سر آپ سب سے زیادہ محفوظ ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 29 اپريل 2017

’’میں سب سے زیادہ محفوظ ہوں‘‘ یہ رویہ اصل میں آپ کو سب سے زیادہ غیر محفوظ کرکے رکھ دیتا ہے، کیونکہ آپ اپنے آپ کو درپیش تمام خطرات سے چھلانگ لگا کر اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ ’’میں ہی سب سے زیادہ محفوظ ہوں‘‘۔

اصل میں آپ اپنے آپ کو لاحق خطرات کی طرف دیکھنا ہی پسند نہیں کرتے ہیں، کیونکہ آپ جس جگہ پر موجود ہوتے ہیں آپ تاحیات اسی جگہ پر بیٹھے رہنا چاہتے ہیں اور تاحیات بیٹھے رہنے کی خواہش آپ کو ہر وقت مچلاتی رہتی ہے اور آپ ہر ایک سے صرف اور صرف یہ ہی سننے کے خواہش مند رہتے ہیں کہ سر ’’آپ بہت محفوظ ہیں‘‘۔ کیونکہ آپ یہ بات سن سن کر اس بات کے ہی سننے کے اتنے عادی مجرم ہوچکے ہوتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہر بات آپ کو زہر لگتی ہے اور کرنے والا آپ کو دشمن نمبر ون لگتا ہے۔ اس لیے آپ کے اردگرد جمع لوگوں میں اگر کوئی سمجھ دار یا دور کی نظریں رکھنے والا یا خطرات کی بو کو سونگھنے والا موجود ہوتا بھی ہے تو وہ بھی ہمنواؤں میں ہی اپنی آواز شامل رکھتا ہے اور سب کے سب باجماعت ’’آپ سب سے زیادہ محفوظ ہیں‘‘ کا ورد باربار دہراتے رہتے ہیں اور آپ ورد سن سن کر خوشی سے لال گلابی ہوتے رہتے ہیں۔

ورد کی شدت آپ کو تمام خطروں سے بے نیاز اور بے پرواہ کرچکی ہوتی ہے۔ آگے چل کر یہ ہی بے نیازی، بے پروائی، لاتعلقی اور تمام خطروں کے اوپر سے چھلانگ آپ کو لے ڈوبتی ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ خطرات اتنے وزنی ہوجاتے ہیں کہ آپ کا ان کے بوجھ تلے ڈوبنا لازم ہوجاتا ہے۔ ماضی میں یہ بے احتیاطی، بے نیازی اور ’’میں سب سے زیادہ محفوظ ہوں‘‘ کا رویہ صرف انسانوں کو نہیں بلکہ بڑے بڑے بظاہر محفوظ ترین اداروں کو بھی لے ڈوبا ہے۔

امریکا کا بدترین ایٹمی حادثہ 1979 میں ریاست پنسلوانیا میں ہیرسبرگ کے قریب تھری مائل آئی لینڈ کے ایٹمی پلانٹ میں پیش آیا تھا۔ اس حادثے کی ابتدائی خبروں میں بعض ریڈیو ایکٹیو گیسوں کے حادثاتی اخراج کا ذکر کیاگیا تھا، جس کے سبب بہت سے لوگ اپنے سازو سامان اور خاندانوں سمیت اس مقام سے بھاگ گئے تھے۔ تین روز تک کارکن نقصان زدہ آلات کو ٹھیک کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ وہ تابکاری گیسوں اور پانی کے بڑے پیمانے پر اخراج کو روکنا چاہتے تھے، انھیں معلوم نہ تھا کہ ہائیڈروجن گیس کے جو چند دھماکے پلانٹ میں ہوئے تھے، وہ بڑے نقصان کا سبب بن جائیں گے، اس حادثے میں قیمتی جانیں بچ گئیں، تاہم تابکاری گندگی اور تابکاری کے سبب مستقبل میں واقع ہونے والی اموات سے بچاؤ کے انتظامات پر دس برس میں ایک اب ڈالر خرچ ہوگئے۔

امریکا کے صدر نے اس حادثے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا، اس کمیشن نے حادثے کے بڑے سبب کے طور پر پوری ایٹمی صنعت کے رویوں کی طرف توجہ دلائی۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جو شہادتیں ہمیں ملیں، ان میں بار بار ایک لفظ کی تکرار ہوتی رہی، یہ لفظ ’’رویہ‘‘ تھا۔ ہم جس معاملے کی بھی تحقیق کرتے، اس میں ہمیں ان لوگوں سے متعلقہ مسائل سے واسطہ پڑتا جو اس پلانٹ کو چلاتے تھے، اہم تنظیموں کو چلانے والی انتظامیہ اور ایٹمی توانائی کے مراکز کے تحفظ کی دیکھ بھال کرنے والے وفاقی ادارے کے مسائل بھی ہماری نظر میں آئے۔

ایٹمی توانائی کے مراکز کئی برس سے کام کررہے تھے اور ان میں کسی فرد کے زخمی ہونے کی کوئی شہادت موجود نہ تھی، لہٰذا اس امر کا یقین پیدا ہوگیا کہ ایٹمی توانائی کے پلانٹ خاصی حد تک محفوظ ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تھری مائل آئی لینڈ میں ایسے کئی اقدامات نہ کیے گئے تھے جو اس حادثے کی روک تھام کر سکیں، لہٰذا اس حادثے کی توجیہہ کا رکن کی غلطی کے طور پر ہو یا نہ ہو ہمیں یقین ہے کہ مذکورہ بالا خرابیوں کی موجودگی میں اس قسم کا حادثہ بہرطور پر ناگزیر تھا۔

1986 میں سوویت یونین میں چرنوبل کے ایٹمی توانائی کے پلانٹ میں ایک خوفناک حادثہ پیش آیا تھا، اس حادثے کے بعد ہوا کے ذریعے تابکاری گیسیں اور ذرات یورپی ملکوں کے بڑے علاقے تک پھیل گئے تھے، جب کہ سوویت یونین میں اس حادثے کے سبب اموات بھی ہوئی تھیں، علاوہ ازیں تابکاری اثرات کی بنا پر مستقبل میں ہزاروں افراد کی اموات کا خدشہ بھی پیدا ہوا تھا، جب اس حادثے کا سبب تلاش کرنے کے لیے تفتیش شروع ہوئی تو وہ ہی رویہ سامنے آیا جو تھری مائل آئی لینڈ کے ایٹمی پلانٹ میں حادثے کے پیچھے کارفرما تھا۔

چرنوبل کے پلانٹ پر کام کرنے والے افراد بھی اس یقین کے حامل تھے کہ ان کے پلانٹ میں کسی حادثے کا امکان نہیں۔ ان کے ساتھ ایک اور حادثہ کا ذکر بھی ضروری ہے، یہ حادثہ امریکی خلائی شٹل چیلنجر کے دوران پرواز پھٹ جانے کی صورت میں رونما ہوا تھا اور اس میں سات خلابازوں کو زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ یہ رویہ کہ ’’پہلے کبھی کوئی خرابی نہیں ہوئی اور ہم محفوظ ہیں‘‘ اکثر لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور پھر ہم اس کی وجہ سے حادثوں کی زد میں آجاتے ہیں۔

رویے حادثوں کا سبب بنتے ہیں کیونکہ وہ کئی طریقوں سے ہماری سوچ پر اثرانداز ہوتے ہیں، دوسری طرف انسانی تاریخ کے بڑے اور اہم کردار بھی اسی ’’رویے‘‘ کے ہاتھوں حادثوں کا شکار ہوئے، جن میں قدیم مصر کا اخناتون، ایرانی سلطنت کے بانی سائرس اعظم، عظیم یونانی مورخ تھیوسی ڈائڈس، فاتح عالم سکندر کے والد فلپوس، قدیم ایران کا بادشاہ داریوش سوم عرف دارا، روس کا راسپوتن، نکولس دوم، مسولینی، ہٹلر، شاہ ایران، صدام حسین، شہنشاہ جولیس، روم کا پومپی دی گریٹ، پاکستان کا اسکندر مرزا، غلام محمد، ضیا الحق اور دیگر شامل ہیں۔ کوئی بھی شخص یا ادارہ کبھی بھی مکمل محفوظ نہیں ہوتا ہے۔ آپ اپنے رویوں سے اسے محفوظ بناتے چلے جاتے ہیں۔

یاد رہے مثبت رویوں سے، منفی رویوں سے نہیں۔ لیکن جب آپ حد سے زیادہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگ جاتے ہیں تو اصل میں آپ بالکل ہی غیر محفوظ ہوجاتے ہیں اور پھر ایک روز آپ ایک بڑے حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں اور شکار ہونے کے بعد جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو آپ کے سارے خوشامدی، چمچے، عیار اور مکار ہمنوا اس طرح غائب ہوچکے ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پھر وہ سارے خوشامدی آپ جیسے کسی دوسر ے کو تلاش کررہے ہوتے ہیں اور جیسے ہی وہ ان کو نصیب ہوجاتا ہے، تو پھر سب کے سب وہی سریلا نغمہ ’’سر آپ سب سے زیادہ محفوظ ہیں‘‘ اس کے سامنے گنگنا رہے ہوتے ہیں اور وہ صاحب آپ ہی کی طرح اس نغمے کی مسرورکن دھن پر جھوم رہے ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔