نظام میں اصلاح کی ضرورت

فرح ناز  ہفتہ 29 اپريل 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

روز بروز ہمارے شہر کراچی میں گندگی و غلاظت بڑھتی جا رہی ہے۔ ملاوٹ نے اصلی کھانوں کا ذائقہ بدل دیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ ملاوٹی اجزا نے ہمیں مختلف بیماریوں کی طرف دھکیل دیا ہے، اصلی ذائقے اصلی چیزوں سے ہی آتے ہیں۔ کیمیکلز سے تو صرف زبان کا taste ہوتا ہے اور نقصان بے شمار۔

بالکل اسی طرح آلودگی نے بھی پوری دنیا کی طرح ہمیں بھی متاثر کیا ہے اور شہر کراچی اسی لیے زیادہ متاثر نظر آتا ہے کہ پودوں اور درختوں کی افزائش کم ہو گئی ہے بلکہ جو موجود بھی تھے وہ بھی کاٹے جا رہے ہیں۔ اژدھے کی طرح ٹریفک بڑھتا جا رہا ہے، مگر سسٹم صحیح نہیں ہو پا رہا ہے، سڑکیں اتنی کشادہ نہیں کہ ہزاروں گاڑیوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ تھوڑا بھی حد سے ٹریفک بڑھتا ہے تو کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام اور ٹریفک پولیس غائب۔

سالہا سال گزرنے کے باوجود بھی گندگی اور غلاظت وہ مسئلہ ہے جو حل ہونے کا نام نہیں لے رہا، کرپشن تو یہاں اتنی ہے کہ اسے پکڑا ہی نہیں جاتا مگر جن کے لیے سسٹم ہونا چاہیے وہ سرے سے نہیں ۔ ایسا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ دماغ نہیں ہے ہمارے پاس زمین نہیں جوکہ ہمارے مسئلے مسائل کو سمجھ نہیں پاتے۔ یا وہ لوگ نہیں ہیں جو کام کرنا نہیں چاہتے، یہ ہمارا ملک بنجر ہے بے کار ہے۔ نہیں بالکل ایسا نہیں، یہاں لوگ بھی زبردست ہیں اور ہمارا ملک بھی زبردست ہے مگر ہمارے گناہوں کی سزا ہے وہ لوگ جن کو ہم نے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جن پھر بھروسہ کیا اور مطمئن ہوئے کہ انشاء اللہ یہ لوگ ہمیں ڈلیور کریں گے اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں گے، یہاں کے لوگوں کو انسانوں کی طرح سمجھیں گے۔

ہمارا ووٹ اور ہماری دعائیں سب کچھ بے کار ہوگیا بلکہ سب کچھ ہم پر الٹ پڑگیا۔ گویا ہم نے اپنا ملک اور اپنے لوگوں کو ایسے ہاتھوں میں دے دیا جن کو احساس ذمے داری نہیں، جن کو خیال ہی نہیں کہ ان کے سوا بھی اس ملک میں لوگ رہتے ہیں۔ان کی بھی ضرورتیں ہیں، ان کی بھی زندگی ہے وہ بھی انسان ہیں،کہیں ملازمین کی شکل میں،کہیں دشمنی کی شکل میں کہیں نفرت کی شکل میں وہ حشرکیا جاتا ہے کہ انسانیت بھی پناہ مانگتی ہوگی۔ ایک بے روزگار شخص نے 5 بچوں کو زہر دے کر خودکشی کرلی۔ کون ذمے دار، کس کو کہیں؟ کہیں اسپتالوں میں بیڈ نہیں، مریض لابی میں یا اسپتالوں کے باہر ہی دم توڑدیں، کون ذمے دار کس کو کہیں۔

صاف پینے کا پانی میسر نہیں، اس کی ایک مثال کچھ اس طرح کی ہے کہ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار صاحب صوبائی اسمبلی میں نل سے پانی بھر کر لے گئے اور انھوں نے اسمبلی میں سب کو آفر کی کہ وہ یہ پانی پی کر دکھائیں، کتنا سنگین مذاق ہے۔ اور کتنے مجبور بے بس ہیں وہ لوگ جو یہ پانی پیتے ہیں اور جیتے ہیں۔

کس طرح ذمے داروں کو شرم آئے، کس طرح ذمے داروں کو ان کی اپنی ذمے داری کا احساس ہو۔ کیا کوئی اس زمانے میں بھی سوچ سکتا ہے کہ جہاں پنجاب کے 5 شہروں میں wi-fi فری کردیا جائے، وہاں پینے کو صاف پانی نہیں۔ جہاں اسمارٹ فون ہر کسی کی پہنچ میں ہو کیا ہم سوچ سکتے ہیں ایسے ملک میں لوگ بھوک اور غربت سے مجبور ہوکر خودکشی کرلیں۔ بے حسی ایسے بڑھتی جا رہی ہے جیسے کہ صرف میں انسان ہوں دوسرا انسان نہیں۔

بڑے بڑے گھر اور گلی کے خاتمے پر کچرے کے ڈھیر، بدبودار چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کی شکل کے، گھروں کے لاکھوں کے خرچے، مگر اس گندگی اور بیماریوں کے ڈھیر کو ہٹوانے کے لیے کوئی دلچسپی نہ لے، گھروں میں گرمیوں میں A.C چلتے رہیں اپنے آپ کو اور بچوں کو مکمل گرمی سے بچانے کی تراکیب آزمائی جائیں مگر گھر کے ملازمین نے تنخواہ بڑھانے کی بات کی یا کچھ رعایت مانگ لی تو انھیں ایسے جواب دیے جاتے ہیں کہ وہ سوچیں وہ مر ہی کیوں نہ گئے۔

ایک اور ظالمانہ حد تک کی بے حسی کوئی بھی ایکسیڈنٹ ہو کوئی بھی واقعہ ہو ہمارے پیارے اس کی لائیو ویڈیو بنانا چاہتے ہیں تصویریں بنانا چاہتے ہیں، مگر اس کی مدد کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے کام آنا نہیں چاہتے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک لڑکا موٹرسائیکل پر کرتب دکھاتے ہوئے چلا جا رہا ہے، پیچھے کوئی صاحب گاڑی میں اس کی ویڈیو بنا رہے تھے، بدنصیبی یہ ہوئی کہ وہ لڑکا گرگیا اور شدید ناگہانی مصیبت ہوگئی، مجمع جمع ہوگیا اور وہ صاحب نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ وہ مسلسل ویڈیو بنا رہے تھے۔ کیا تکلیف دہ منظر تھا وہ سوچیں کہ اگر وہ لڑکا ان کا بیٹا ہوتا تو وہ کیا اسی طرح کرتے، کیا کہیے اور کسے کہیے۔

اتنی شدید بے حسی کے بچوں کو پلانے والا دودھ مکمل کیمیکلز کی نذر ہوجائے اس میں یوریا ملایا جائے۔ وہ نوزائیدہ بچے جو دنیا میں آئے وہ مائیں جو صاحب اولاد ہوئیں، آخر وہ سب لوگ کریں تو کریں کیا، جیسے جیسے گرمی کا موسم آگے جاتا رہا ہے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے اور وہ ڈر ہی رہے ہوتے ہیں کہ اللہ خیر کرے۔ ابھی بھی درمیان میں اندرون سندھ اور پنجاب میں گرمی کی شدید لہریں آ جا رہی ہیں۔ درختوں کی بے حساب قطاریں ہمیں چاہئیں، گلی گلی اور ہر سڑک پر ہزاروں کی تعداد میں درخت موجود ہونے چاہئیں، تاکہ عام لوگوں کو گرمی کی شدت میں سایہ مل سکے۔

فضا میں موجود آلودگی کم ہوسکے، سایہ دار درخت ہزاروں کی تعداد میں ہوں گے تو ہی ہم ہیٹ اسٹروک سے بچ سکیں گے، کچرے کے بے شمار ڈھیر جو پہاڑوں کی شکل میں جگہ جگہ موجود ہیں، ان کے لیے، صفائی کے لیے بہت سے ایسے ایکسپرٹ بلوائے جائیں جیساکہ کرپشن کو بچانے کے لیے ہوتا ہے۔

ہنگامی بنیادوں پر کچھ ایسی ترجیحات ہیں جوکہ ہونی چاہئیں۔ کم ازکم صفائی کو نصف ایمان ہی بنالیا جائے ان کچرے کے ڈھیروں سے کھاد اور مختلف کارآمد چیزیں بنائی جاسکتی ہیں۔

عوام کو ایسے فوائد بتائے جائیں ایسی بسیں چلائی جائیں کہ عوام دفتر جانے کے لیے اپنی اپنی گاڑیوں کی بجائے بسوں میں سفر کریں۔ خواتین کو آنے جانے میں بے شمار پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار ذمے داریوں کو یہ خواتین بااحسن پورا کرتی ہیں۔ خواتین کے لیے آفسز میں اور چھٹیوں کے لیے برابری کی سطح پر انتظامات ہو۔ اور جس طرح ایک مرد کو نوکری پر ہوتے ہوئے اس کے گھر والوں کے کچھ مراعات ہوں بالکل اسی طرح خواتین کو بھی ملیں، سسٹم ہی ایک بہترین ذریعے ہے ہمیں اپنے آپ کو درست کرنے کا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔