کتاب میلے کی آٹھویں سالگرہ

زاہدہ حنا  اتوار 30 اپريل 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دوسری منزل سے نیچے دیکھتی ہوں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں کا ایک ہجوم ہے۔ ماؤں کی گود میں نوزائیدہ بچے، باپ حیران بچوں کی انگلیاں تھامے کتابوں کی اس نگری میں پھررہے ہیں جو تین دن کے لیے اسلام آباد میں آباد ہوئی ہے۔ برقی سیڑھیوں پر قہقہے مارتے بچے، گرتے پڑتے اوپر چڑھ رہے ہیں۔ یہ کتابوں کی دنیا کو دیکھیں گے اور فرمائشیں کریں گے۔

الہ دین اور سند باد کی کہانیوں، رنگین پنسلوں اور رنگ بھرنے والی کاپیاں خریدنے کی خواہش۔ یہ کتاب نگری 7 برس سے آباد ہورہی ہے۔ یہ اس کا آٹھواں برس ہے۔ اس شہر نگر کو آباد کرنے والے انعام الحق جاوید کتابوں کی اشاعت اور ان کے دور دور تک پھیلاؤ کے حوالے سے حاتم طائی ثابت ہوئے ہیں۔ کم قیمت اور خوبصورت کتابیں ہیں جو ان کا ادارہ چھاپ رہا ہے اور لوگ انھیں داد دیتے ہیں۔ داد دینے والوں میں ادیبوں، شاعروں، فنکاروں کے ساتھ ساتھ عوام کے پرے ہیں۔

یہ عوام ہی تو ہیں جو تین دن کے اندر نیشنل بک فاؤنڈیشن اور پاکستان کے دوسرے اشاعتی اداروں کی ہزاروں کتابیں خریدتے ہیں اور فروخت کا میزانیہ لاکھوں، کروڑوں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں نادر و نایاب کتابوں کا ایک اسٹال ہے جس میں سیکڑوں کتابیں اپنی چھب دکھا رہی ہیں۔ شاہنامئہ فردوسی کے ساتھ ہی فارسی، اردو اور انگریزی کی سو دو سو برس پہلے چھپنے والی کتابیں جن سے دانش اور دانائی کی خوشبو آتی ہے۔برابر میں انجمن ترقی اردو کا اسٹال ہے جس پر لوگ ہر وقت ہجوم کیے رہتے ہیں۔ کتابیں اپنے موضوعات اور تنوع کے باوجود مہنگی نہیں، لوگ انھیں صرف حسرت سے دیکھتے ہی نہیں، خرید بھی سکتے ہیں۔

ذوالقرنین جمیل المعروف بہ راجو اور ڈاکٹر فاطمہ حسن سے ملاقات اس اسٹال پر ہوسکتی ہے۔ شاہ بانو علوی بھی پھرتے پھراتے تھک جاتی ہیں تو انجمن کے اسٹال پر سانس لیتی ہیں۔ ان کے ادارے سے اردو کی چند منتخب کتابیں شائع ہوئی ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ انگریزی کی کتابیں چھاپتی ہیں۔ میری کہانیوں کے انگریزی تراجم کا مجموعہ  The House of Lonliness انھوں نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے اجراکی خاطر انگریزی کے معروف افسانہ نگار، نقاد اور اسکالر عامر حسین بہ طور خاص لندن سے آئے ہیں۔

کراچی، اسلام آباد اور لاہور ہر جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ نئی نسل کو کتابوں سے دلچسپی نہیں رہی ہے تو پھر ہمارے ادب کا کیا ہوگا؟ یہ سوال مجھے حیران کرتا ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کا یہ سالانہ کتاب میلہ، کراچی میں ہونے والی ادبی محفلیں اور کتاب میلے، لاہور میں Readings اور دوسرے کتاب گھروں پر کتاب خریدنے والی نئی نسل کا ہجوم اس بات کی زندہ گواہی ہے کہ ہمارے یہاں کتابیں شائع ہورہی ہیں، رسائل و جرائد چھپ رہے ہیں اور ہر شہر کی نئی نسل ان کتابوں کو خرید رہی ہے، پڑھ رہی ہے، سوال اٹھا رہی ہے، ادبی اور علمی موضوعات پر بحث کررہی ہے۔

ایک ایسی صورت حال میں کتابوں اور ان کے پڑھنے والوں سے مایوسی ہماری ذہنی درماندگی کا ثبوت ہو سکتی ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ لکھنے والے صرف شعر اور افسانہ ہی نہیں لکھ رہے، اہم اور سنجیدہ موضوعات پر بھی تحریریں سامنے آرہی ہیں۔ ڈاکٹر ناہید قمر اس سے پہلے ’وقت‘ اور ’ادب‘ کے حوالے سے ایک اہم کتاب لکھ چکی ہیں، اس مرتبہ ان کی کتاب ’اردو ادب میں تاریخیت‘ سے روشناسی ہوئی۔

اس نوع کی کتابیں اس بات کی بھی تکذیب کرتی ہیں کہ ہمارے شاعر اور ادیب علم و دانش کے میدان میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے رہے۔ ناصر عباس نیر، حمید شاہد، مبین مرزا، عثمان عالم، منزہ احتشام، فریدہ حفیظ، نیلوفر اقبال، منیرہ شمیم اور دوسروں کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں۔ ڈاکٹر عطش درانی نصابی کتب کی تصنیف اور تیاری پر خونِ جگر صرف کررہے ہیں۔

ڈاکٹر عطش کی خدمات آج سے نہیں سالہا سال سے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی رہی ہیں۔ میلے میں اس مرتبہ ابن خلدون کی کتابوں پر ایک اہم سیشن رہا۔ ’مقدمہ، ابن خلدون‘ مشرق کی ایک ایسی کتاب ہے جس کی گونج آج تک مغربی دانش گاہوں میں سنی جاتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی زبانوں کے ادب اور ان کے حال و مستقبل پر کھل کر گفتگو ہوئی جس میں ڈاکٹر صغریٰ صدف، ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، محمد ایوب بلوچ اور ڈاکٹر نذیر تبسم نے اپنا حصہ ڈالا۔ شاہ لطیف بھٹائی کے تراجم کا انتخاب ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کیا۔

رحمان بابا، مست توکلی، کلامِ سلطان باہو، میاں محمد بخش کی سیف الملوک، کلام بابا فرید کے انتخاب اور دوسرے تراجم سامنے آئے۔ پاکستانی زبانیں زرخیز ہیں، ان کے شاعروں اور ادیبوں کی تحریریں یوں تو سال بھر نظر سے گزرتی ہیں لیکن کتابوں کے میلے میں اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی زبانیں کس طرح پروان چڑھ رہی ہیں۔

نسائیت اب کچھ عرصے سے کتاب میلوں اور اہم ادبی کانفرنسوں میں بار پانے لگی ہے۔ کتابوں کے اس آٹھویں میلے میں ’اردو تنقید میں نسائی شعور اور اس کی تدریس‘ کے موضوع پر بھرپور گفتگو ہوئی۔ اس مذاکرے کی رابطہ کار ڈاکٹر فاطمہ حسن تھیں جنھوں نے اس موضوع پر کئی کتابیں مرتب کی ہیں۔ کشور ناہید اس میدان میں عرصۂ دراز سے بات کرتی نظر آتی ہیں۔

ڈاکٹر نجیبہ عارف اس گفتگو میں شامل نہ ہوسکیں جس کا قلق رہا۔ ان کی والدہ بہت بیمار ہیں، ایسے میں ان کا شریک نہ ہونا قابلِ فہم ہے۔ ڈاکٹر یوسف خشک جو شاہ لطیف یونیورسٹی، خیرپور میں سوشل سائنسز کے ڈین کے عہدے پر فائز ہیں، ان کی گفتگو سے دانائی اور دانش مندی کی خوشبو آتی تھی۔ ان کے علاوہ کئی دوسرے شرکا نے بھی اس موضوع پر کھل کر حصہ لیا۔

کتاب میلے کی یہ روایت ہے کہ اس کا آغاز صدر مملکت یا وزیراعظم کرتے ہیں اور اختتام بھی کسی وزیرِ سرد بیر کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ صدر مملکت نے پہلے دن نیشنل بک فاؤنڈیشن کے پرچم کی نقاب کشائی اسکولوں کے بچوں کی دل موہ لینے والی آوازوں کے سائے میں کی۔ ’کتابوں کی دنیا سلامت رہے‘ ایک ایسا پُر اثر نغمہ ہے جسے سنیے تو آنکھ بھر آتی ہے۔ کئی برس پہلے یہ نغمہ مظہر الاسلام نے لکھا تھا اور اسے سنوارنے کا کام کسی اور شاعر نے کیا تھا۔ دل گداز کردینے والا یہ نغمہ ایک بار سن لیا جائے تو بھلا یا نہیں جاسکتا۔

اس مرتبہ کی اختتامی تقریب میں وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے علاوہ ڈاکٹر احسن اقبال مہمان خصوصی تھے۔ وہ ایک دانشور ہیں اور انھیں مستقبل بینی پر خاص مہارت ہے۔ وہ اس بات کا شکوہ کررہے تھے کہ ہمارے یہاں بہت کم لوگوں کو اس بات سے دلچسپی رہی کہ وہ پاکستان کو جمہوری ڈگر پر چلنے دیں۔ ابتدا سے ہی غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر قبضے کی خاطر جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔

اب عرصۂ دراز بعد ایک جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور دوسری منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے لیے سرگرداں ہے لیکن ایسے عناصر کے ایک گروہ کو معلوم ہے کہ جمہوریت کا استحکام دراصل ان کا زوال ہے، اسی لیے یہ گروہ دشنام اور اتہام کے پہاڑ کھڑے کرتا رہتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان، جاپان اور بعض دوسرے ملکوں کی مثال دی جہاں جمہوریت کی گاڑی پٹری پر چلتی رہی جس کے نتیجے میں ان ملکوں کا شمار آج دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد، گروہ یا سیاسی جماعت کا نام لیے بغیر انھوں نے ان رکاوٹوں کا ذکر کیا جن کی وجہ سے پاکستان بہترین افرادی قوت اور وسائل کے باوجود قوموں کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ انھوں نے سی پیک کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو ملک ایک بہت بڑی چھلانگ لگائے گا۔

آٹھواں کتاب میلہ اپنے نکتۂ عروج پر تھا، اختتامی تقریب واقعی اختتام کو پہنچ رہی تھی جب ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ فرزانہ ناز اسٹیج پر چڑھی۔ وہ اپنا شعری مجموعہ عرفان صدیقی صاحب کو پیش کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے لٗئے کوچ کا نقارہ بج چکا تھا۔ وہ پیچھے ہٹی اور دس یا بارہ فٹ کی بلندی سے نیچے جاگری۔

ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک کرسی پر ایک بیہوش لڑکی کو سنبھالے باہر کی طرف دوڑ رہے ہیں اور ایمبولینس بلانے کیے آواز دے رہے ہیں۔ وہ الشفا لے جائی گئی۔ چند گھنٹوں زندہ رہی اور پھر راہئی ملک عدم ہوئی۔ وہ شعر کہتی تھی اور آخر وقت تک اس کا رشتہ شاعری سے نہ ٹوٹا۔ ہاتھ میں اپنا مجموعہ لٗئے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئی۔ وہ ننھے بچوں کی ماں تھی، انھیں بھلا کیسے قرار آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔