انٹر نیٹ اور عورت

شیخ جابر  اتوار 20 جنوری 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

یہ صدی کمپیوٹرکی صدی ہے۔اِس صدی میں چھوٹے چھوٹے کام بھی کمپیوٹر کی معاونت سے کیے جا رہے ہیں۔ کمپیوٹر کے ساتھ انٹرنیٹ لازمی سی چیز بنتا جا رہا ہے۔ کیا ہے جو نیٹ پر نہیں ہے؟ اورکون ہے جو نیٹ پر نہیں ہے؟کمپیوٹر اور نیٹ، کچھ نہیں تو موبائل ہی کی شکل میں ہماری زندگیوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ساری دنیا میںدو ارب چالیس کروڑ افراد انٹرنیٹ سے وابستہ ہیں۔عالمی آبادی کا کم وبیش ایک تہائی۔لیکن اِس ضمن میں گزشتہ دنوں ایک نہایت ہی دل چسپ مطالعہ سامنے آیا۔کمپیوٹرز سے وابستہ شاید ہی کوئی فرد ہو جو ہائی ٹیک فرم، اِن ٹیل کارپوریشن سے واقف نہ ہو۔’’اِن ٹیل ‘‘ نے’’ امریکی اِسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ‘‘اوراقوامِ متحدہ کی مدد سے یہ تحقیق کی۔

عنوان تھا’’انٹرنیٹ اور خواتین‘‘ نتائج خاصے حیران کُن تھے۔رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ کے استعمال میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔یہ فرق اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ترقی پذیر معاشروں میں ایک ارب دوکروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اِن میں خواتین صرف چھ کروڑ ہیں۔اِس حوالے سے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ایک کانفرنس بھی ہوئی۔اِ س کانفرنس میں ترقی پذیر معاشروںکے لیے ہدف طے کیا گیا کہ آیندہ تین برس میںوہاں کی نیٹ استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد کو دُگنا کرنا ہے۔اِس کانفرنس میں امریکا، اقوامِ متحدہ اور اِن ٹیل کارپوریشن کے مندوبین شریک تھے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں، ترقی پذیر معاشروں کے لیے فیصلے ترقی یافتہ ممالک ہی میں ہوتے ہیں۔اول الذکر البتہ ہمیشہ اِس اِلتباس یا نشے کا شکار رہتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ترقی یافتہ ممالک نے کمپیوٹر بنایا۔بڑی بڑی کمپنیاں بڑی تعداد میں کمپیوٹرز تیار کرنے لگیں۔اب انھیں اپنے کمپیوٹر فروخت کرنے تھے۔انھوں نے اسکولوں،کالجوں،دفاتراور ترقی پذیر ممالک کو پٹیاں پڑھانا شروع کر دیں کہ جناب آپ کو ترقی کرنی چاہیے کمپیوٹر استعمال کرنا چاہیے۔یوں ایک منظم کاروباری منصوبے کے تحت کمپیوٹرز کی فروخت شروع ہو گئی جو آج بھی جاری ہے۔فائدہ کسِے ہوا؟کمپیوٹرز بنانے والوں کو تو خوب ہی فائدہ ہوا۔

انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں۔اربوں کھربوں روپے کمائے گئے۔اور یہ غیر مختتم سلسلہ ہنوز جاری ہے۔لیکن اِس سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہوا؟ایک طالب علم کو کیا فائدہ ہوا؟غور کیجیے؟صلائے عام ہے؟ کیا آج کا طالب علم اپنے آبائو اجداد سے زیادہ با ادب ، با اخلاق اور معاشرے کا مفید شہری ہے؟گورا راج میں جب اِس نوآبادیات میں ایک خاص طرز کا تعلیمی نظام رائج کیا گیا تھا تو اُس کے پسِ پشت ایک مقصد کار فرما تھا کہ اُنھیں اپنی سہولت کے لیے کلرک بابوئوں کی ایک فوج درکار تھی۔آج بھی عالمی سطح پر جس تعلیمی نظام کا رواج ہو چلا ہے اُس سے ملٹی نیشنلز کی خدمت اور غلامی کے علاوہ اور کون سا مقصد حاصل ہو سکتا ہے؟حکومتوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ تعلیمی اداروں اور دفاترمیںکمپیوٹرز کو رواج دیں۔ ترقی پذیر ممالک سے اربوں کا زرِمبادلہ منتقل ہوگیا۔

بدلے میں کیا ملا؟ پاکستان کی حد تک توہم آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اسکولوں، کالجوں میں دیے گئے کمپیوٹرز کی بڑی تعداد ضایع ہوگئی۔کئی اسکولوں میں تو برسوں گزرنے کے بعد بھی کمپیوٹرز کے ڈبے تک نہیں کھولے گئے۔سرکاری دفا ترکے لیے خریدے گئے ستر فی صد کمپیوٹرز یا تو بہ طورٹائپ رائٹر استعمال ہوئے یا گیم کھیلنے کے کام آئے۔ ہم سے کروائے گئے ہر ہر فیصلے کو خوب خوب کیش کروایا گیا۔بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ ترقی کا جھانسا۔ آج مجھے اپنے والد کے مقابلے میں فکرِ معاش کے لیے زیادہ وقت دینا پڑتا ہے اور زیادہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔جب کے ہمارے والد ،دادا کے مقابلے میں زیادہ کام کرتے تھے۔ یہ صرف پاکستانیوں ہی کا المیہ نہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں جو ہمارے اعزہ ہیں اُن کا بھی یہ ہی حال ہے۔

ملازمت کا دورانیہ جو کسی دور میں چھ گھنٹے تھا،آٹھ گھنٹے ہوا اور اب بارہ بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔اگر کوئی اور ملازمت بھی کر لی تو چودہ سے سولہ گھنٹے صرف کام۔بڑے شہروں میں آمدورفت کے لیے جو وقت صرف ہوتا ہے وہ علیحدہ ہے۔ گھر کے دال دلیے کے لیے اگر بیگمات کا وقت بھی شامل کر لیا جائے تو دادا کے مقابلے میں یہ وقت کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے ۔ سب دِن رات صرف اور صرف کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔کس لیے اور کس کے لیے ؟کوئی پتہ نہیں۔بھلا بتائیے یہ کون سی ترقی ہے، جس میں ہمیں خود اپنے لیے اور اپنے اعزہ و اقارب کے لیے ہی وقت میسر نہیں؟بات موضوع سے ہٹ کر چل ہی نکلی ہے تو لگے ہاتھوں یہ بھی کہ آج ہم اپنے آباء کی نسبت کئی گنا زیادہ ذہنی اور اعصابی دبائو اور تنائو کا شکار رہتے ہیں۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ واشنگٹن میں ہونے والی کانفرنس میں ترقی یافتہ ملک میں بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کی خواتین کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ آیندہ تین برسوں میںترقی پذیر ممالک کی ڈیڑھ ارب خواتین کی انٹرنیٹ تک رسائی ممکن بنائی جائے گی۔خواتین کے عالمی معاملات پر امریکی سفیر میلان ورویر نے کہا ’’مجھے امید ہے کہ یہ رپورٹ انٹرنیٹ کے استعمال میں صنفی تفاوت دور کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔نیٹ تک رسائی میں صنفی تفاوت کا مطلب ہے کہ خواتین کو صلاحیتوں کے استعمال کے محدود مواقعے میسر آرہے ہیں۔ یہ ایک اہم معاشی نقصان ہے اُن کے خاندانوں اور طبقے کے لیے ۔‘‘ آپ نے حکومتوں اور اداروں پر زور دیا کہ وہ اِس ضمن میں اپنا کردار نبھائیں۔

اِس موقعے پر اِن ٹیل کارپوریشن کی ڈائریکٹر برائے معاشی اثرات رینے وٹمائر نے کہا کہ’’خواتین کی انٹر نیٹ تک رسائی مختلف خطوں میں مختلف ہے۔مثلاً امریکا میںیہ اٹھتر فی صد تک ہے۔آئس لینڈ میںستانوے فی صد۔ اگر آپ بھارت کا ذکر کریںتو وہاں کی پھلتی پھولتی معیشت کے باوجود صرف گیارہ فی صد نیٹ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ یوگنڈا میں تیرہ فی صد۔ ترقی پذیر ممالک میں مردوں کے مقابلے میں خواتین میں نیٹ کا استعمال تیئس فیصد تک کم ہے۔ یہ فرق افریقا وغیرہ میں پینتالیس فی صد تک چلا گیا ہے۔‘‘اور اب وٹمائر کے خطاب کا اہم ترین حصہ ’’غریب ممالک کی خواتین ٹیکنالوجی سے نامانوسیت یا اپنے ثقافتی اثر کے تحت انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔

سروے کے مطابق بھارت اورمصر کی پانچ میں سے ایک خاتون نے اپنے لیے انٹرنیٹ کو قطعی غیر موزوں قرار دیا۔‘‘ہمارے نزدیک یہ ایک بہت اہم بات ہے۔ اگر کسی خطے کی خواتین کسی ٹیکنالوجی کو اپنے لیے غیر موزوں قرار دیتی ہوں تو محض نفع بٹورنے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں اورحیلے بہانوں سے اُنھیں انٹرنیٹ کی ترغیب دلا کر اِس ’’جال‘‘ کا حصہ بنانا کہاں کا انصاف ہے؟یہ کون سی آزادی اور کون سی جمہوریت ہے کہ آپ ترقی پذیر ممالک کی خواتین پر اپنے فیصلے اور اپنا انٹر نیٹ تھوپتے چلے جائیں؟دنیا بھر میں موجود ثقافتوں کو نیٹ اور ترقی کی یلغار کی بھینٹ چڑھا دینا کِس قسم کی انسان دوستی ہے؟

منگل پندرہ جنوری کو ’’ٹیلیگراف‘‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ متحدہ برطانیہ میں ایک کروڑچھ لاکھ افراد ایسے ہیںجو کمپیوٹرز کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔قریباً اسی لاکھ برطانوی کبھی آن لائن ہی نہیں ہوئے۔محض چار برس قبل یہ تعدادایک کروڑ پندرہ لاکھ تھی۔یہ اعدادو شماریقیناً حیران کُن ہیں۔لیکن اِس سے کہیں زیادہ حیران کُن عورتوں کے حقوق کے نام پر اُن کا استحصال نہیں؟

اِس دورکا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ عورت کے نام پر شروع ہونے والی ہرکوشش بالآخر نفع اندوزی اور عورتوں کے اپنے ہی استحصال پر منتج ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔