اَن دیکھا دستور

راؤ منظر حیات  ہفتہ 29 اپريل 2017
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

کسی بھی سوچنے والے انسان یاگروہ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ملکی حالات سے لاتعلق رہ سکے۔ اردگرد کے حالات انسان کے ذہن پربراہِ راست اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہر ملک اورہرخطہ میں یہی رویہ ہے۔ ہر فرد اپنے ملکی حالات کا اسیر ہوتا ہے۔

آجکل تو ایک ملک کے حالات پوری دنیا پراثرات ڈالتے ہیں۔برطانیہ اگر یورپی یونین سے نکلتاہے تواس سے برطانیہ تومتاثرہوتاہی ہے مگر دوسرے ملک بھی اس فیصلے کو نظراندازنہیں کرسکتے ۔اگرپورے یورپ میں دائیں بازوکے وطن پرست سیاستدان الیکشن جیت رہے ہیں تویہ ہمارے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں ایک خاص سوچ کوبڑھاوا دیا گیا ہے۔ مذہب کوشخصی اورریاستی کمزوری چھپانے کے لیے استعمال کیاگیا ہے۔

آپ ہمارے بڑے بڑے لکھاری دیکھ لیجیے جہاں وہ دلیل نہیں دے سکتے، وہ مذہبی آڑ لے کر دوسرے کو چاروں شانے چت کردیتے ہیں۔ ایسے دانشور، سیاستدان، قلمکاراوردیگرحضرات کسی عالم دین کے سامنے قطعاًمذہب کی بات نہیں کرتے۔خیریہ ادنیٰ رویہ اب ہماراقومی رویہ ہے۔اسے تبدیل کرنا ناممکن نظرآتاہے۔

ہمیں اپنے معاشرے کے عملی پہلوؤں کو پرکھنے کی اَشد ضرورت ہے۔ایک سرجن کی طرح ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پورے ملک کے اندراصل مسائل کیا ہیں اوران پر بات کرناناممکن بنادیاگیاہے۔کمال چابکدستی سے اصل مسائل لوگوں کے سامنے سے غائب کرکے فروعی اور جذباتی معاملات میں ایساالجھایاگیاہے کہ کسی کوکچھ سوجھتا ہی نہیں ہے۔جذباتیت کاایساغباراُٹھایاگیاہے کہ فروعی مسائل ہی اصل مسائل لگنے شروع ہوچکے ہیں۔ مثلاً ستر برس سے ہر ایک کوبتایاجارہاہے کہ کشمیربس اب ہندوستان سے علیحدہ ہونے ہی والاہے۔

مگرحقیقت میں کوئی بتانے والاہی نہیں ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد ان کی اپنی آزادی کے لیے ہے۔وہ اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا نہیں،اس پر مختلف آراء موجود ہیں۔مگرمتعدد سروے ہوئے ہیں جن میں کشمیرکے عوام اپنی آزادی کوپاکستان سمیت کسی کی جھولی میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔وہ اپنی  علیحدہ شناخت رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر پاکستان میں اس پرکھل کربات نہیں کی جاتی۔ہمارے ذہنوں پرنقش کردیاگیاہے کہ یہ کشمیربس پاکستان بن کررہے گا۔ ہوسکتاہے کہ میری سوچ غلط ہو۔ مگرمجھے اپنی سوچ کودلیل کی بنیادپرقائم رکھنے کاحق ہے۔

اسرائیل اورفلسطین کی طرف نظرڈالیے۔ مشرق وسطیٰ کے تمام کئی مسلمان ممالک اسرائیل کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرچکے ہیں۔فلسطین کی حکومت بھی اسرائیل کے ساتھ ہروقت رابطہ میں ہے۔سعودی عرب تک اسرائیل کے ساتھ کسی حد تک رابطہ کاری میں ہے۔ مصرجس کے اسرائیل کے ساتھ سرحدی جھگڑے ہیں،وہ اختلافات کوحل کرچکاہے۔لیکن پاکستان میں توآپ بات تک نہیں کر سکتے ۔کوئی سیاستدان یا سفارتکار بات کرنے کی جرأت کرکے دیکھے، اسے فوری طورپرغدار،ملک دشمن اورمغربی ممالک کاایجنٹ قراردے دیاجائے گا۔

نقصان یہ ہواہے کہ اسرائیل نے اپنی طاقت کاساراتوازن ہندوستان کے پلڑے میں ڈال دیاہے۔ہماراہمسایہ ملک اس تعلق سے بھرپورفائدہ اُٹھارہاہے۔لیکن پاکستان میں کون بات کرے  گا؟کیوں کرے گا؟ سب کامفاداس میں ہے کہ سوسائٹی میں خوف کواس قدرمضبوط بنادوکہ ہروقت سالمیت پر خطرے کے بادل منڈلاتے رہیں۔یہ بادل حقیقی ہیں یا مصنوعی،ان پربات کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔

چلیے، بین الاقوامی معاملات سے صرف نظرکرکے خالصتاًاندرونی معاملات کی طرف آجائیے۔روزمرہ کے معمول کے معاملات سے شروع کیجیے۔پھل فروش کی ریڑھی سے آغازکیجیے۔ہمت کرکے کسی ریڑھی پرجائیے۔ زہرسے آراستہ پھل کسی روک ٹوک کے بغیرسرِعام بِک رہے ہیں کوئی مائی کالعل یہ نہیں کہہ سکتاکہ آڑو یا سیب اس قدرسرخ توقدرتی طورپرنہیں ہوتا،جتنااس ریڑھی پربِک رہا ہے۔اگرآپ بات کرنے کی ہمت کریں تودکاندارآپ کو بدتہذیبی سے حکم دے گاکہ باؤجی، جاؤ۔کہیں اورسے سودا خریدلو۔آپ شرمندہ  ہوجائیں گے۔ پھلوں میں ایک نمبر، دونمبراورتین نمبرکی تفریق موجودہے۔کیایہ کرپشن کی چھوٹی سے مثال نہیں۔

پھل بیچنے والے کاجتنا اختیار ہے، اس کا جتنا دائرہ کارہے،وہ اس میں رہ کراپنی حیثیت کے مطابق گاہکوں کے بیوقوف بنانے میں کامیاب ہے۔ پھل کی ریڑھی صرف ایک استعارہ سمجھئے۔کسی دکان پرچلے جائیے۔ آپکوبالکل ایک جیسے حالات نظرآئینگے۔جس ملک میں ادرک کوتیزاب سے دھوکرسفیدبنایاجاتاہو،صدقہ کے گوشت میں سرخ رنگ ڈال کربیچاجاتاہو،وہاں انسان کیا بات کرے۔ویسے جس چیزکومعمولی کرپشن لکھ رہا ہوں، چین میں اس کی سزاموت ہے۔برطانیہ میں اس طرح کے جرم، کرپشن یابے ضابطگی کی سزا لمبی قیدہے۔

آپ چھوٹے طبقے کوبھی رہنے دیجیے۔چلیے بڑے کاروبارکی طرف آتے ہیں۔کسی ڈاکٹرکے پاس جاکر پوچھیے کہ کسی بھی طرح کا سافٹ ڈرنک  صحت پر کیا اثرات رکھتاہے۔کسی مشروب کانام نہیں لکھ رہا۔لیکن  جو مشروب انسانی صحت کے لیے حددرجہ نقصان دہ ہے،وہ ہمارے لیے تقریباًلازم قراردے دیاگیاہے۔کیا یہ جرم نہیں ہے۔ مگر کون پکڑے گا۔کیاکوئی ایسالیڈرنہیں ہوسکتا جو اعلان کر دے کہ اس طرح کے مصرصحت مشروبات کوممنوع قرار دیا جاتا ہے۔کیالکھاجائے اورکیابات کی جائے!

دودھ کے متعلق گوالے پرہرطرح کے الزامات ہیں، کہ دودھ میں پانی ملایاجاتاہے۔وغیرہ وغیرہ۔یہ کافی حد تک درست بات بھی ہے۔مگرجوبڑی بڑی کمپنیاں گتے کے ڈبے میں دودھ فروخت کررہی ہیں،ان کے اندرکیاہے؟ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جب حقائق معلوم ہوتے ہیں۔ انتہائی مہنگے داموں پرزہرآلوددودھ سرِعام بِک رہا ہے۔کیا یہ کرپشن کی ایک قسم نہیں ہے۔

گاڑیوں اورموٹرسائیکل بنانے کی کمپنیوں کے جرائم پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے۔جوگاڑی ہمارے ملک میں بیس لاکھ کی ملتی ہے،ہمسایہ ملک میں اس کی قیمت پانچ لاکھ سے آٹھ لاکھ تک ہے۔ہمارے ہاں گاڑیاں کیوں اتنی مہنگی ہیں۔ ان کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کومکمل آزادی دی گئی ہے۔ کیایہ اقتصادی جرائم کسی اورملک میں ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔موٹرسائیکل بنانے والے کارخانے بھی خود مختار ہیں۔

ہروقت میڈیا پرسرکاری عمال کی کرپشن پر لامتناہی بحث ہوتی ہے۔ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی دھجیاں اُڑادی جاتی ہیں، درست بات ہے کہ اگرکسی نے غلطی کی ہے تواس پر بات ہونی چاہیے۔ مگر کیا کبھی نجی شعبے کی کرپشن پربات ہوئی ہے۔ ہرگز نہیں۔نجی شعبہ میں کرپشن سرکاری شعبہ سے کہیں زیادہ ہے۔

حقیقت میں کسی قسم کاکوئی پیمانہ ہی نہیں جونجی شعبے کی کرپشن کوماپ سکے۔ٹیکس نہ دیناتوخیرایک جرم ہے ہی سہی،مگراس کے علاوہ کیا کیا گلکاریاں اورکارنامے ہیں۔ اس کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا کیونکہ نجی شعبہ پرہاتھ نہیں ڈالاجاسکتا۔اس پر بات تک نہیں کی جاسکتی۔

جس ملک میں کرپشن،بے ضابطگی اورمالیاتی جرائم ریڑھی سے شروع ہوکرپورے ملک کے ہرشعبہ میں برہنہ حالت میں موجودہوں،اس صورتحال میں مقتدر طبقہ اور حکمران کیسے ایماندارہوسکتا ہے۔کرپشن اس ملک کااَن دیکھا دستور ہے اورہرفریق اس پرسمجھوتا کرچکا ہے۔ ہمارا ملک اسی اَن لکھے،اَن دیکھے دستور پر کار بند رہے گا۔کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔