اسلام دہشت گردی نہیں، امنِ عالم کا علم بردار

محمد شعیب  جمعـء 28 اپريل 2017
اسلام کی روشن تعلیمات اور اس کے زندہ و تابندہ اصول و احکامات دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام کی روشن تعلیمات اور اس کے زندہ و تابندہ اصول و احکامات دنیا کے سامنے موجود ہیں۔ فوٹو: فائل

آج انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایسے عہد زریں سے گذر رہا ہے جس میں مختلف ایجادات رو بہ عمل آرہی ہیں۔

فنون لطیفہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبے وجود میں آرہے ہیں۔ بود و باش کے طریقے بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ فلک بوس محلات ، دل کش و دل فریب عمارتیں دعوتِ نظارہ دے رہی ہیں۔ صنعت و تجارت کے دیدہ زیب اور خیرہ کن مراکز روز بہ روز ایک نئے جہاں کا پتا دے رہے ہیں۔ یہ انسان بحر و بر کے ہر گوشے میں اپنی فتح و تسخیر کی کمندیں ڈالے ہو ئے ہے لیکن یہ سب مشاہدات اور مناظر تصویر کا ایک رُخ پیش کرتے ہیں۔

اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آج انسانی زندگی انتشار و بدنظمی اور تباہی و بربادی سے دوچار ہے۔ ظلم و عدوان شباب پر ہے۔ افراد اور جماعت میں آویزش و تصادم کا سلسلہ جاری ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منصوبہ بند طریقے سے انسان دشمن طاقتیں انسانیت کو تہہ تیغ کرنے کے در پہ ہیں اور روز بہ روز ان کوششوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

یہ انسان دشمن طاقتیں اپنی طاقت و قوت کی بنا پر دنیا بھر میں ہزاروں اور لاکھوں افراد کو لقمۂ تر بنا لیتی ہیں، معصوم انسانوں کو ایسے کاٹا جاتا ہے جیسے بہ ظاہر بے جان درخت پر آرے چل رہے ہوں، قوت و اقتدار کے متوالوں کے ذریعے املاک کو ایسے تباہ کیا جا رہا ہے جیسے کہ ساری دنیا انہی کی ملکیت ہو اور پوری انسانیت ان کی رعایا ہو۔ ِانسانیت کے دشمن ایسے ایسے طریقہ کار اپناتے ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ یہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کے ساری دنیا ان کی ماتحتی کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلے۔ ان ہی کے رحم و کرم پر اپنی زندگی گزارے۔ گویا کہ پوری دنیا میں طاقت و قوت، زور اور دبدبے کی حکم رانی چل رہی ہے۔

کمزوروں کا کوئی پرسان ِ حال نہیں، غربت زدہ طبقہ امیروں کے جبر و تشدد کے سائے میں زندگی بسر کرتا نظر آتا ہے۔ پوری انسانیت سسکتی اور بلکتی نظر آرہی ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اور دنیا کا کوئی خطہ بدعنوانیوں اور سیاہ کاریوں سے پاک نہیں ہے جس میں رہ کر انسان راحت و سکون اور امن و امان محسوس کرے۔

سوال یہ ہے کہ اخر اس جنت نظیر دنیا کی موجودہ صورتِ حال کا ذمے دار کون ہے۔۔۔ ؟ فتنہ و فساد کس نے برپا کر رکھا ہے، بے امنی و بدعنوانی کے اصول و ضابطے کون بنا رہا ہے۔ قتل و غارت گری اور سفاکیت کا ماحول کس نے گرم کر رکھا ہے۔ معصوم انسانوں کے خون کو چوس کر اپنی تشنگی کو کون بجھا رہا ہے۔ پاک دامن عورتوں کی عصمت کو کون داغ دار کر رہا ہے۔ املاک کو تباہ و برباد کون کررہا ہے۔ دنیا میں امن و آشتی، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کے نام پر ظلم و ستم، جبر و تشدد، بے امنی کی فضا سے معاشرے کو پراگندہ کس نے کر رکھا ہے۔

قانون کے نام پر لاقانونیت اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کس نے پھیلا رکھی ہے۔ ان تمام سوالوں کا جواب دنیا میں بسنے والے لوگوں کی چیخ و پکار، آہ و بکا اور احتجاج خود اس کے گواہ ہیں، لیکن ان تمام نامساعد و منحوس حالات کو مغرب کی پالیسی نے اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ رکھا ہے۔ آخر یہ بھی دیکھیے کہ اس میں سچائی کتنی ہے، اسلام کن چیزوں کی تعلیم دیتا ہے اور اس کے ماننے والو ں کا انسانیت کے ساتھ کیا عمل رہا ہے۔ کیا اسلام واقعی خوں خواری اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے جسے مغرب نے اپنی تسبیح بنالیا ہے۔

اسلام کی روشن تعلیمات اور اس کے زندہ و تابندہ اصول و احکامات دنیا کے سامنے موجود ہیں اور پوری وضاحت کے دنیا کے سامنے ہیں۔ اسلام اﷲ رب العزت کی جانب سے دنیائے انسانیت کے لیے وہ طریقہ زندگی ہے جو ہم دردی و محبت، انسانیت نوازی اور انسان دوستی کی تعلیم دیتا ہے، نہ یہاں دوسرے علم بردارانِ مذہب کے تئیں ظلم و جبر پایا جا تا ہے، اور نہ ہی دوسرے مذہب اور اہل مذہب کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہاں دعوت و تبلیغ اس کے علم برداروں کا طرۂ امتیاز ہے اور یہاں بھی حکمت و موعظت کی تعلیم دی جاتی ہے۔

اسلام کو ایک جارح مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم قرار دینا اسلام کے محکم اصولوں سے بے خبری کی دلیل یا دیدہ و دانستہ تنگ نظری کی بدترین مثال ہے۔ اسلام ہمیشہ مذہبی تقدس اور قو می تشخص و امتیاز، انسانیت نوازی برقرار رکھنے کے لیے عمل پیہم اور جہد مسلسل کی اجازت ضرور دیتا ہے اور تبلیغ و ہدایت کی ہر ممکن راہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرنے کی تعلیم پر بھی زور دیتا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے (سورہ النحل) میں فرمایا، مفہوم : ’’ اے نبی ( ﷺ ) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں سے مکالمہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔‘‘

یہ تعلیم ان لوگوں کو دی جارہی ہے جن کے پاس فوج و سپاہ نہیں، آلاتِ حرب و ضرب نہیں ہیں، صرف اور صرف زبان کی طاقت ہے۔ اس کو استعمال کرنے کے لیے بھی حسنِ گفتار اور طریقہ احسن کی قید لگا دی گئی۔ تبلیغ و ہدایت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ تالیف قلب اور حُسنِ معاملہ کا درس دیا گیا لیکن تلقین و ہدایت کی ہر ممکن کوشش کے بعد بھی اسلام سے منحرف رہنے والوں کے ساتھ درگذر سے کام لینے کا فر مان بھی جاری کیا گیا اور اس نرمی و رفق اور حسنِ کلام کی یہاں تک تعلیم دی گئی کے کفار کے معبودوں اور پیشواؤں کو بھی برا کہنے سے روک دیا گیا۔

سورہ الانعام میں ہے، مفہوم : ’’ تم ان کے معبودانِ باطل کو جنہیں یہ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں بُرا نہ کہو، ورنہ تو وہ جہالت کی بنا پر اﷲ کو بُرا کہیں گے۔‘‘

سورہ بقرہ میں ارشاد باری ہے، مفہوم : ’’ دین میں کو ئی زور زبردستی نہیں ہے، سیدھی راہ غلط راہ سے ممتاز کرکے دکھائی جاچکی ہے، اب جو کو ئی معبودانِ باطل کو چھوڑ کر اﷲ پر ایمان لاتا ہے وہ ایک مضبوط رشتے سے تعلق جوڑتا ہے جو ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اﷲ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

اسلام کے پیروکار نہ صرف یہ کہ اس پر کاربند ہوئے بل کہ اس پر عمل کرکے دنیا کو بتا دیا کہ اسلام جو کہتا ہے اسی کے مطابق اپنے ماننے والوں کو تلقین بھی کرتا ہے۔ عالمی تاریخ میں کو ئی ایسا مذہب نہیں ہے جو اسلامی نظامِ عدل کی ایسی مثال پیش کرسکے۔ عہد فاروقؓ کا یہ مثالی کارنامہ کیا ساری دنیا کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسلام کے پیروکاروں نے کس طرح سے انسان دوستی کا ثبوت پیش کیا۔ ایک مرتبہ فاروق اعظمؓ نے ایک بوڑھے آدمی کو بھیک مانگتے ہو ئے دیکھا تو پوچھا کہ کیوں بھیک مانگ رہے ہو۔ اس نے عرض کیا جزیہ ادا کرنے کے لیے، وہ بیچارا بوڑھا کہاں پہچان سکا کہ پوچھنے والا کون ہے۔

آپؓ نے اسی وقت اعلان کرادیا کہ ایسے سارے آدمی جن کے پاس ذرایع آمدنی نہیں ہیں ان کے جزیے معاف کردے جائیں۔ اس کے بعد تمام ریاستوں کے گورنرز کو لکھ بھیجا کہ ایسے مفلوک الحال ذمی جو بڑھاپے یا بیماری کے سبب کما نہیں سکتے ان کو بھیک مانگنے کی ذلت و رسوائی سے بچایا جائے اور شاہی خزانے سے ان کا وظیفہ مقرر کردیا جائے۔

تاریخ کے دریچے سے آج بھی جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے کہ بیت المقدس پر جب سیاہ و سفید ، ذات پات اور اعلیٰ و ادنیٰ کا بٹوارہ کر نے والوں نے تسلط حاصل کیا تھا تو مسلمانوں کا کس طرح خون بہا یا گیا تھا، مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سڑکوں پر ذبح کرکے ان کا خون نالیوں میں پانی کی طرح بہایا گیا، عورتوں، بوڑھوں اور بچّوں کے ساتھ بلا فرق و امتیاز یہ رویہ اختیار کیا گیا تھا۔

دور کیا جائیے بوسنیا میں کیا ہوا کس طرح مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی گئی، یہ وحشت و قتل و غارت تو زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے۔ بہ ہر حال اس کے بالمقابل تاریخ گواہ ہے کہ جب صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا تو تمام شہریوں کو امان دی گئی تھی، حتی کہ ہتھیار ڈال دینے والے سپاہیوں کی بھی جان بخش دی گئی، پورے شہر میں اعلان کرایا گیا کہ جو کوئی یہاں سے جانا چاہے وہ نہ صرف اپنی جان بل کہ اپنا سارا مال و متاع سمیٹ کر لے جاسکتا ہے۔ چشم فلک نے ایسے ہزاروں واقعات دیکھے ہیں، جو آج بھی تاریخ اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہے۔

اسلام صرف اگر افہام و تفہیم کا مذہب ہوتا، نیکی و راستی کا صرف درس دیتا، خدا ترسی و خدا طلبی کا صرف وعظ کرتا ، تادیب و سرزنش کو ئی اس میں نہ ہوتی تو ہرگز ظلم و ستم ، جبر و تشدد، فتنہ و فساد اور ہلاکت خیز تباہی و بربادی کا قلع قمع نہیں ہوسکتا تھا۔ فتنہ اور فساد کو کچل کر انسانی  معاشرے کو امن و آشتی کی نعمت سے ہم کنار کر نے کے لیے اسلام نے حدود و قیود کے پاس و لحاظ کے ساتھ تلوار اٹھانے کی اجازت دی ہے بل کہ شر و فساد کا قلع قمع کر نے کے لیے یہ امر ناگزیر قرار دیا  ہے۔

اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے ضرور تیار ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، یا اﷲ کی زمین میں فتنہ و فساد کو پھیلا کر ظلم و جور اور فتنے کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ظالم و جابر نہیں ہیں، بدکار و بدکردار نہیں، جو دین کو مٹانے کی پالیسی اور اس کو دبانے کی کو شش نہیں کرتے، جو خلقِ خدا کے امن و امان اور اطمینان کو غارت نہیں کرتے خواہ وہ کسی قوم و ملت و مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے دینی عقاید خواہ کتنے ہی باطل کیوں ہوں، اسلام ان کے جان اور مال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام کی تلوار کند ہے اور بے شک اسلام کی نظر میں ان کا خون حرام ہے۔

ہمیں اسلام کی سچی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ہر قسم کی دہشت گردی کی کھلے الفاظ میں تردید کرنا چاہیے کہ یہی وقت کا تقاضا اور انسانیت کی آواز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔