بنگال کی سرزمین پر بنگالی پاکستان سے نفرت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے

ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم  اتوار 30 اپريل 2017
سارک ایگریکلچر سینٹر ڈھاکہ کے دورے میں پیش آنے والے واقعات کی روداد۔ فوٹو فائل

سارک ایگریکلچر سینٹر ڈھاکہ کے دورے میں پیش آنے والے واقعات کی روداد۔ فوٹو فائل

ڈھاکا کے میر حضرو ائرپورٹ پر جہاز سے اتر کر سبھی مسافر 12عدد کائونٹرز پر لائن میں لگے امیگریشن کے مراحل طے کرتے جاتے اور ائرپورٹ سے باہر نکلتے جاتے۔

ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن(SAARC) کی دعوت پر سارک ایگریکلچر سنٹر ڈھاکہ میں پاکستان بھر کے زرعی سائنسدانوں میں سے میرا انتخاب عمل میں آیا تھا اور یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا کہ افغانستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کے زرعی سائنسدانوں کے سامنے سارک ممالک اور خصوصاََ پاکستان میں درپیش، زرعی پیداوار کے چیلنجز اور ایشوز پر ایک لیکچر دوں۔

میری باری آئی تو امیگریشن آفیسر نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور دوسری نظر میرے ہاتھ میں پکڑے سبز رنگ کے پاسپورٹ پر ڈال کر بولا کہ آپ دوسری لائن میں چلے جائیں، چنانچہ یہ سوچ کر میں دوسری لائن میں چلا گیا کہ شائد یہ لائن پاکستانیوں کے لئے مخصوص ہو، دوبارہ جب کائونٹر پر پہنچا تو یہاں پر موجود امیگریشن آفیسر نے بھی میرے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا یعنی مجھے اور میرے پاسپورٹ کو ایک نظر دیکھا اور انگلش زبان میں بول اٹھا کہ آپ پلیز دوسرے کائونٹر پر چلے جائیں، چارو ناچار میں پھر اگلی لائن میں لگ گیا۔

یوں میں چلتا چلتا 12ویں اور آخری کائونٹر پر پہنچ گیا، غصہ بھی بہت آیا مگر دیارغیر میں تھا اس لئے اپنے غصہ کا اظہار کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ ڈھاکہ ائر پورٹ پر بے شمار قومیتوں کے لوگ موجود تھے۔ موجودہ دور کی دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں اپنے پاک وطن کا تشخص بھی بہرحال اس لمحے مقدس رکھنا تھا، اور یوں مختلف قطاروں سے ہوتا ہوا میں امیگریشن آفیسر کے سربراہ کے پاس پہنچ گیا یا مجھے اس کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔

جہاز کے تمام مسافر ائرپورٹ سے باہر جا چکے تھے اور تمام کے تمام کائونٹرز پر closedکے بورڈ آویزاں ہو کر اگلی فلائٹ کے انتظار میں ائر پورٹ کا عملہ خوش گپیوں میں مصروف ہو گیا تھا جبکہ کچھ امیگریشن آفیسرز میرے اردگرد بھی اکٹھے ہو گئے تھے جیسے میں یہاں آکر کوئی جرم کر بیٹھا ہوں، بالآخر میں امیگریشن عملے کے سربراہ کے سامنے تھا، میرا پاسپورٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔ پوچھنے لگا آپ پاکستان سے ہیں اور ویزہ آپ نے بنگلہ دیش کی ایمبیسی سے کیوں نہیں لگوایا۔۔۔! جس پر میں نے عرض کی کہ مجھے سارک ممالک کی طرف سے ویزہ دیا گیا تھا اور میں اس ویزے کی وجہ سے سات ممالک میں بیک وقت سفر کر سکتا ہوں اور بنگلہ دیش بھی سارک ممالک کا نہ صرف ایک اہم رکن ہے بلکہ ایک بانی رکن بھی ہے، بس میں ڈھاکہ میں موجود سارک ایگریکلچر سنٹر کی دعوت پر اور ان کے ہی خرچ پر آپ کے سامنے موجود ہوں۔

امیگریشن آفیسر اپنا غصہ چھپاتے ہوئے بولا، آپ کو کون لینے آیا ہے، مجھے ایسے لگا جیسے وہ بنگلہ دیش میں میری آمد کو مشکوک سمجھ رہے ہوں۔

’’جی مجھے مسٹر علی نامی شخص لینے آیا ہو گا ، س سے قبل وہ کچھ اور سوال مجھ پر داغتا میں نے فوری طور پر کہا کہ یہ رہا اس کا فون نمبر ۔۔۔۔۔‘‘

ڈھاکہ ائرپورٹ سکیورٹی کے سربراہ نے فوری طور پر وہ نمبر مجھ سے لیا اور نمبر ڈائل کر کے بنگالی زبان میں فر فر بولنے لگا، ائر پورٹ سے باہر کھڑے مجھے لینے کے لئے آئے مسٹر علی نے جب تمام تفصیلات اس کو بتائیں تو سکیورٹی آفیسر نے بادل نخواستہ بنگلہ دیش میں انٹری کی مہر چسپاں کر دی۔

مسٹر علی سارک ایگریکلچر سنٹر ڈھاکہ، کا نمائندہ تھا ، بنگلہ دیش میں قیام کے دوران میرا گائیڈ اور سرکاری طور پر میری حفاظت پہ مامور کیا گیا تھا۔کہنے لگا، ڈاکٹر صاحب آپ سب سے آخر پہ ائرپورٹ سے باہر نکلے ہیں، وجہ صرف یہی لگتی ہے کہ کل رات ڈھاکہ میں ایک خود کش بم دھماکہ ہو ا تھا اور بنگلہ دیشی حکومت نے جس کی تمام تر ذمہ داری براہ راست حکومت پاکستان اور اس کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی پر ڈالی تھی۔ شائد اس لئے آپ سے پوچھ گچھ میں زیادہ دیر لگ گئی ہوگی، لیکن آپ فکر نہ کریں ہمارے عوام پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں، جس پر میں چپکا رہا۔

ڈھاکہ ائر پورٹ کے باہر مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں لاہور کے بادامی باغ کے اڈے سے باہر نکل رہا ہوں، دھواں کی آلودگی ہر جگہ نظر آئی، بے ہنگم ٹریفک، چنگ چی رکشہ تو ابھی بنگلہ دیش میں نہیں پہنچا بلکہ انسانی رکشے جا بجا نظر آئے یعنی ایک آدمی اپنے رکشہ کو اپنے پائوں سے چلاتا تھا اور اس میں دو سواریاں آرام سے پیچھے بیٹھ جاتی تھیں جبکہ سائیکل اور موٹر سائیکل والے بھی بے ہنگم ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آجا رہے تھے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کھٹارا بسیں فراٹے بھر رہی تھیں البتہ ائرپورٹ سے خاصا باہر نکل کر سڑکیں کشادہ اور صاف ستھری ہو گئیں تھیں۔

ڈھاکہ کے فارم گیٹ پر واقع سارک زرعی سنٹر کے عملہ نے میرا والہانہ استقبال کیا۔ میرے یہاں آنے کا مقصد سارک ممالک میں پاکستان کی طرف سے زرعی سفیر کی تقرری کے لئے ایک انٹرویو میں شمولیت کرنا تھا۔ سار ک ممالک کے بقیہ چھ ارکان ممالک سے نمائندگی کرتے ہوئے ان ممالک کا بہترین زرعی سائنسدان میرے ساتھ مقابلے میں شریک تھا اور میری طرح ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ وہ اس مقابلے میں کامیاب ہو تاکہ تین سال کے لئے SAC میں اپنے ملک کا بطور زرعی سفیر کے تقرری ہو سکے۔

انٹرویو پینل میں بنگلہ دیش، بھوٹان، انڈیا اور نیپال کے اراکین شامل تھے، سب سے پہلے تحریری امتحان لیا گیا۔ بعد ازاں اسی تحریری امتحان کو پریزینٹیشن کی شکل میں کمپیوٹر پر پیش کرنا تھا۔ سوال تھا کہ سارک ممالک کی زراعت میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے اور خصوصاََ اپنے ملک میں زرعی ایشوز اور چیلنجز کے بارے میں آگاہ کریں، تحریری امتحان اور کمپیوٹر پر پریزینٹیشن تیار کرنے کے لئے اکٹھا وقت دیا گیا تھا جبکہ کمپیوٹر پریزینٹیشن اور انٹرویو کے لئے ہر ملک کا نمائندہ الگ الگ پیش ہوا تھا جس کے لئے حروف تہجی کے اعتبار سے ہر ملک کے سائنسدان کو بلایا جاتا، سارک ممالک میں کو ئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو حروف تہجی کے اعتبار سے ہی ہر ملک کا نمائندہ اپنا موقف پیش کرتا ہے، لہٰذا P کی وجہ سے میرا نام بھی سیکنڈلاسٹ پہ تھا۔ تمام ممالک کے نمائندے اپنا اپنا انٹرویو دینے کے بعدکوئی دس منٹ میں واپس آچکے تھے جبکہ نیپال کا نمائندہ کوئی بیس منٹ کے بعد واپس آیا تھا چنانچہ اب میری باری تھی۔

دورود شریف پڑھتا ہوا میں بورڈ کے سامنے پیش ہوا، خوش آمدید کہنے کے بعد مجھے بیٹھنے کے لئے کہا گیا، اس سے قبل کہ میں کمپیوٹر پر اپنی پریزینٹیشن پیش کرتا۔ مجھ سے پہلا سوال فوری طور پر پوچھ لیا گیا کہ ڈاکٹر اعجاز تبسم۔۔۔ آپ کو بنگلہ دیش میں آمد کے لئے جب دعوت نامہ جاری کیا گیا تو اس میں لکھا گیا تھا کہ آپ جہاز کے سفر کے لئے جہاں سے مرضی اور جو بھی روٹ اختیار کریں اس کے لئے آپ کو ریٹرن ٹکٹ کی مد میں68 ہزار روپے دیے جائیں گے، یعنی آپ 68ہزار تک کی ٹکٹ لے سکتے ہیں لیکن آپ نے صرف 51 ہزار روپے کا ہی وائوچر کیوں ہمیں دیا۔۔۔!

سوال کرنے کے بعد سبھی میری طرف غور سے دیکھنے لگے، مجھے ایسے لگا کہ وہ میری طرف نہیں بلکہ میرے وطن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس غیر متوقع سوال پر میں کچھ دیر کے لئے ٹھٹھکا، لیکن میں نے اپنے حواس مجتمع کئے اور بولا، پیسہ میرا ہو یا سارک ممالک کا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر پیسے کا خواہ مخواہ ضیاع کوئی دانشمندی نہیں اور ویسے بھی جہاز کے جس پچھلے حصہ کا ٹکٹ میں نے خریدا اس حصے نے بھی VIPحصے کے ساتھ ہی ڈھاکہ پہنچنا تھا۔میرے جواب پر چاروں ارکان متاثر نظر آئے اور کہنے لگے ’’ ہم نے اب طے کیا ہے کہ یہاں آنے جانے کا خرچہ 51 ہزار سے بڑھا کر98 ہزار کر دیا جائے، یعنی اب آپ بنگلہ دیش کے مہنگے ترین ہوٹل میں قیام کر سکتے ہیں۔

میرا انٹرویو سب سے طویل رہا دیگر امیدوار بھی میری سلیکشن کا امکان ظاہر کر رہے تھے۔ میرے انٹرویو کے بعد ہمیں کہا گیا تھا کہ آدھے گھنٹے میں سارک تنظیم کے تمام ارکان ممالک میں سے کسی ایک ملک کے زرعی سائنسدان کو تین سال کے لئے سارک ممالک میں بطور زرعی سفیر کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کا رزلٹ بتا دیا جائے گا۔کچھ دیر کے بعد سارک زرعی سینٹر کا ایک سینئر آفیسر چیئرمین آفس سے باہر نکلا اور بولا ، جنٹلمین۔۔۔ سارک تنظیم کے سلیکشن بورڈ نے دو ممالک کے زرعی سائنسدان حتمی فہرست میں شامل کئے ہیں جن میں سر فہرست پاکستان کے پی ایچ ڈی زرعی سائنسدان ہیں اور دوسرے نیپال کے زرعی سائنسدان ہیں۔

ان دونوں ممالک کے زرعی سائنسدانوں کو سارک زرعی سنٹر بنگلہ دیش کی جانب سے مبارکباد، اب ان میں سے ایک کا انتخاب سارک تنظیم کے جنرل سیکرٹری کریں گے۔ بنگلہ دیش کے میرے ساتھی مجھے میری رہائش گاہ کی طرف لے آئے۔

اگلے دن سارک زرعی سنٹر بنگلہ دیش نے ڈھاکہ کی سیر کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا میں نے اپنے میزبان مسٹر علی سے کہا کہ کیا آپ معروف بینکار اور مائیکرو فنانس کے خالق ڈاکٹر محمد یونس سے میری ملاقات کروانے کا اہتمام کر سکتے ہیں جس پر مسٹر علی پھر گویا ہوا کہ ڈاکٹر محمد یونس کا شمار یہاں حکومت مخالف لوگوں میں ہوتا ہے اس لئے حکومت نے اس کی سرعام ملاقاتوں پر پابندی لگا رکھی ہے، حکومت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ڈاکٹر یونس اپنی شہرت کے پیش نظر ایک سیاسی پارٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لئے حکومت ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے ، اس کے بعد میرے میزبان مجھے سیر کے لئے لے کر روانہ ہو گئے۔

ڈھاکہ شہر اپنے حدود اربعہ اور آبادی میں اتنا پھیل چکا ہے کہ وزیر اعظم ہائوس بھی اب شہر کی آبادی کے بیچوں بیچ آگیا ہے، شہر میں گھومتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم کسی اجنبی ملک میں گھوم پھر رہے ہیں سڑکیں، ٹریفک کا نظام ریڑھیاں، تانگے، سب کچھ ویسے ہی دکھائی دے رہا تھا جیسے پاکستان میں ہے لیکن ایک منفرد چیز جو دیکھنے کو ملی وہ سائیکل رکشا کی سواری تھی، پاکستان میں تو سائیکل رکشہ کی سواری ختم ہو چکی ہے مگر ڈھاکہ میں ابھی تک موجود ہے اور سائیکل رکشہ کو بچہ، جوان اور بوڑھا ہر شخص اپنے پائوں سے چلانے میں مگن تھا جس کے پیچھے کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ دو سواریاں بیٹھ سکتی تھیں۔

کم خرچ پر بنگالیوں کے لئے یہی ایک سواری تھی جو ان کے لئے کسی بھی میٹرو بس سے کم نہ تھی، نئے نویلے جوڑوں کے لئے تو یہ بہت شاندار سواری تھی جو سار ا شہر اس میں گھوم سکتے ہیں۔ سائیکل رکشہ چلانے والے ڈرائیور اس قدر مستعد رہتے کہ سارا شہر گھومنے کے باوجود وہ چوکس ہی نظر آئے، شائد ان کی جسامت ایسی تھی یا پھر سائیکل رکشہ چلا چلا کر وہ اس مشقت کے عادی ہو گئے تھے۔

چہرے مہرے اور شکل و شباہت سے بنگالی اور پاکستانی ایک سے لگتے ہیں، لیکن موجودہ دور میں پاکستانیوں کے ساتھ شائد انہیں اللہ واسطے کا بیر تھا یا شائد بھارت کا اثر تھا کہ کسی بھی معاملے پر پاکستان کا نام آنے پر بنگالی لوگ اپنی ناک بھوں چڑھانے سے باز نہیں رہتے، جس کا اظہار ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے مثلاََ یہ کہ بنگلہ دیشیوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنے کسی بھی جہاز کو پاکستان کی حدود میں نہیں بھیجیں گے اور نہ ہی کوئی پاکستانی پرواز ڈھاکہ آنے دیں گے، ہاں یہ ضرور ہے کہ پاکستان کے لوگ کسی اور ملک کی پرواز سے ڈھاکہ آسکتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ میں بھی ڈھاکہ جانے کے لئے لنکا ائر لائنز کے ذریعے لاہور سے پہلے سری لنکا کے شہرکولمبو گیا تھا اور پھر وہاں سے لنکا ائر لائنز سے ہی ڈھاکہ پہنچا تھا ، اسی طرح واپسی پر ڈھاکہ سے کولمبو اور پھر کولمبو سے لاہور آیا تھا۔

بنگلہ دیش نے خود کو پاکستانی سیاست سے دور رکھا ہے اور ان کی ٹی وی نشریات میں کوئی پاکستانی چینل دیکھنے کو نہیں ملتا ماسوائے مدنی چینل کے ۔ہاں البتہ انٹر نیٹ کے ذریعے پاکستانی حالات سے باخبر رہنے کے لئے پاکستانی اخبارات ضرور پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔

پاکستانیوں سے ان کی بے زاری کا عالم یوں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بم دھماکہ کوئی کرے، نام فوراََ پاکستان کا آجاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جس روز میں ڈھاکہ پہنچا تھا ائرپورٹ پر مجھ سے گھنٹوں پوچھ گچھ ہوتی رہی، پاکستان سے منسوب ہر چیز ان کے لئے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شلوار قمیض پاکستانیوں کا لباس ہے اس لئے انہوں نے پاکستانی شلوا ر قمیص پہننا اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔

اگر 100بنگالیوں کے لباس کا جائزہ لیا جائے تو ان میں 80 بنگالی پینٹ اور کرتہ میں نظر آئیں گے، 18بنگالی تہبند یا چادر میں لپٹے ملیں گے اور فقط دو لوگ مجھے شلوار قمیض میں دکھائی دیے، ان دو لوگوں میں سے ایک شلوار قمیض میں خود میں تھا جبکہ دوسرا کوئی تبلیغی بھائی ہو گا۔ لباس پہننے کی یہی صورتحال مجھے ڈھاکہ کی مسجد بیت المکرم میں دکھائی دی۔

بنگلہ دیش میں نوجوان ذوق و شوق سے مذہب کی طرف راغب نظر آئے، ہر مسجد میں اذان دینے کا انداز بہت بھلا لگا، آوازیں اتنی بھلی اور دلکش تھیں کہ یوں محسوس ہوا کہ اذانیں خانہ کعبہ یا مسجد نبوی شریف ﷺ سے آرہی ہیں، فرض نماز کے بعد امام صاحب نہایت مختصر دعا مانگتا شائد یہی وجہ تھی کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کسی بھی نمازی کو یہ جلدی نہ ہوتی کہ وہ سنتوں کی ادائیگی کے لئے فوری طور پر کھڑا ہو جائے، دعا کے بعد سبھی نمازی بقیہ نماز کے لئے اکٹھے کھڑے ہوتے، ڈھاکہ کے گلی بازاروں میں نوجوان اپنی کاروں میں میوزک ضرور بجاتے مگر ان کی آواز کاروں سے باہر نہیں نکلتی۔

بانی بنگلہ دیش کے اہل خانہ کو تو بنگالیوں نے اپنے سرآنکھوں پر بٹھا رکھا ہے یہاں تک کہ بابائے بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی کو عرصہ دراز سے ایوان اقتدار میں فائز کر رکھا ہے ۔ بنگلہ دیش کے معاشرے اور یہاں کے ماحول کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ بنگلہ دیشیوں کے سروں پر تین قسم کے بھوت سوار ہیں، پہلا بھوت ان پر یہ سوار ہے کہ وہ مذہب کے نام پر مرنے مارنے کو تیار رہتے ہیں ، مسلک میں بٹنا بنگلہ دیشیوں کو کسی صورت بھی گوارا نہیں، یہی وجہ ہے کہ حنفی، سنی طبقہ کی اغلب اکثریت ہے، مگر مذہب کے نام پر بنی سیاسی جماعتوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔

دوسرا بھوت یہ ہے کہ یہاں کے عوام کسی طور پر بھی بنگلہ دیش کے ساتھ وفا کرنے میں پیچھے نہیں رہتے، صحیح معنوں میں ایک ابھرتی ہوئی قوم نظر آئی، ان کی سوچ قومی، ان کا لباس قومی، ان کی زبان قومی، انگریزی زبان ان کے پاس سے بھی ہوکر نہیں گزرتی، بڑی بڑی مارکیٹوں اور پلازوں اور دکانوں پر بنگالی زبان کے حروف ہی نظر آئے، سرکاری تقریبات میں بھی انگلش زبان کم اور اپنی بنگالی زبان میں بولنے کو ترجیح زیادہ دیتے ہیں ، یہ ان کی اپنی قوم اور ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کا ہی ثمر ہے کہ ان کی کرنسی پاکستانی کرنسی سے بہت مضبوط ہے یعنی ہمارے ہاں 106روپے کا ایک ڈالر ہے جبکہ بنگلہ دیش میں فقط 80 ٹکے کا ایک ڈالر مل جاتا ہے اور تیسرا یہ کہ پاکستانیوں سے نفرت کا موقع کسی صورت بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں گے۔

یہ طے ہے کہ وہ پاکستان کو بہرحال اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور دشمن کے دشمن کو اپنا دوست، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں کوئی بھی حکومت ہو بنگلہ دیشیوں اور ان کی حکومت کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی طرف زیادہ رہتا ہے، وہ اس بات کو بھی نہیں مانتے کہ عالمی سطح پر پہلا ایک روزہ کرکٹ میچ جتوانے میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے ان کے ساتھ ہاتھ ذرا نرم رکھا تھا تاکہ وہ عا لمی کرکٹ میں جگہ بنا سکیں۔ بنگلہ دیشیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سے وہ پہلا کرکٹ میچ اپنے زور بازو سے جیتے تھے۔

ایک دن سارک ایگریکلچر سنٹر کے مرکزی دفتر واقع ڈھاکہ میں بیٹھے بنگلہ دیش کے مرد و خواتین آفیسرز سے گپ شپ ہو رہی تھی، باتوں باتوں میں ہارٹی کلچرسٹ یعنی امور باغبانی کی ماہر خاتون سائنسدان نرگس پوچھنے لگی کہ ڈاکٹر اعجاز تبسم ۔۔۔ 1947ء میں مشرقی پاکستان کے لاکھوں مرد وخواتین اور بچوں بوڑھوں نے بھی آزاد مملکت خداداد پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا تھا پھر کیا وجہ تھی کہ ہم 30 سال بھی اکٹھے نہ رہ سکے۔۔۔!

چبھتا ہوا یہ سوال نرگس نے اپنے چھ سات بنگلہ دیشی ساتھیوں کی موجودگی میں مجھ سے پوچھ لیا، حالات کی نزاکت کا مجھے علم تھا اور یہ بھی میرے ذہن میں تھا کہ بنگلہ دیشی لوگ پاکستان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔۔۔ ، یہ لوگ پاکستانیوں سے بات کرتے ہوئے چہر ے پر اپنے کسی جذبے کو حاوی بھی نہیں ہونے دیتے، پاکستانیوں کے سامنے بس دل کی باتیں دل میں ہی رکھتے ہیں۔۔۔ چنانچہ میں نے سبھی چہروں کی طرف دیکھا جو اس وقت میرے جواب کے متمنی تھے، اور گویا ہوا کہ فرض کریں ایک گھر میں پانچ چھ بھائی رہتے ہیں۔

اگر ان کے والدین ان کے مابین جائیداد کی تقسیم کے لئے انصاف سے کام لیں گے، کسی کی حق تلفی نہیں کریں گے اور نہ ہی حق تلفی ہونے دیں گے تو ان کا ایک بھائی بے شک واشنگٹن میں رہے وہ یک جان رہیں گے، ان میں اتفاق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا نظر آئے گا، ان کے مابین پھر فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور اگر ان بھائیوں سے بے انصافی ہو گی، تو ان کے لئے ان کا اپنا ہی گھر جہنم بن جائے گا، ان کا آپس میں اکٹھے رہنے کو دل نہیں چاہے گا، یہی حال مشرقی پاکستان کے میرے دوستوں کے ساتھ ہوا ہے، اگر اس وقت ارباب اختیار نے انصاف پر مبنی فیصلہ کیا ہوتا توآج ہم یقیناََ اکٹھے ہوتے ہمارے درمیان یوں دو خطوں کی لکیریں حد فاصل نہ ہوتیں۔

میرے اس جواب پر بنگلہ دیش کے زرعی سائنسدانوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، ایک بنگلہ دیشی بھائی بھاگ کے میرے لئے ٹھنڈا پانی لے آیا، دوسرا کہنے لگا، آج آپ رات کا کھانا ہمارے گھر تناول کیجیے، ہمیں خوشی ہو گی۔ جبکہ نرگس کہنے لگی کہ ڈاکٹر اعجاز آپ بڑے اوپن مائنڈڈ ہیں آپ نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنا مافی الضمیر بڑے احسن انداز میں بیان کر دیا ہے، ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانیوں کی سوچ اب دقیانوسی نہیں رہی، اگر یہی سوچ پہلے ہوتی تو کبھی بھی ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ نہ لگتا، اور نہ ہی ہم الگ ہوتے، اور آج ہمارا شمار بھی دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں ہو رہا ہوتا۔

آج بنگلہ دیش میں میرے قیام کا آخری روز تھا، اور آج ہی سے 32 سال قبل ہمسائیگی کی اہمیت، باہم مل جل کر رہنے اور ترقی کرنے کے جو عہد و پیمان بنگلہ دیش کے صدر ضیاء الرحمٰن نے دسمبر1985ء میں سارک تنظیم کے قیام کے وقت باندھے تھے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج سارک تنظیم اپنے طے کردہ اور وضع کردہ موقف سے منحرف ہو چکی ہے، جس طرح معاشرے سے قومیں وجود پاتی ہیں پھر قوموں سے ملک جنم لیتے ہیں، ملکوں کو یکجا کرنے سے کرہ ارض پر خطے ابھرتے ہیں اور پھر خطوں سے دنیا نشو ونما پاتی ہے، اسی طرح معاشرے کے بدعنوان ہونے سے قومیں داغ دار ہوجایا کرتی ہیں اور بدنما ملکوں کی وجہ سے علاقائی خطوں کو قدرتی طور پر زک پہنچتی رہتی ہے جس سے دنیا خوشنما دکھائی نہیں دیتی، داغ دار ہو جاتی ہے، ایسے میں قدرت سخت فیصلے کرتی ہے، زلزلے اس کی نشانیاں ہیں، سیلاب و طوفان اس کے مظاہر ہیں، پہاڑ سرک جاتے ہیں اورگلوبل وارمنگ تو آج کا بڑا مسئلہ ہے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر ہوش مند قومیں، ان مظاہر ِ قدرت سے درس کشید کر کے اپنی منازل متعین کر لیتی ہیں، اور چپ سادھ لینے والی قومیںاپنی قسمت کا رونا رونے میں لگی رہتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مقولے پر عمل پیرا ہے جس کا ثبوت اک یہی کافی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی تمام قوموں کا مشترکہ ادارہ اقوام متحدہ(UNO) جو دکھ سکھ میں اکٹھے چلنے کے لئے بنایا گیا تھا داغ دار ہو چکا ہے، جس کے بھیانک اثرات اب دنیا کی تمام قوموں پر پڑتے دکھائی دے رہے ہیں جس کا ایک ثبوت یہی ہے کہ یو این او دنیا کی اقوام کا اعتماد کھو چکا ہے، اس لئے اس کے کئے ہوئے فیصلوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا۔

لاکھوں کشمیری اس ادارے کی نظر میں کیڑے مکوڑے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں 70سال سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ، ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں اپاہج ہو چکے لیکن اقوام متحدہ کو بھارت کی بربریت دکھائی نہیں دیتی۔

بوسنیا، شام، عراق، افغانستان، مصر، ایران،کیوبا، کویت اور ان جیسے بے شمار ممالک پر مسلط کی جانے والی جنگیںUNOکا منہ چڑانے کے لئے کافی ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی یہی پالیسی خطوں سے ہوتی ہوئی ملکوں اور معاشروں تک سرایت کرتی دکھائی دے رہی ہے، یہی حال ہمارے اپنے معاشرے کا ہو چکا ہے، یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسی پا لیسیوں پر گامزن رہنے والے اقوام متحدہ کے عدم انصاف پر مبنی اثرات براہ راست ہمارے معاشروں تک آ پہنچے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

جنوبی ایشیاء کی تنظیم سارک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، یہاں بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا مقولہ رائج ہو چکا ہے۔ لوگ کشیدگیوں سے ہر صورت بچنا چاہتے ہیں، امن کے خواہاں ہیں، غربت ان پر پنجے گاڑے کھڑی ہے مگر بھارت کی میں نہ مانوں کی ہٹ دھرمی کی پالیسی کی وجہ سے سارک تنظیم کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے، بھارت چاہے تو سارک سربراہ کانفرنس ملتوی ہو جائے اور چاہے تو سارک کے نمائندگان کی ملاقاتیں دو دو سال تک بھی ہو نہ پائیں، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد شائد اس لئے سارک تنظیم کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی کہ اس تنظیم کی کامیابی سے اس کی مخالف پارٹی کے رہنمائوں ضیاء الرحٰمان اور خالدہ ضیاء کا نام روشن ہوگا۔

لہذا بنگلہ دیشی وزیر اعظم، سارک تنظیم کی نشوونما ہونے سے پہلوتہی برتنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، سارک تنظیم میں شامل چھوٹے ممالک اس لئے نہیں بولتے کہ ان کی لاٹھی کمزور ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بولنے سے کہیں بڑی طاقتیں ان سے ناراض نہ ہو جائیں، کیونکہ اگر وہ ناراض ہوں گی تو ان کے مفادات پر زد پڑ سکتی ہے ،گویا خطے کی اجتماعی بہتری کے لئے کسی قسم کی عملی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ اگر سارک تنظیم کا حال بھی اقوام متحدہ جیسا ہوا اور بھارت جیسا طاقتور ملک اسے بلیک میل کرتا رہا تو سارک تنظیم اپنی موت آپ مر جائے گی۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔