بحر مردار کے صحیفے

تزئین حسن  اتوار 30 اپريل 2017
ماہرین کے مطابق یہ تحریریں تیسری صدی قبل مسیح سے پہلی صدی عیسوی تک لکھی گئیں۔ فوٹو : فائل

ماہرین کے مطابق یہ تحریریں تیسری صدی قبل مسیح سے پہلی صدی عیسوی تک لکھی گئیں۔ فوٹو : فائل

یہ 1947 کی بات ہے، ارضِ فلسطین میں واقع بحر مردار کے شمال مغربی ساحلی علاقے قمران میں دو بدّو اپنی بکریاں تلاش کرتے کرتے زمین سے قدرے اونچائی پر واقع ایک سنسان اور ویران غار کے دھانے تک جا پہنچے۔ کھیل ہی کھیل میں کنکر اندر پھینکنے پر اندر سے مٹی کے برتنوں کے ٹکرانے کی غیر معمولی آوازیں سنائی دیں۔

شام کا اندھیرا پھیل چلا تھا اور ان کے پاس روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ غار کا دھانا زمین سے خاص بلند تھا اور باہر سے یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ غار اندر سے کتنا گہرا ہوگا۔ اْس وقت دونوں بدّو گھر لوٹ گئے لیکن اگلی صبح ان میں سے ایک غالباً کسی خزانہ ملنے کی خواہش یا تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر غار میں اترا تو اسے وسیع اور طویل غار میں ایک دیوار کے ساتھ ترتیب سے رکھے ہوئے آٹھ مرتبان نظر آئے، ان میں سے بیشتر خالی تھے لیکن آخری مرتبان میں چمڑے اور کپڑے پر تحریر شدہ تین قلمی نسخے ملے جن میں سے دو کو غالباً حفاظت کے لئے کپڑے میں لپیٹا گیا تھا۔ یہ دونوں بہت اچھی حالت میں تھے اور ان پر موجود تحریریں بہت نمایاں تھیں۔

مزید قلمی نسخوں کی دریافت
آنے والے دس برسوں میں قمران کی پہاڑیوں کے11 غاروں سے تقریباً ایک ہزار صحیفے دریافت ہوئے جنھیں عالمی ماہر آثار قدیمہ نے بحر مردار کے صحیفے یا Dead Sea Scrolls کا نام دیا۔ حال ہی میں اس علاقے سے ایک بارہواں غار بھی دریافت ہوا۔ اگرچہ اس میں بھی ٹوٹے ہوئے مرتبانوں کے آثار ملے مگر قلمی نسخے پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔اس وقت بھی آثار قدیمہ کے حلقوں میں بھی یہ خبر گرم ہے، جس کی تفصیلات دو ماہ پہلے یعنی فروری 2017 میں ہیبریو یونیورسٹی یروشلم کی ویب سائٹ پر شائع کی گئیں۔

ماہرین کے مطابق یہ تحریریں تیسری صدی قبل مسیح سے پہلی صدی عیسوی تک لکھی گئیں۔ آرامی، یونانی، عبرانی اور نباتی زبانوں میں کپڑے اور چمڑے کے پارچوں اور کہیں کہیں مصری کاغذ پیپیرس پر تحریرکردہ ان صحیفوں میں اس دور کے رسوم و رواج اور رہن سہن سے متعلق معلومات کے علاوہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے قدیم ترین نسخے بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ عہد نامہ قدیم عیسائیت اور یہودیت دونوں مذاہب کے لئے آسمانی صحیفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

فلسطین کو انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑ یہاں کنعان نامی علاقے میں منتقل ہوئے۔ ان کے پوتے حضرت یعقوبؑ کا لقب اسرائیل تھا۔ اس مناسبت سے ان کے بارہ بیٹوں کی نسلیں بنی اسرائیل کہلائیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ بھی جن کا تعلق بنی اسرائیل ہی سے تھا ،بھی فلسطین ہی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ معلوم معلومات کے مطابق اغلب خیال یہ ہے کہ انہوں نے ساری زندگی یہاں گزاری۔ عبرانی زبان تاریخی طور پر بنی اسرائیل یعنی یہود کی زبان ہے جو آج اسرائیل کی قومی زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ آرامی وہ زبان ہے جس میں حضرت عیسیٰ ؑ نے تبلیغ کی۔ انجیل پہلی مرتبہ اسی زبان میں لکھی گئی۔ آج یہ زبان تقریباً معدوم تو نہیں ہوئی مگرشام کے تین دور افتادہ دیہاتوں کے سوا شاید ہی کہیں بولی جاتی ہو۔

ان تحریروں میں بائبل کے عہد نامہ قدیم کے تقریباً ہر باب کے مندرجات شامل ہیں۔ بعض کی ایک سے زائد نقلیں موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ  بائبل کے فی زمانہ مستعمل نسخوں سے مماثلت رکھتے ہیں لیکن بیشتر مقامات پر ان میں اختلافات بھی موجود ہیں۔ سب سے لمبی دستاویز آٹھ میٹر طویل ہے اور چمڑے کے ٹکڑے جوڑ کر تیار کی گئی تھی۔ ایک تانبے پر لکھی ہوئی تحریر بھی حاصل ہوئی جس پر ارض فلسطین کے 68 مقامات کی نشاندہی کی گئی کہ شاید ان خفیہ مقامات پر بھی کچھ نسخے اور سونا اور چاندی چھپایا گیا۔

قلمی نسخوں کی فروخت
ان عرب بدوؤں کے ذریعہ پہلے یہ ابتدائی دریافت شدہ نسخے فلسطین کے شہر بیت اللحم (جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بھی ہے) کے ایک تاجر ابراہیم الجار کے پاس پہنچیں جس نے ان پر موجود عبرانی تحریر دیکھ کر گمان کیاکہ شاید یہ کسی یہودی سیناگوگ سے چرائی گئی ہیں، چنانچہ انہیں واپس کر دیا۔ اس کے بعد یہ یروشلم شہر میں نوادرات کے ایک دوسرے تاجر کے پاس پہنچیں، اس سے سیموئیل مار نامی شخص نے ان کی تاریخی اہمیت کو آثار قدیمہ اور علمی ماہرین سے تصدیق کرانے کے بعد خرید لیا۔

سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کی جنگ چھڑ گئی جسے پہلی عرب اسرائیل جنگ کا نام دیا گیا تھا اور ان نسخوں کو عالمی برادری نے حفاظت کے پیش نظر فلسطین سے باہر منتقل کر دیا۔ سن 1954 میں پہلے چار دریافت شدہ صحیفوں کو امریکا کے وال اسٹریٹ جرنل میں مشتہر کیا، ان کی قیمت فروخت ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر طے پائی۔ یاد رہے کہ یہ 1000 میں سے صرف چار صحیفوں کی قیمت تھی، یہ اس قدر خطیر رقم تھی کہ  1954 ء میں اس رقم سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر قائم کیا جا سکتا تھا۔

عیسائی اور یہودی مذاہب کی موجودہ تعبیرات میں اختلاف
Dead Sea Scrolls کہلائے جانے والے ان قلمی نسخوں کا جو یہودیت کی تاریخ، عبرانی بائبل کی ترتیب اور عیسائیت کی تشکیل کے ابتدائی مراحل کی تفہیم میں مدد دے سکتے ہیں کا شمار قیمتی نوادرات میں ہی ہوتا ہے۔ اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے منظر عام پر آنے کے بعد عیسائی کلیسا میں کھلبلی مچ گئی۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویٹی کن چرچ کی مداخلت کی وجہ سے ان نسخوں میں سے بیشتر کی اشاعت عشروں بعد ممکن ہوئی کیونکہ ان دستاویزات کے جوں کا توں منظر عام پر آنے سے عیسائیت کی موجودہ تعبیروتشریح میں اختلاف کا اندیشہ تھا۔ اس لئے انہیں ضروری عمل سے گزارنے مثلاً بوسیدہ ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑ کر انہیں پڑھنے کے لائق بنانے  اور پھر ویٹی کن چرچ  کے سنسر سے گزارنے کے بعد ہی شائع کیا گیا۔  ہمارے نزدیک یہ بات اس لئے محل نظر لگتی ہے کہ ماہرین ہی کے مطابق انہیں دو ہزار سال قبل لکھنے والا بھی یہودیوں ہی کا ایک فرقہ تھا اور موجودہ دریافت کے بعد بھی یہ دستاویزات یہودیوں ہی کے کنٹرول میں رہیں۔ اگر کسی مذہب کی تعبیرات میں اختلاف کا خطرہ تھا تو عیسائیت سے زیادہ یہودی مذہب اس کا زیادہ حق دار ہے۔

 قمران کے کھنڈرات
ان نسخوں کی دریافت کے بعد قریبی تاریخی آثار کی کھدائی کے دوران ایک بڑی آبادی کے آثار ملے جن میں رہائش کے کمرے، حمام، پانی کے تالاب اور برج کے علاوہ مزید قلمی نسخے اور اس دور میں مستعمل سکّے بھی پائے گئے۔ ایک کمرہ بھی ملا جس کے بارے میں غالب خیال یہ ہے کہ یہاں تورات کے یہ نسخے قلمبند کئے گئے ہوںگے۔ دو روشنائی کے کنویں Ink Wells  بھی ملے اور قدیم زمانے میں مستعمل کچھ ڈیسک نما فرنیچر بھی جو ماہرین کے مطابق ان نسخوں کی تیاری کے مختلف مراحل میں استعمال ہوا ہوگا۔

آثار قدیمہ کی کھدائی کے بعد ماہرین کی حتمی رائے یہ تھی کہ یہود کا ایک فرقہ اسین قمران میں سو قبل مسیح سے 68 یا 69 عیسوی تک آباد رہا۔ رومیوں کے خلاف یہودی بغاوت کے دوران رومی فوج نے اس علاقے کو بُری طرح روند ڈالا۔ آبادی یا تو بھاگ گئی یا قتل کر دی گئی یا رومی انہیں غلام بنا کر روم لے گئے جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے۔ ماہرین کے مطابق یہی وہ وقت تھا جس سے پہلے اپنے مذہبی صحیفوں کی حفاظت کے لئے صحرا میں موجود یہ غار جن میں سے بیشتر کے دھانے ایک سوراخ سے بڑے نہیں غالباً انہیں واحد پناہ گاہ نظر آئے اور اس طرح یہ محفوظ تعلیمات دو ہزار سال بعد بیسویں صدی کے نصف آخر میں دنیا کے سامنے آئیں۔

بحر مردار کے قلمی نسخوں کی اشاعت
سن1947 سے2008ء تک The Discoveries in The Judean Desert کے نام سے بحر مردار کے ان صحیفوں پر 39 والیوم شائع ہو چکے ہیں لیکن غار نمبر چار سے نکلنے والے 15000 ٹکڑوں میں تقسیم شدہ 500 دستاویزات جو کل مواد کا 40 فیصد حصہ بنتا ہے،کو عرصے تک حد درجہ خفیہ رکھا گیا۔ کام کرنے والی ٹیم کا کہنا تھا کہ ان کو اس کی تصویر تک لینے کی اجازت نہ تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ویٹی کن کا سنسر کس نوعیت کا تھا مگرعام طور سے جو سکالرز اور آرکیالوجسٹ ویٹی کن کی مداخلت کو اپنی کتابوں میں منظرعام پرلائے ان کی بات کو Theory Conspiracy کہہ کر نظر انداز کیا گیا اور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ڈاکومنٹری The Dead Sea Scrollکے مطابق کم از کم ایک فرد کو ٹیم سے بھی نکال بھی دیا گیا۔

ان دستاویزات کے اصل نسخوں میں سے بیشتر یروشلم میںThe Book  Shrine of  نامی ادارے میں نمائش کے لئے موجود ہیں۔ کچھ نیویارک کے جیوش Jewish History میوزیم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ان نسخوں پر تحقیق کا کام تا حال جاری ہے۔ سیاٹل واشنگٹن سے لے کر برن جرمنی تک انہیں سائنسی اور تکنیکی مراحل سے گزارا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جامعات میں بے شمارسکالرز نے ان صحیفوں کو اپنیPh.D کا موضوع بنایا ہے۔ بلامبالغہ ان صحیفوں پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم دنیا کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ ہم تاریخ اور تحقیق کی اس دنیا سے بالکل بیگانہ اور بے نیاز ہیں۔ یہ امت اپنے حال میں مست ہے۔

(اس مضمون کی تیاری میں برطانوی نشریاتی ادارے’ بی بی سی‘ کی وڈیو The Dead Sea Scroll، سعودی آرامکو ورلڈ کے مضمون The Dead Sea، ٹائمز میگزین فروری 2017 ، آکسفورڈ ڈکشنری آف آرکیالوجی اور Hebrew International Universityکی ویب سائٹ سے استفادہ کیا گیا ہے)

نپولین کا حملہ اور مشرق وسطیٰ کے تاریخی نوادر
یاد رہے کہ نپولین کے مصر پر حملے (1799عیسوی) کے بعد انیسویں صدی کے آغاز سے مغربی آثار قدیمہ کے ماہرین اور نوادرات کے تاجر مشرق وسطیٰ میں موجود تھے جو مشرق وسطیٰ کے تاریخی نوادر کو مغربی میوزیمز اور آثار قدیمہ کے شائق امراء  اور اشرافیہ تک پہنچا کے کثیر منافع کماتے رہے۔ بعد ازاں اس کام میں برطانوی اشرافیہ نے بھی سرمایہ کاری کی۔ ان میں بڑی تعداد میں یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے سکالرز اور تاجر بھی تھے جو اس علاقے میں بنی اسرائیل کی موجودگی کے شواہد حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ امر بھی نہایت دلچسپ ہے کہ ہالی وڈ کی مقبول ترین فلم سیریل انڈیانا جونز کا موضوع بین الاقوامی سیاست کے پس منظر میں مشرق وسطیٰ کے آثار قدیمہ ہی ہیں۔

نپولین کے حملے سے پہلے یورپ انڈیا، امریکا، آسٹریلیا میں اپنی نو آبادیات قائم کرنے کی ابتداء کر ہی چکا تھا مگر ایوبی، مملوک اور پھر سلطنت عثمانیہ کی سرحدوں میں صلیبی جنگوں کے بعد سے پچھلی پانچ صدیوں تک اسے مداخلت کی ہمت نہ ہو سکی تھی۔ نپولین کو برطانوی مداخلت کی وجہ سے ہزیمت اٹھا کر شکست خوردہ واپس جانا پڑا مگر مصر کے عثمانوی گورنر محمد علی پاشا نے اپنا اثر ورسوخ مغربی دنیا میں بڑھانے کے لئے دربار میں یورپی سفراء اور موقع پرستوں کو جگہ دی، انھوں نے سارے خطے میں مہم جوؤں اور جاسوسوں کا جال بچھا دیا، جنہوں نے اپنی حکومتوں اور یونیورسٹیز کی سپانسرشپ پر سیاسی معلومات بھی اکٹھی کیں اور آثار قدیمہ پر بھی ہاتھ صاف کیے۔

آج لندن کے برٹش میوزیم، پیرس کے لوور، جرمنی کے برلن میوزیم سے لے کر نیویارک کے اسمتھسونین اور میٹروپولٹن میوزیم آف آرٹس کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے چھوٹے میوزیمز بھی مشرق وسطیٰ کے خصوصاً مصر کے نوادر سے بھرے پڑے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ ’لارنس آف عریبیا‘ کہلانے والا ٹی ای لارنس شخص اس خطے میں ماہر آثار قدیمہ کے طور پر ہی آیا تھا۔ ترکوں کے خلاف عرب بغاوت منظم کرنے کے لئے اسی خطے کے بارے میں ا س کی وسیع معلومات کی وجہ سے بہت بعد میں منتخب کیا گیا جس نے بالآخر سلطنت عثمانیہ ختم کرکے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔

تانبے پر لکھی ہوئی واحد تحریر
یہ عبرانی تحریر غار نمبر تین سے حاصل ہوئی، یہ  پندرہ تحریروں میں سے ایک تھی اور آج اردن کے عمان میوزیم میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ جس وقت یہ دریافت ہوئی موجودہ اسرائیل کا بیشتر حصہ اردن کی ملکیت تھا۔ یہ دوسری تحریروں سے قدرے مختلف ہے۔ یہ ارض فلسطین میں 64 مقامات کی نشاندھی کرتی ہے جہاں دستاویز کے مطابق ماضی کے کسی دور میں سونے اور چاندی کا خزانہ دفن کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہیرود نامی یہودی بادشاہ کے دور کی سرکاری دستاویز تھی  اور پہلی صدی عیسوی میں تیار کی گئی۔

اس کا تحریری انداز یونانی مندروں کی تحریروں سے مما ثل ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ کسی مندر کی ملکیت تھا۔ اغلب خیال ہے کہ یہ خزانہ پہلے یا دوسرے یہودی مندر کی ملکیت تھا جسے رومیوں کے خطرے کے پیش نظر مختلف مقامات پر دفن کیا گیا۔ یہ لسٹ اس جگہ اس لئے چھپا دی گئی کہ بعد میں آنے والے اسے آسانی سے دریافت کر سکیں۔ یاد رہے کہ اس لسٹ میں مقامات کی نشاندھی میں جا بجا کوڈ ورڈز اور ایسے حوالے (references) استعمال کیے گئے ہیں جو مخصوص افراد کو معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس تحریر میں موجود بعض مقامات پر کسی خزانے کو دفن کرنے کے آثار پائے گئے مگر خزانہ کہیں سے نہیں ملا۔

خیال ہے کہ رومیوں نے یہودیوں کو تشدد کرکے خزانے کا پتہ معلوم کرکے اسے حاصل کر لیا ہوگا۔ اس خیال کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ پہلی صدی عیسوی کے رومی مؤرخ جوزیفس کے مطابق رومیوں نے مقبوضہ علاقوں میں چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش کے لئے با قاعدہ ایک سرکاری پالیسی تیار کررکھی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔