خیرات کیا کرتی تھی۔ اس کے بعد استاد نے پھر ہمیں پوچھا بتاؤ کون سا راستہ بہتر ہے؟ مسلمہ بن عبدالملک کا یا حضرت عمر بن عبدالعزیز کا؟

بات سمجھنے کی ہے اگر سمجھ میں آجائے۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رشوت لینا اور دینا تو دو فریقین کا باہمی معاملہ ہے اس سے بھلا کسی کو وہ نقصان نہیں پہنچاتے۔ اسی طرح سرکاری معاملات میں بھی رشوت کو کمیشن یا انٹرسٹ کا خوبصورت لفظ دے کر اس کو قطعی جائز بنا لیا گیا ہے اور یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ نہ یہ گناہ کا کام ہے نہ ہی اس سے معاشرے یا ملک کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔

صرف تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کے نقصانات اس قدر ہیں کہ آج ہماری پوری قوم اور معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے اور عوام کی کسمپرسی کی حالت میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس کا ثبوت حالیہ دنوں میں اخبار میں شایع ہونے والی مختلف خبریں بھی ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مثلاً عالمی سطح پر کرپشن کے لحاظ سے نمایاں ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام بھی ہے۔ اسی طرح اس خبر پر بھی غور کیجیے جس کے مطابق گزشتہ پارلیمنٹ کے مقابلے میں اس مرتبہ ہمارے منتخب عوامی نمایندوں کے اثاثوں میں (اسمبلیوں کی مدت کے دوران) کم ازکم تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ ستر فیصد ارکان پارلیمنٹ نے لازمی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔ پچھلی پارلیمنٹ میں اراکین کے اثاثے ستائیس ملین سے کم تھے جب کہ موجودہ دور میں یہ اکیاسی ملین تک پہنچ گئے ہیں۔

ملک میں یومیہ چار سے پانچ ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ اسی تناظر میں یہ دیکھیے کہ ہمارے بڑے ادارے ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز وغیرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ گویا ایک جانب ادارے دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئے تو دوسری جانب امانتوں کے امین کی حیثیت رکھنے والوں کے مال و دولت کئی گنا بڑھ گئے۔ اداروں کی تباہی سے ایک طرف ملکی معیشت ہی نہیں ملکی استحکام بھی دائو پر لگ رہا ہے اور دوسری طرف عوام کی حالت اور بھی دگرگوں ہوتی جارہی ہے، لوگ جرائم کی طرف مائل ہوتے جارہے ہیں۔ ملکی ادارے تباہ اور خزانہ خالی ہورہا ہے جب کہ انفرادی کھاتے ملک اور بیرون ملک بڑھتے ہی جارہے ہیں، کیا جب ملک کمزور ہوگا تو ان انفرادی کھاتے داروں کا مستقبل محفوظ ہوگا؟ شاید کسی کو ابھی سوچنے کی فرصت نہیں۔

ان امانتوں کے امین والوں کو اور ان جیسے بہت سے لوگوں کو یہ خوش فہمی ہوگی کہ ان کی دولت اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے بہت اچھی محافظ ہوگی اور ان کا ترکہ ( بینک بیلنس) ان کی اولاد کو دنیا کی سختیوں اور مشکلات سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوگا۔ یہ ان کی خوش فہمی ہے یا حقیقت حال بھی یہی ہے؟ جو کچھ بھی ہو نہ صرف حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا مذکورہ واقعہ بلکہ دنیا کی تاریخ کے اور بھی بہت سے واقعات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ دنیا میں زندگی گزارنے کے دو ہی راستے ہیں ایک مسلمہ بن عبدالملک اور دوسرا حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا۔ مسلمہ بن عبدالملک کا راستہ جس میں عوام کی دولت رشوت اور دیگر ناجائز ذرایع سے حاصل ہونے والی دولت کے انبار تو ہیں، اولاد کے مستقبل کی ضمانت نہیں ، اب فیصلہ ہم سب نے کرنا ہے کہ ہمارے لیے کون سا راستہ نجات کا ذریعہ ہے، پہلا یا دوسرا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔