یار کو مہماں کیے ہوئے

عبدالقادر حسن  اتوار 30 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ابھی بھارتی جاسوس کلبھوشن کا معاملہ جاری تھا کہ ایک نئی پیش رفت ہو گئی اور اس دفعہ تو گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھاتے ہوئے طالبان کے پیچھے چھپے ہوئے چہرے سے پردہ اٹھا دیا۔ طالبان کے ترجمان احسان اﷲاحسان نے ان طاقتوں کو بے نقاب کیا ہے جو کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے پیچھے ہیں اور اس کے اعترافی بیان کے بعد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے پیچھے بیرونی ایجنڈا ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ انھوں نے اپنے اعترافی بیان میں پاکستان میں متعدد دہشت گرد کاروائیوں میں بھارت اور افغانستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا ہے۔

ان کے بیان کی سب سے خطرناک بات طالبان کی جانب سے افغانستان اور اسرائیل کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں معاونت ہے جو کہ پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ہم جو کہ کئی دہائیوں سے اپنے افغان بھائیوں کو پناہ فراہم کیے ہوئے ہیں لیکن اب ان کی حکومت کی جانب سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ہم نے تو ہمیشہ افغانستان کا دفاع ہی کیا ہے اور مالی، اخلاقی اور فوجی امداد تک فراہم کی ہے تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو ان طاقتوں کے آلہ کار بن رہے ہیں جن کا ایجنڈا پاکستان میں انارکی پھیلانا ہے۔

بھارت کے معاملے میں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا لیکن اب اس نے اپنے وار افغانستان کے ذریعے کرنے شروع کر دیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھی ہمارے افغان بھائیوں کو ہی استعمال کر رہا ہے جو کہ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔

بھارت نے افغانستان کے مختلف شہروں میں سفارتکاری کے نام پر قائم کردہ دفاتر کا جو جال بچھایا تھا اور ان کے بارے میں جن خدشات کا اس وقت اظہار کیا گیا تھا وہ اب سامنے آ رہے ہیں اور بھارت کی یہی سفارت کارانہ مکاری کھل کر سامنے آ گئی ہے اور ہم ابھی بھی دنیا میں انتہائی اہم ملک سمجھنے جانے کے باوجود بغیر کسی وزیر خارجہ کے اپنی سفارتکاری کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ہم نے جس مشیر کا تقرر کیا ہوا ہے وہ نواز شریف کی پچھلی حکومت میں وزیر خزانہ کا منصب رکھتے تھے اور اس دفعہ ان کو خارجہ معاملات کی بھاری ذمے داری بطور مشیر سونپ دی گئی۔

دو تہائی سے زیادہ اکثریت رکھنی والی نواز حکومت کے پاس قابل افراد کی اس قدر قلت ہے کہ ان کو مختلف محکموں کے لیے مکمل وزراء بھی دستیاب نہیں ہیں اور ایک وزیر کئی کئی محکموں کی وزارت سنبھالے ہوئے ہے جس سے ان محکموں کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور وہ مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں ہو پا رہے جن کا دعویٰ پچھلی الیکشن مہم میں نواز لیگ کی جانب سے کیا گیا تھا۔

حکومت بنانے کے بعد پہلے سو دنوں میں کارکردگی سامنے لانے کے جو دعوے کیے گئے ان کی قلعی تو پہلے ہی کھل گئی تھی اب یہ حقیقت بھی آشکار ہو چکی ہے کہ نواز لیگ کے پاس اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت ہونے کے باوجود ان میں ایسا کوئی جوہر قابل موجود نہیں ہے جس کو وزارت کی ذمے داریاں دی جا سکیں یا تو حکمران ان پر اعتبار نہیں کرتے اور دوسری وجہ اپنی شاہی مزاج کی حکمرانی میں کسی کو حصہ نہیں دینا چاہتے۔ ان کے اسی طرز حکمرانی کی وجہ سے بیرونی جارحیت کا شکار پاکستان دنیا بھر میں اپنا کیس کمزرو کر رہا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں کو پاکستان کی وہ صورت پیش نہیں کی جا رہی جو کہ اصل صورت ہے۔

برابری کی سطح پر بھارت کے ساتھ تعلقات کا پاکستان ہمیشہ خواہاں رہا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بھارت کو یہ باور کرا دیا جائے کہ ہم اس سے کسی بھی لحاظ سے کم نہیں اور اپنے دفاعی معاملات میں اس کے برابر ہیں او وہ کسی بھول میں نہ رہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی خواہشات کچھ اور ہیں وہ بھارتی دوستوں سے اپنی ذاتی دوستیاں نبھانے کی خاطر کسی بھی حد تک جا رہے ہیں اس وقت جو آگ کشمیر میں لگی ہوئی ہے اور بھارتی جاسوس کلبھوشن اور اب طالبان کے ترجمان کی جانب سے جو انکشافات سامنے آئے ہیں اس کے بعد بھی ہمارے وزیر اعظم ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مری میں اپنے بھارتی دوستوں کے ساتھ خوشگوار لمحات کا مزہ لے سکتے ہیں اور اس کو معمول کی ذاتی ملاقات قرار دینے پر بضد ہیں تو پھر ہمیں آج کل کے حالات میں ان کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہیے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق مری کا ویزہ نہ ہونے کے باوجود سجن جندال کی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وزیر اعظم سے پرُ فضا مقام کے مسحور کن ماحول میں کس موضوع پر گفتگو ہوئی اس ملاقات کے بارے میں ہماری وزارت خارجہ تو سرے سے ہی انکاری ہو گئی جب کہ وزیر اعظم کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز نے اس کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ اسے ذاتی ملاقات قرار دیتے ہوئے اس کے بارے میں قیاس آرائیوں سے پرہیز کا مشورہ بھی دیا۔

یہ وہی سجن جندال ہیں جن کے ذریعے نواز شریف کو نریندر مودی کی حلف برداری کے موقع پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور وہاں پر نواز شریف جندال کے گھر چائے کے لیے بھی گئے تھے لیکن کشمیری حریت رہنماء پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ بات وہیں پر آ کر رکتی ہے کہ اگر کوئی مکمل وزیر وزارت خارجہ چلا رہا ہوتا تو اس چند گھنٹے کی ملاقات کے بارے میں کوئی مثبت بات بھی سامنے آ جاتی اور اس کو چوبیس گھنٹوں تک چھپانے کی ضرورت نہ پڑتی۔

ملکی سربراہ عوامی پراپرٹی بن جاتے ہیں اور ان کی ذات سے منسلک باتیں یا دوسری چیزیں عوام پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کی جانب سے کیے جانے معاملات ذاتی کے بجائے ملکی تصور کیے جاتے ہیں اس وقت ان نازک حالات میں اس قسم کی ذاتی ملاقاتوں سے پرہیز ہی بہتر ہے اور اگر یہ ملاقات کسی بیک ڈور ڈپلومیسی کا حصہ تھی تو قوم کو اس بارے میں آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے کہ کن معامات پر بھارت سے بات چیت چل رہی اور اس میں ذاتی دوست کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حکومتی کل پرُرزوں کو اگر اپنی سیاسی لڑائیوں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت ہو تو وزراء کا ایک بریگیڈ بھارتی معاملات کے متعلق بھی تشکیل دیا جانا چاہیے تا کہ پاکستان کے اندر بھارتی کاروائیوں کو دنیا بھر کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے لیکن یہ کون کرے گا ہمارے کھلنڈرے وزراء وزیر اعظم کے ذاتی پانامہ کیس کے دفاع سے فارغ ہوں گے تو وہ ملکی حالات کے بارے میں بھی قوم کو آگاہ کریں گے اور وزیر اعظم تو خیر ابھی خوئے میزبانی ہی نبھا رہے ہیں۔

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔