خان نظریاتی دھند سے نکلیں

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 29 اپريل 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

عمران خان کا ایک پلس پوائنٹ یہ ہے کہ اب تک ان پر کسی ’’معروف کرپشن‘‘ کے الزامات نہیں لگ سکے لیکن ان کی غیر منطقی اور زگ زیگ سیاست کے 20 کروڑ عوام عینی گواہ ہیں۔ سیاست ہمیشہ عوامی مسائل اور قومی مسائل پر کی جاتی ہے اور اس حوالے سے عوام سے رجوع کیا جاتا ہے لیکن عمران خان عوام کو مرعوب کرنے کی سیاست کے راستے پر چل پڑے۔

حال ہی میں ان کی چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات کو اس سلسلے کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے، بد قسمتی سے عمران خان ہماری دیسی سیاست میں فوجی بیورو کریسی کی مجبوریوں اور کردار کا اندازہ نہیں کر سکے پھر پاکستان کا سیاسی لیڈر جس میں اہل علم، اہل دانش بھی شامل ہیں سیاست دانوں کے غیر سیاسی عناصر سے ملاقاتوں اور تعلقات کو اچھا نہیں سمجھتا ایسی ملاقاتوں کا مبہم تصور اس وقت خراب ہو جاتا ہے جب اوپر کے دباؤ سے اس قسم کی ملاقاتوں کی وجہ تسمیہ بیان کرنی پڑتی ہے۔

دو تین ہفتوں کے ابہام کے بعد آخر خان صاحب کو اس ملاقات کی وجہ تسمیہ بیان کرنی پڑی اور وہ یہ تھی کہ اس ملاقات میں چیف صاحب نے خان بابا کو یقین دلایا کہ 2018ء میں ہونے والے انتخابات شفاف ہوں گے۔ شفاف انتخابات ملک کی ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں اگر خان ملک کی سیاسی اپوزیشن سے اس حوالے سے رجوع کرتے تو زیادہ بہتر نتائج متوقع ہوتے۔

الیکشن میں دھاندلی کے امکانات کے حوالے سے سیاسی اپوزیشن کے ساتھ کوئی انڈر اسٹیڈنگ ہوتی تو اس ممکنہ دھاندلی کے خلاف اپوزیشن ان کے ساتھ کھڑی ہوتی کیونکہ یہ اپوزیشن کا مسئلہ بھی ہوتا۔ موضوع کو آگے بڑھانے سے پہلے خان کی سیاست پر ایک اُچٹتی نظر ڈالنا ضروری ہے۔

عمران خان کی سیاست کا آغاز اگرچہ کہ 16-17 سال پہلے ہوا لیکن 2014ء تک وہ پاکستانی سیاست کے تیرہویں کھلاڑی کی طرح گوشۂ گمنامی میں پڑے رہے پھر 2014ء میں انھوں نے اسلام آباد دھرنے کا چھکا لگا کر سیاسی ٹیم میں اپنے وجود کو منوا لیا لیکن اسلام آباد دھرنا ایک غیر منصوبہ بند غیر منظم پروگرام تھا کہ اگر طاہر القادری کی منظم ٹیم اس میں شامل  نہ ہوتی تو یہ دھرنا ہفتہ پندرہ دن ہی میں آؤٹ ہو جاتا۔

بدقسمتی یا بچگانہ سیاست کی وجہ سے وہ پاکستانی عوام کے مزاج کو سمجھ نہ سکے اور رن وے سے اتر کر دوسرے درجے  کی طرف لڑھکتے رہے۔ 2014ء اور اس کے بعد کی سیاست کا ذکر ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ خان کی زگ زیگ سیاست کو سمجھنے میں آسانی ہو اور خان کی اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے۔

2014ء کی ناکام سیاست کے بعد خان صاحب پاناما لیکس کے درخت پر چڑھ گئے لیکن اس کا درخت پر چڑھنا  تو شیر کی طرح آسان تھا البتہ اترنا شیر کی طرح مشکل تھا، بلاشبہ پاناما لیکس ایک ایسا سنجیدہ مسئلہ تھا کہ اگر اس کو عقلمندی سے ڈیل کیا جاتا تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے تھے لیکن خان صاحب مزاجاً سولو فلائٹ کے رسیا ہیں اور بد قسمتی سے سیاست میں ایسے مقامات آتے ہیں جہاں سولو فلائٹ سے کام نہیں چلتا بلکہ پنچائیتی نظام کی ضرورت پڑتی ہے۔ پاناما کیس کرپشن کی تاریخ کا ایک بہت بڑا کیس ہے۔

دنیا کے کئی ممالک پاناما لیکس کا شکار ہو چکے ہیں اور بعض ملکوں کے حکمرانوں کو اقتدار سے ہاتھ بھی دھونا پڑا ہے لیکن پاکستان کے سیاسی حالات، عدلیہ کی آزادی، برسر اقتدار پارٹی کو حاصل مراعات دوسرے ملکوں سے یکسر مختلف ہیں جس کا اندازہ خان نہ کر سکے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

کرپشن انتخابی دھاندلی وغیرہ ہماری سیاست کے وہ کوڑھ ہیں جن کی وجہ سے سیاست کا چہرہ مکروہ ہو کر رہ گیا ہے، بلاشبہ ان بیماریوں کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے لیکن عاقل و بالغ سیاست دانوں کی نظر ان محرکات پر رہتی ہے جو کرپشن انتخابی دھاندلیوں جیسے امراض کو جنم دیتی ہیں۔ کرپشن اور انتخابی دھاندلی ہماری سیاست میں کوئی نیا اضافہ نہیں بلکہ ہماری سیاسی زندگی کا حصہ ہیں، انتخابی دھاندلی کے الزام میں بھٹو جیسی مقبول قیادت کو نہ صرف اقتدار سے الگ ہونا پڑا بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

1977ء کے نو ستارے اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی معنی نہیں رکھتے تھے نو ستاروں میں کچھ ایسے عاقل و بالغ ستارے بھی تھے جو یہ جانتے تھے کہ پاکستانی سیاست کے مقبول لیڈر کو ایک بڑی عوامی تحریک ہی اقتدار سے الگ کر سکتی ہے اور اسی پس منظر میں نو ستاروں نے عوام کو متحرک کیا۔ اس تحریک میں داخلی محرکات کیا تھے اور خارجی محرکات کیا تھے۔ تحریک کے دوران کسی کو اس پر سوچنے کی فرصت نہ تھی لیکن بچہ بچہ جانتا تھا کہ تحریک کے دوران پاکستان میں ڈالروں کی یلغار ہو گئی تھی۔

خان صاحب پاناما لیکس سے بھی مایوس ہو گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو میں نے ﷲ پر چھوڑ دیا ہے۔ خان کی مسلسل ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ نظریاتی نظر بندی ہے۔ خان سیاسی لڑائی اور نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے پرانے نظریات والوں کو اپنا اتحادی بناتے ہیں اس حماقت کے ساتھ اگر نئے پاکستان کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں تو عوام اس کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ ’’اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔