راہ نما کے روپ میں رہزن؛ دور جدید کے بدعنوان ترین سیاست دان

سید بابر علی  اتوار 30 اپريل 2017
ٹرانپیرینسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے بدعنوان ممالک میں بھارت سر فہرست ہے۔فوٹو : فائل

ٹرانپیرینسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے بدعنوان ممالک میں بھارت سر فہرست ہے۔فوٹو : فائل

کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس سے ملکی معیشت تباہ حالی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ملک کا پورا معاشی انفرااسٹرکچر متاثر ہوجاتا ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں ایک ارب سے سے زاید لوگ ایک وقت کھانے کے محتاج ہیں، وہاں سالانہ اربوں ڈالر کی کرپشن انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔

کرپش کی کئی اقسام ہیں، لیکن اس میں سرفہرست سیاسی کرپشن ہے، جس میں اعلیٰ حکومتی اہل کار اور اہم عہدوں پر فائز سیاست داں اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی وسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں عوام تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

اگرچہ کرپشن کا ناسور زمانۂ قدیم ہی سے کسی نہ کسی صورت میں معاشرے میں سرایت کرتا رہا ہے، لیکن دور جدید میں تحفتاً ملنے والی نفسانفسی اور مادیت پرستی نے اس رجحان کو جلا بخشی ہے۔ یہ زہر نہ صرف سیاست دانوں بل کہ عوام میں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ عوام میں موجود دکان دارکم تول کر، گھٹیا چیز منہگے داموں بیچ کر اس ناسور کو بڑھا رہے ہیں تو صنعت کار، سرمایہ دار اور سیاست داں کمیشن لے کر اور ٹیکس چوری کرکے قومی خزانے کو اس زہر کا ٹیکا لگا رہے ہیں۔

خدا نے دنیا کو بہت خوب صورت بنایا ہے لیکن کچھ لوگ اپنے مفادات کے لیے اسے تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ رشوت ستانی معاشرے میں کس کس شکل میں موجود ہے اسے لکھنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں، لہٰذا اس مضمون کو صرف سیاسی کرپشن تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں سیاست دانوں اور بدعنوانی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے ایسے لوگ کروڑ پتی، ارب پتی ہوگئے ہیں جن کے پاس پہننے کے لیے کپڑے، اور کھانے کے لیے خوراک تک نہیں ہوتی تھی۔

دنیا بھر خصوصاً پاکستان میں دولت مند بننے کے لیے سیاست میں آنا ایک ایسا مجرب نسخہ ہے جسے بہت سے سیاست داں کام یابی سے استعمال کرچکے ہیں اور انہیں افاقہ بھی ہوا ہے۔ لیکن کرپشن کا یہ ناسور صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس ناسور کی جڑیں دنیا کے ہر ملک کے سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد کی رگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں ممتاز ویب سائٹ فاربس نے دنیا کے ’بدعنوان ترین سیاست دانوں ‘ کی فہرست جاری کی ہے، جن کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔

٭ محمد سوہارتو
انڈونیشیا کے عوام پر 31سال تک مسلط رہنے والے صدر محمد سوہارتو نے اپنے دور حکومت میں رشوت ستانی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اپنے دور حکومت میں سوہارتو نے انڈونیشیا میں ایک مضبوط اور مرکزی فوجی حکومت قائم کی۔ سوہارتو کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے دورحکومت میں انڈونیشیا نے معاشی اور صنعتی ترقی کی، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں میں بہتری آئی اور عوام کا طرز زندگی بہتر ہوا۔ لیکن 2014 میں شایع ہونے والی ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی گلوبل کرپشن رپورٹ نے سوہارتو کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اپنی اس رپورٹ میں سوہارتو کو دور جدید کا سب سے زیادہ کرپٹ لیڈ ر قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اپنے دوراقتدار میں انہوں نے مبینہ طور پر 15سے 35ارب ڈالر کی کرپشن کی۔ اس کرپشن کے نتیجے میں 1997تا 1998میں انڈونیشیا بدترین معاشی بحران کا شکار ہوا۔ اسی معاشی بحران کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا۔ اور سوہارتو کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔

٭ فرڈینینڈ مارکوس
فلپائن کے سابق صدر اور اہم سیاست داں فرڈینینڈ مارکوس نے اکیس سال حکم رانی کی۔ فرڈینینڈ کو فلپائن کا سب سے بدعنوان اور سفاک آمر سمجھا جاتا ہے۔ اپنے دور حکومت میں مارکوس نے مخالفین کے خلاف سفاکیت کی بہت سی مثالیں قائم کیں۔ اس کی رشوت ستانی پر کئی کتابیں لکھی گئیں۔ فرانک سیناتھ کی کتاب ’دی میکنگ آف فلیپائنیز‘ کے صفحہ103پر لکھاری کچھ اس طرح رقم طراز ہے: ملک میں ایک سفاک آمر کی حیثیت سے معروف مارکوس نے حکومتی خزانے سے بڑی رقوم کو اپنی جماعت کی سیاسی مہم چلانے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے دوراقتدار میں مزدوروں کی ماہانہ آمدنی بیس فی صد سے زاید گرگئی تھی، جب کہ ملک کا دس فی صد امیرطبقہ بقیہ ساٹھ فی صد آبادی سے دو گنی کمائی کر رہے تھے۔

1972تا 1980کے درمیانی عرصے میں زرعی پیداوار تیس فی صد کم ہوچکی تھی۔ مارکوس نے راک فیلر اور فورڈ فائونڈیشن کی مدد سے سبزانقلاب لانے کا دعویٰ کیا اور زرعی اصطلاحات متعارف کرائی۔ یہ زرعی اصلاحات بڑے اداروں کے لیے بہت منافع بخش ثابت ہوئیں، لیکن چھوٹے کسانوں کو مزید غربت کی دلدل میں دھکیل دیا۔ مارکوس نے اپنی حکومت میں ہر اس چیز سے پیسہ بنایا جس سے وہ بنا سکتا تھا۔ اس نے بارہ ملین ہیکڑ پر محیط جنگلوں کو کاٹ کر قیمتی لکڑی بیرون ملک برآمد کی۔ جس عرصے میں جب زرعی پیداوار کم ہورہی تھی اسی عرصے میں فلپائن سے لکڑی کی برآمد پھل پھول رہی تھی۔

مارکوس نے اپنی دولت میں اضافے کے لیے نہ صرف قیمتی لکڑیوں کی فروخت، سبز انقلاب کے ٹھیکوں میں کمیشن کی مد میں بھاری رقم سمیٹی بل کہ غیر ملکی قرضے بھی لیے۔ 1970میں فلپائن کا بیرونی قرضہ دو ارب تیس کروڑ ڈالر تھا جو پندرہ سال میں بڑھ کر 26 ارب بیس کروڑ تک پہنچ گیا تھا۔ اور اس میں سے زیادہ تر رقم مارکوس نے اپنے بینک اکائونٹس میں منتقل کی۔ فرنینڈینڈ نے مبینہ طور پر پانچ سے دس ارب ڈالر کی کرپشن کی۔ ٹرانسپیرینسی انٹر نیشنل کی گلوبل کرپشن رپورٹ نے دور جدید کے بدعنوان ترین سیاست دانوں کی فہرست میں مارکوس کو دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔

٭موبوتو سیسے سیکو
غریب ترین افریقی ممالک میں سے ایک جمہوریہ کانگو کے فوجی آمر اور صدر موبوتو سیسے سیکو دنیا کے بدعنوانوں ترین سیاست دانوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر براجمان ہے۔ موبوتو نے ملک میں جاری خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کھول کر بدعنوانی کی۔ اپنے 32 سالہ دور اقتدار میں موبوتو نے 5ارب ڈالر کی بدعنوانی کی۔ احتساب سے ڈر کر ٹوگو بھاگنے والا موبوتوسات ستمبر 1997کو رباط کے ایک اسپتال میں پراسٹیٹ کینسر کی وجہ سے دم توڑ گیا۔

٭ثانی اباچا
غریب ترین خطے افریقی ملک نائجیریا کے سابق صدر ثانی اباچا کا نام دور جدید کے کرپٹ ترین سیاست دانوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ستمبر 1993میں زبردستی اقتدار پر قابض ہونے والے فوجی سربراہ ثانی اباچہ نے دل کھول کر بدعنوانی کی۔ ثانی نے اپنے دور اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے انسانی حقوق کی سنگین خلا ف ورزیاں بھی کیں۔ مخالفین کو طاقت کے زور پر کچلا۔ اپنے دور حکومت میں اباچہ اور اس کے گھر والوں نے قومی خزانے سے پانچ ارب ڈالر کی خطیر رقم اپنے اکائونٹس میں منتقل کی۔ اس کام کے لیے اس نے جعلی ٹریول چیک کیش کروائے اور اپنے بیٹے محمد اباچا کے ذریعے بیرون ملک آف شور اکائونٹس میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم منتقل کی۔ 2014 میں امریکی محکمۂ انصاف نے اباچا کے 458 ملین ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے۔ 1998میں ثانی اباچا ابوجا کے صدارتی محل میں اپنی خواب گاہ میں مردہ پایا گیا۔ اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کیے بنا اسی دن دفن کردیا گیا۔ کچھ مقامی اخبارات نے اباچا کے قتل کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اسے دو بھارتی جسم فروش عورتوں نے شراب میں زہر دے کر قتل کیا۔

٭سلوبودان میلاسیوک
سربیا کے صدر اور کوسوو میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث سلوبودان میلاسیوک کا شمار جدید دور کے بڑے کرپٹ سیاست دانوں میں سے ایک میں کیا جاتا ہے۔ اپنے تین سالہ دور حکومت میں اس نے ایک ارب ڈالر کی کرپشن کی۔ میلاسیوک کو کوسوو میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی وجہ سے 1999میں جنگی مجرم قرار دیا گیا۔ ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت نے اس انسان نما درندے پر مسلمانوں کی نسل کشی، مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر قتل عام سمیت متعدد سنگین الزامات عائد کیے۔ سلوبودان 11مارچ 2006کو اقوام متحدہ کے وار کرائم ٹریبیونل کے حراستی مرکز میں مردہ پایا گیا۔ تاریخ میں اسے ایک بدعنوان سیاست داں سے زیادہ وحشی انسان کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

٭جین کلاڈ ڈیو ویلیئر
جین کلاڈ کا نام جدید تاریخ کے سب سے بدعنوان سیاست دانوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 1971میں باپ کی موت کے بعد صدر بننے والے جین کلاڈ کو دنیا کا سب سے کم عمر صدر بھی جانا جاتا ہے۔ اقتدار میں آتے ہی جین نے اپنی کرپشن کو قانونی شکل دینے کے لیے قوانین میں متعدد ترامیم کیں۔ اپنے دور حکومت میں ہیٹی کے ہزاروں شہریوں پر تشدد اور انہیں قتل کیا گیا۔ ہزاروں شہری ملک سے فرار ہوئے۔ 1986میں ہیٹی میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں جین نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔ جین نے مجموعی طور پر آٹھ سو ملین ڈالر کی کرپشن کی۔

٭البرٹو فیوجی موری
پیرو کے باسٹھویں صدر کی حیثیت سے دس سال حکومت میں رہنے والے البرٹو فیوجی موری کا شمار متنازعہ ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے لے کر بدعنوانیوں تک اس کے متعدد اسکینڈل ہیں۔ 2000میں بدعنوانی کے الزامات پر حکومت ختم ہونے کے بعد بھاگ کر جاپان چلا گیا۔ تاہم 2005 میں وہ اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پیرو واپس آگیا۔ اس پر انسانی حقوق کی پامالی، سیاسی حریفوں کے اغوا و قتل اور سرکاری خزانے میں خردبُرد پر پچیس سال قید کی فرد جرم عاید کی گئی۔ اپنے دور حکومت میں البرٹو نے 600 ملین ڈالر کی کرپشن کی۔ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی گلوبل رپورٹ کے مطابق دورجدید کے بدعنوان ترین سیاست دانوں کی فہرست میں البرٹو ساتویں نمبر پر ہیں۔

دنیا کے بدعنوان ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر
ٹرانپیرینسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے بدعنوان ممالک میں بھارت سر فہرست ہے۔ نریندرا مودی کے دور میں اسپتال، تعلیمی ادارے سے لے کر پولیس کچہری تک میں رشوت کا دور دورہ ہے۔ فاربس میں شایع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا کے کرپٹ ترین ممالک میں بھارت سرفہرت ہے۔ جہاں رشوت دینے کی شرح 69 فی صد ہے، جب کہ اس فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے جہاں مختلف کاموں کے لیے رشوت دینے کی شرح چالیس فی صد ہے۔ ویت نام میں رشوت کی شرح 65 فی صد، تھائی لینڈ میں41 اور میانمار میں چالیس فی صد ہے۔ الم ناک بات یہ ہے کہ رشوت نہ دینے کے اہل لوگ تعلیم، قانون اور صحت کے محکموں میں اپنے جائز کام نہیں کروا سکتے۔ بھارت میں صحت کے شعبے میں بدعنوانی کی شرح 59فی صد اور تعلیم کے شعبے میں58 فی صد ہے جب کہ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بل ترتیب 11اور 9فی صد کرپشن کی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔