سیاسی مشکلات

عبدالقادر حسن  ہفتہ 29 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم بحیثیت قوم اپنے ماضی پر فخر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے مستقبل سے بے پرواہ مگر حال میں زندہ رہنے کے لیے تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں اس بات سے بے خبر کہ ہمارے ساتھ حال میں کیا ہو رہا ہے اور اس حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کتنی ضروری ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے شاندار ماضی کے سہارے ہی زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اچھے دنوں کی یاد میں اب صرف آہیں ہی بھرتے ہیں۔

ہمارے مذہب میں بھی مستقبل کا کوئی ذکر نہیں ملتا جب کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اگلا سانس آئے یا نہ آئے ہمیں اپنے موجودہ حالات کو بہتربناتے ہوئے آخرت کی تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک اچھا معاشرہ اور ماحول چھوڑ کر جانا ہے۔

ہمارے موجودہ دور کے حکمرانوں نے اپنے آنے والی نسلوں کے لیے تو ابھی سے پیش بندی کر لی ہے لیکن عوام کو حالات کے رحم و کرم کے حوالے کر دیا گیا ہے کیونکہ ہمارے عوام ہماری اشرافیہ کی نظر میں وہ مخلوق ہے جن کو اس جدید زمانے میں بھی بڑی آسانی کے ساتھ بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور بنایا بھی جار ہا ہے اور اس کا گُر ہمارے سیاستدان بڑی اچھی طرح جان چکے ہیں اور اس پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔

مشہور زمانہ بلکہ مشہور دنیا پانامہ لیکس جس میں ہمارے ملک کی نامی گرامی اشرافیہ کے نام بھی موجود تھے جن کی دولت کے چرچے اب دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں لیکن وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بیرون ملک جائیدادوں اور دولت سے انکاری ہیں اور اس سلسلے میں بڑی دلچسپ و عجیب منطقیں پیش کر رہے ہیں اور عوام الناس کو اپنی ان کھوکھلی باتوں سے ایک بار پھر بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن عوام اب یہ جان چکے ہیں کہ ان کے حکمران کون لوگ ہیں اور وہ کس طرح ان کی کمائی کو کمال ہوشیاری سے بیرون ملک اپنے کاروباری مقاصد کے لیے مسلسل منتقل کر رہے ہیں۔

پانامہ کی خبریں پچھلے ایک سال سے مسلسل ذرایع ابلاغ میں گردش کر رہی ہیں اور ہمارے وزیر اعظم اور ان کے خاندان پر اس کے بارے میں تقریباً ایک سال تک زیر سماعت رہنے والے مقدمے کے فیصلے میں اب بار ثبوت حکمرانوں کے ذمے لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ ثبوت ایک خصوصی ٹیم کے ذریعے عدالت کو فراہم کریں کہ وہ کس طرح اس سارے معاملے سے بری الذمہ ہیں۔ پہلے تو ثبوت فراہم کرنے کی ذمے داری عدالت میں کیس دائر کرنے والوں پر تھی لیکن اب تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد یہ ذمے داری منتقل ہو کر وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ پر آ چکی ہے۔

کئی سو انگریزی صفحات پر مشتمل فیصلہ آنے کے بعد مقدمے کے دونوں فریقوں کی جانب سے اس خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور مبارک سلامت کا شور برپا رہا۔ ہم جو کہ ایک جذباتی قوم ہیں اور اپنے برے بھلے کی پرواہ کیے بغیر دادو تحسین کے ڈونگرے برسانے شروع کر دیتے ہیں ہمیں سمجھ تب آتی ہے جب ہمارا بھنبھور لُٹ چکا ہوتا ہے حالانکہ جج صاحبان نے کہا بھی تھا کہ اس فیصلے کے بارے میں رائے زنی اس کو پڑھ اور سمجھ کر کریں لیکن ہم چونکہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس موقع پر بھی ہم نے یہی کیا اور ہمیں سمجھ تب آئی جب یہ فیصلہ بغور پڑھنے اور اس کا اردو میں ترجمہ کر کے ہم اس کے لب و لباب کو پہنچے۔

وزیر اعظم کا منصب ملک کا معتبر اور اعلیٰ ترین ہوتا ہے اور اس منصب سے یہ عوامی توقع کی جاتی ہے کہ یہاں سے ان کے لیے خیر و فلاح کی خبر ہی آئے گی لیکن ہماری حکمران اشرافیہ نے اس توقع کو کبھی درخور اعتناء ہی نہیں سمجھا بلکہ وہ اپنی دولت کے انباروں میں مزید اضافے کے لیے ہی کوشاں رہے ہیں۔ اب کی بار پہلی دفعہ ایک عوامی نمائندہ اور اس ملک کا منتخب وزیر اعظم کرپشن کے الزامات میں کٹہرے میں کھڑا ہے اور اس کو اپنی بیگناہی ثابت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

دو جج صاحبان جو کہ بالترتیب مستقبل کے چیف جسٹس بھی ہوں گے ان جانب سے یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان صادق و امین نہیں رہے اور ان کو فوری طور پر اپنے منصب سے الگ ہو جانا چاہیے جب کہ دوسرے تین  فاضل جج صاحبان نے بھی ان کو الزامات سے بری الزمہ قرار نہیں دیا اور مزید تفتیش کے لیے ٹیم بنا دی ہے۔

اس فیصلے میں میاں نواز شریف کی ذات اور ان کے ساتھ جڑُا وزارت عظمیٰ کا منصب براہ راست زد میں ہے لیکن ان کا ایک فائدہ بھی ہوا ہے کہ ان کی صاحبزادی جو کہ ان کی سیاسی جانشینی کی امیدوار بھی ہیں ان کو اس تمام معاملے سے الگ کر دیا گیا ہے جو کہ میاں نواز شریف کے لیے ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کہا جا سکتا ہے اور صرف یہی ایک کامیابی ہے جو ان کے حصہ میں آئی ہے اور اس پر ان کے سیاسی کارکنان بجا طور پر مٹھائیاں تقسیم کر سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایک اچھی روایت یہ بھی ہے کہ کسی کی ماں، بہن بیٹی، بہو کے بارے میں بات کرنے سے پہلے لوگ سوچتے ہیں کیونکہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور اس کیس کی حد تک بھی لگتا ہے کہ یہی ہو ا ہے اور کون سی ایسی بیٹی ہے جو اپنے باپ کے زندہ ہونے کی صورت میں اس کے زیر کفالت نہیں ہوتی کیونکہ بیٹیاں تو باپ اور باپ بیٹیوں کے سہارے ہی اپنی زندگی کی خوشیاں دیکھتے ہیں۔

سیاست کی اس بے رحم دنیا میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی آپ کی ذات عوام کی پراپرٹی بن جاتی ہے اور وہ وقت گئے جب سیاست بھی شائستگی کے ساتھ کی جاتی تھی اور اب اس نئے زمانے میں خاص طور پر خواتین کو اپنی سیاست خاصی بچ بچا کر اور اپنے دامن کو اس نئی سیاست کی آلودگی سے پاک  رکھنے کے لیے بڑی ہمت چاہیے۔

ملک کے مختلف اداروں کے نمایندوں پر مشتمل ٹیم وزیر اعظم کی بیرون ملک جائیدادوں کے متعلق کیا مزید معلومات عدالت کو فراہم کرے گی اس کا علم تو اس کی معینہ دو ماہ کی مدت کے بعد ہی ہو سکے گا لیکن اپوزیشن کی جماعتوں نے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے تا کہ ان مزید تحقیقات کو شفاف بنایا جا سکے۔

اپوزیشن نے تو اپنا کام پورا کر دیا اب اس کا جواب اور فیصلہ وزیر اعظم نواز شریف کو کرنا ہے کہ کیا وہ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد بھی بدستور اپنے منصب پر ہی رہیں گے یا وہ اپنی سیاسی بصیرت اور وضح داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیں گے۔ میاں نواز شریف کو اپنی سیاسی ساکھ اور سیاسی جانشینی کو بچانے کے لیے فیصلہ کرنا ہو گا اور یہ فیصلہ بھی پاکستان کی تاریخ میں مدتوں یاد رکھا جائے گا لیکن ۔۔۔۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔