کیا اسرائیل ایران پر حملہ کرسکتا ہے؟…

صابر ابو مریم  اتوار 20 جنوری 2013

یہ ایک ایسا سوال ہے جو دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے اذہان میں گردش کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح چند ایک سوالات اور بھی ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ کیا واقعی اسرائیل ایران پر فوجی حملہ کر سکتا ہے؟ کیا اسرائیل اس قابل ہو چکا ہے کہ و ہ اپنے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے کی تکمیل کے لیے شام کے بعد ایران پر براہ راست حملہ کرے؟ کیا اسرائیل مشرق وسطیٰ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے گا؟

ان تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے زیادہ دور جانے اور زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ دسمبر 2012  میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا اور یہ جنگ 8 روز تک جاری رہی جب کہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے مجاہدین نے ایرانی ساختہ اسلحہ اور میزائلوں کے باعث غاصب اسرائیل کو پسپا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس سے ایک بات تو صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا البتہ اسرائیل کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ ایران کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کردیا جائے اور اسے نیست و نابود کردیا جائے۔ لیکن موجودہ دور میں حالات کے تیزی سے تبدیل ہونے کے باعث اور خصوصاً غزہ میں اسرائیل کی شکست اور پھر ماہ جنوری کے آغاز میں ہی امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے Chuck Hegalکو امریکی وزیر دفاع کے لیے نامزد کرنے کے بعد اسرائیل کے خوابوں کی رہی سہی تعبیر بھی نابود ہونے کو ہے۔

دوسرا سوال کہ کیا اسرائیل کا خواب ’’گریٹر اسرائیل‘‘ مکمل ہوسکتا ہے؟ جس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں۔ اس کے جواب میں بھی سادگی سے عرض کردوں کہ ناممکن ہے۔ کیونکہ خطے میں حالات اب امریکی اور اسرائیلی حواریوں کے کنٹرول سے نکل چکے ہیں۔ مصر کی صورت حال تبدیل ہوچکی ہے البتہ کچھ مسائل موجود ہیں لیکن مصر کی صورتحال اب حسنی مبارک کے دور جیسی نہیں رہی۔ اسی طرح اردن میں امید کی جارہی ہے کہ تبدیلی کی کرن نمودار ہو۔ شام میں امریکا، ترکی، اسرائیل سمیت کئی عرب ممالک نے کوشش کرلی لیکن وہ اپنے منصوبوں میں ناکام ہو چکے ہیں اور شام کی حکومت نے تمام تر حالات پر قابو پا رکھا ہے۔

اسی طرح لبنان میں پہلے سے ہی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اﷲ موجود ہے جس نے اسرائیل کو 2000، 2004 اور 2006 میں بالترتیب لبنان سے پسپا کر تے ہوئے بیروت کو آزاد کروایا، سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور پھر 33 روزہ براہ راست جنگ میں اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ یہ تو اسرائیل کے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبے کی ناکامی اور نا امکانی کا ایک پہلو ہے جب کہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسرائیل جو کہ ایک غاصب اور غیر قانونی ریاست ہے اپنے ہی نسل پرستانہ اقدامات کے باعث خود کو محدود کرتی چلی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی سرحدوں اور فلسطین کے اندر کئی ایک دیواریں کھڑی کرلی ہیں جس سے اسرائیل اب خود ایک محدود حصے تک چلا گیا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ممکن ہی نہیں کہ اسرائیل کا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ منصوبہ کامیاب ہوسکے۔

دوسری طرف ایران جو کہ خطے میں ایک مضبوط قوت کے طور پر موجود ہے وہ اسرائیل کے لیے کسی صورت بھی تر نوالہ نہیں بن سکتا، کیونکہ یورپی ممالک کی تیل کی ضروریات کو پورا کرنے میں ایران کا بہت بڑا کردار موجود ہے۔ اس بات کا تذکرہ ایران پہلے بھی کرچکا ہے کہ اگر اسرائیل یا امریکا کی جانب سے ایران پر حملے کی کوشش کی گئی تو تیل سپلائی کی بڑی گزر گاہ ’’آبنائے ہرمز‘‘ کو خیلج فارس میں نابود کر دیا جائے گا جس کے بعد حتماً یورپ اور امریکا تیل کی قلت سے دوچار ہوں گے ۔اسی طرح ایران نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ ڈرون طیارے جس کا امریکن سی آئی اے دعویٰ کرتی تھی کہ اسے کوئی نہیں تباہ کر سکتا، اسی ڈرون طیارے کو ایران نے ایک نہیں دو مرتبہ سے زائد ایرانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں اپنے قبضے میں کرتے ہوئے اتار لیا ہے، ساتھ ہی ساتھ ایران نے ایسے ڈرون طیارے بھی بنا لیے ہیں جو امریکی و اسرائیلی ریڈار سسٹمز پر نظر نہیں آسکتے اور امریکی و اسرائیلی ٹیکنالوجی کو شکست دیتے ہوئے اپنے ہدف کو پورا کرسکتے ہیں۔

اس کی ایک واضح اور تازہ مثال نومبر 2012 میں حزب اﷲ لبنان کی جانب سے اسرائیل کی فضائی حدود میں بھیجا جانے والا ایک ایرانی ساختی ڈرون طیارہ ہے جسے حزب اﷲ لبنان نے اسرائیل کی جاسوسی کے لیے بھیجا تھا اور وہ چارگھنٹوں تک اسرائیلی فضائوں میں پرواز کرتا رہا اور اسرائیل کے ایٹمی پلانٹ کی جاسوسی کی تصاویر اور خبریں مرکز کو ارسال کرتا رہا جسے بعد میں اسرائیلی فضائیہ نے جنگجو طیاروں کی مدد سے تباہ کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل ایران سے خوفزدہ ہیں اور ایران پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتے۔

ہیگل کی نامزدگی کے بعد امریکا اور اسرائیل میں موجود صہیونیوں اور اسرائیل کے حامیوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ اسرائیلی مبصرین کے مطابق ہیگل وہ شخصیت ہیں جو اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ کیونکہ وہ اس بات کے شدید مخالف ہیں کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل فوجی حملہ کرے۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ہیگل کی شخصیت خارجہ پالیسی میں دوسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت اور عدم فوجی کارروائی کی قائل ہے لہٰذا یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اسرائیل کو ہیگل سے وہ مدد حاصل نہیں ہو سکے گی جو وہ ایران کے خلاف لینا چاہتا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ ہیگل کے وزیر دفاع بننے کے بعد حقیقت پسندانہ اقدامات دیکھنے کو آسکتے ہیں جن میں ایران پر پابندیوں کو نرم کیا جانا بھی شامل ہوسکتا ہے۔

ایک اسرائیلی مبصر بریڈلی برسٹن نے بدھ کو ایک اسرائیلی اخبار میں لکھا ہے کہ ’’ہیگل کے آنے سے اسرائیل کے لیے متعدد راستے بند ہوگئے ہیں جب کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے ایٹمی منصوبوں پر حملہ کرنے کے حوالے سے امریکی صدر اوباما نے انگریزی کے دس لفظوں میں اسرائیل کو واضح پیغام دیا ہے یعنی Chuck Hegal‘‘۔

اسی طرح اسرائیلی روزنامے ’’یدعوت احرنوت‘‘ میں ایک اور اسرائیلی مبصر اورلی ازولائی نے لکھا ہے کہ ’’اسرائیل کے لیے ہیگل کی امریکی وزیر دفاع کے طور پر تقرری ایک واضح پیغام ہے کہ اسرائیل کے لیے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنا آسان کام نہیں ہو گا اور امریکی وزیر دفاع ہرگز ہرگز اسرائیل کو گرین سگنل نہیں دیں گے۔‘‘ ازولائی نے مزید لکھا ہے کہ ’’یہی وجہ ہے کہ امریکا میں موجود صہیونی لابی کے ہائی رینک یہودی اور اسی طرح اسرائیل میں موجود اعلیٰ حکام اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح ہیگل کو امریکی وزیر دفاع کے عہدے پر نہ آنے دیا جائے۔‘‘ ازولائی مزید لکھتا ہے کہ ’’اسرائیلی حکام اور صہیونی لابی کا کہنا ہے کہ ہیگل ایک ایسی شخصیت ہیں جو اسلامی مزاحمتی تحریکوں حماس اور حزب اﷲ کو سیاسی قوت سمجھتے ہیں اور ان سے بات چیت کرنے کے قائل ہیں جب کہ ایران کے ایٹمی مسئلے پر وہ یہ سوچتے ہی نہیں ہیں کہ اس مسئلے کا حل صرف جنگ ہے، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔‘‘

اسرائیلی ویب سائٹ پر شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں برسٹن نے لکھا ہے کہ اوباما کی جانب سے ہیگل کی صورت میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اوبامہ اپنے دوسرے صدارتی دور میں نیتن یاہو کے ساتھ پہلے کی طرح پیش نہیں آئیں گے۔ ان تمام معاملات کے بعد برسٹن لکھتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کو حتماً ایران پر حملے سے باز رہنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔