اوورکوٹ

جاوید چوہدری  اتوار 30 اپريل 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

’’یہ سبق مجھے میرے والد نے دیا تھا‘ میں دن رات ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صدق دل سے ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں‘‘۔

وہ رکا‘ رومال سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور بولا ’’میرے والد کو سردی کا مرض لاحق تھا‘ وہ گھر میں بھی اوور کوٹ پہن کر پھرتے تھے‘ میرے والد جون جولائی میں بھی دھوپ میں بیٹھتے تھے‘ ان کی جلد جل کر سیاہ ہو جاتی تھی لیکن ان کی سردی کم نہیں ہوتی تھی‘ وہ گرمیوں میں بھی لحاف لے کر سوتے تھے‘ پاؤں میں ڈبل جرابیں پہنتے تھے اور صبح شام ہیٹر کے قریب بیٹھتے تھے‘ سردیاں ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھیں‘ وہ اکتوبر میں کپکپانا شروع کر دیتے تھے۔

ہم انھیں اکتوبر سے مارچ تک دبئی شفٹ کر دیتے تھے‘ وہ چھ ماہ دبئی میں رہتے تھے اور چھ ماہ لاہور میں‘ اللہ تعالیٰ نے اس خوفناک بیماری کے باوجود ان پر بڑا کرم کیا تھا‘ وہ ارب پتی تھے‘ وہ حقیقتاً مٹی کو ہاتھ لگاتے تھے تو وہ سونا بن جاتی تھی‘ وہ دنیا کے مشہور ترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے لیکن اس خوفناک مرض نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا‘ وہ آخری عمر میں سنکی ہو گئے تھے‘ وہ روز مجھے اپنے پاس بٹھاتے۔

میری ٹھوڑی پکڑتے اور نمناک آواز میں کہتے تھے عبدالمالک مجھے موت سے بہت ڈر لگتا ہے‘ میں جب سوچتا ہوں‘ میں زمین سے چھ فٹ نیچے پڑا ہوں گا‘ اندر اندھیرا اور سردی ہو گی اور میرے بدن پر صرف دو چادریں ہوں گی تو میری روح تک کانپ جاتی ہے‘ عبدالمالک کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟ میں ہر روز جواب دیتا‘ ابا جی آپ حکم کریں‘ میں جی لڑا دوں گا‘ میرے والد بڑی لجاجت سے فرماتے‘ بیٹا تم کسی سے فتویٰ لے کر مجھے گرم کپڑوں میں دفن کر دینا‘ یہ ممکن نہ ہوا تو تم کم از کم میری قبر کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست ضرور کر دینا‘ میں فوراً حامی بھر لیتا تھا۔

میرا خیال تھا میں کسی نہ کسی عالم سے فتویٰ لے کر اباجی کو اوورکوٹ میں دفن کر دوں گا‘ میں ان کی قبر بھی گرم اینٹوں سے بنوا دوں گا‘ ہم لوگ امیر تھے‘ میں اکثر سوچتا تھا اگر کوئی عالم تیار نہ ہوا تو میں فتویٰ خرید لوں گا‘ مجھے جتنی بھی رقم خرچ کرنا پڑی کر دوں گا لیکن میں اپنے والد کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا‘‘ وہ رکا‘ ٹھنڈی آہ بھری اور بولا ’’لیکن میں فیل ہو گیا‘ میرے والد 2000ء میں فوت ہو گئے‘ ہم نے انھیں گرم پانی سے غسل دیا‘ انھیں اوورکوٹ پہنایا اور اس اوورکوٹ پر کفن لپیٹ دیا۔

مولوی صاحب نے جب اوورٹ کوٹ دیکھا تو جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا‘ میں نے انھیں ہر قسم کا لالچ دیا‘ میں نے ان کی منت بھی کی لیکن وہ نہ مانے‘ میں نے تنگ آ کر انھیں دھمکی دے دی‘ وہ جنازہ چھوڑ کر چلے گئے‘ ہم نے اس کے بعد بے شمار مولویوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی نہ مانا یہاں تک کہ میں نے خود جنازہ پڑھانے کا فیصلہ کر لیا‘ میں جب والد کی میت کے پیچھے کھڑا ہوا تو لوگوں نے جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا‘ میں نے ان کی بھی منتیں کیں لیکن وہ بھی نہ مانے‘ والد کی قبر کا ایشو بھی بن گیا۔

میں قبر میں ’’انسولیشن‘‘ کرنا چاہتا تھا لیکن لوگوں نے اعتراض شروع کر دیا‘ پورے شہر کا کہنا تھا قبر ہمیشہ اندر سے کچی ہوتی ہے‘ فرعونوں کے علاوہ آج تک کسی شخص کی قبر اندر سے پکی نہیں ہوئی‘ یہ بدعت ہے اور ہم اس بدعت کا حصہ نہیں بنیں گے‘ میں مصیبت میں پھنس گیا یہاں تک کہ میرے پاس لوگوں کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہ بچا‘ مجھے والد کا اوورکوٹ بھی اتارنا پڑا اور قبر بھی توڑنی پڑی‘ میں نے بڑے دکھی دل کے ساتھ اپنے والد کو دفن کیا اور قبر پر دیر تک روتا رہا‘ میں جب بھی سوچتا تھا میں اپنے والد کی معمولی سی خواہش پوری نہیں کر سکا تو میری ہچکی بندھ جاتی تھی‘ میں اس کے بعد جب بھی والد کی قبر پر جاتا تھا۔

میں شرمندگی سے سر جھکاتا تھا اور ان سے معافی مانگتا تھا‘ یہ سلسلہ مہینہ بھر جاری رہا‘ میں ایک رات گہری نیند سویا ہوا تھا‘ میرے والد میرے خواب میں آ گئے‘ وہ سفید کفن میں ملبوس تھے‘ انھیں شدید سردی لگ رہی تھی‘ وہ کپکپا رہے تھے اور مجھے بلا رہے تھے‘ عبدالمالک‘ عبدالمالک‘ اٹھو اور میری بات سنو‘میں نے خواب میں ان کی طرف دیکھا‘ وہ بولے‘ میرے بیٹے میں تمہیں زندگی کی وہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں جو مجھے مرنے کے بعد معلوم ہوئی۔

میں نے عرض کیا‘ اباجی میں غور سے سن رہا ہوں‘ آپ فرمائیے‘ وہ بولے‘ بیٹا میں ارب پتی تھا‘ میں چیک پر خود دستخط نہیں کرتا تھا‘ میرے منیجر کرتے تھے‘ میں زمین جائیداد کا مالک بھی تھا اور میں تم جیسے سعادت مند بیٹوں کا باپ بھی تھا لیکن تم اور میری ساری دولت مل کر بھی میری ایک خواہش پوری نہ کر سکے‘ میں گرم کپڑوں اور گرم قبر میں دفن نہ ہو سکا۔

میں نے اس سے اندازہ لگایا انسان کی ساری دولت اور ساری آل اولاد مل کر بھی موت کے بعد اس کی مدد نہیں کر سکتی‘ یہ قبر میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی‘ یہ سب اگرمجھے قبر سے پہلے ایک اوور کوٹ نہیں پہنا سکے تھے تو یہ اس سے آگے کے سفر میں میرا کیا ساتھ دے سکتے تھے چنانچہ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں دولت وہ ہے جو مرنے کے بعد بھی آپ کا ساتھ دے اور اولاد وہ ہے جو زندگی کے بعد بھی اولاد رہے۔

میں نے عرض کیا‘ اباجی آپ کی بات یقینا ٹھیک ہو گی لیکن میں یہ سمجھ نہیں سکا‘ وہ مسکرائے اور فرمایا دولت اور اولاد کو صالح بناؤ‘ یہ مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آتی رہے گی ورنہ دوسری صورت میں یہ تمہارے امتحان میں اضافہ کرتی رہے گی‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے‘ بیٹا میں نے پوری زندگی دولت کمائی‘ میں اس کا 99 فیصد حصہ دنیا میں چھوڑ گیا۔

یہ 99 فیصد حصہ میرے بعد نااہل ثابت ہوا جب کہ میں نے اس کے ایک فیصد سے یتیم اور غریب بچوں کے لیے اسکول بنایا تھا‘ دولت کا وہ ایک فیصدحصہ میرے لیے صالح ثابت ہوا‘ وہ آج بھی میرے کام آ رہا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سمیت چھ بچے دیے تھے‘ میں نے ان تمام بچوں کو پریکٹیکل بنا دیا‘ یہ بچے دنیا دار ہیں‘ یہ زندگی میں مجھ سے زیادہ کامیاب ہیں۔

یہ دھڑا دھڑ پیسہ کما رہے ہیں لیکن مجھے آج ان میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہاں البتہ میں نے اپنے خاندان کی ایک یتیم بچی کو تعلیم دلائی تھی‘ وہ بچی ڈاکٹر بن گئی‘ وہ ڈاکٹر ہفتے میں دو دن غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے‘ مجھے ان دو دنوں کا بہت فائدہ ہو رہا ہے‘ وہ بچی اور اس کے دو دن میرے لیے صالح ثابت ہو رہے ہیں چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی دولت کا ایک فیصد اپنے اوپر خرچ کرو اور 99 فیصد کو صالح بنا دو تم مرنے کے بعد بھی خوش حال رہو گے اور تم اپنی اولاد کو کاروبار کے ساتھ ساتھ ویلفیئر پر لگا دو۔

یہ صالح ہو جائے گی اور یہ صالح اولاد تمہیں صدیوں تک نفع پہنچاتی رہے گی‘ میرے والد اٹھے‘ میرا ماتھا چوما اور چلے گئے‘ میرا خواب ٹوٹ گیا‘ میں جاگ کر بیٹھ گیا‘‘ وہ رکا‘ لمبا سانس لیا‘ ماتھے کا پسینہ خشک کیا اور ہنس کر بولا ’’بس میرے والد نے مجھے زندگی کی ڈائریکشن دے دی‘ میں نے اولاد اور دولت کو صالح بنانا شروع کر دیا‘ میں نے اپنی دولت جمع کی‘ دس فیصد حصہ الگ کیا‘ یہ دس فیصد پراپرٹی میں لگایا‘ ایسے اثاثے بنائے جن کے کرایوں سے ہم اچھی اور پرآسائش زندگی گزار سکتے ہیں اور باقی دولت میں نے اللہ کے نام وقف کر دی۔

میں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں کنوئیں کھدوائے اور اسکول اور ڈسپنسریاں بنانا شروع کر دیں‘ میں نے دولت کا ایک حصہ یتیم بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور موذی امراض کے شکار لوگوں کی بہبود کے لیے بھی وقف کر دیا یوں میری دولت صالح ہوتی چلی گئی‘ میں اب اپنے بچوں کو بھی ویلفیئر کے کام پر لگا کر صالح بناتا جا رہا ہوں‘ مجھے یقین ہے یہ بھی ایک نہ ایک دن میری قبر کے لیے ٹھنڈک بن جائیں گے۔

وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے عرض کیا ’’آپ بچوں کو کیسے صالح بنا رہے ہیں‘‘ وہ مسکرایا اور بولا ’’میں بچوں کو ٹریننگ دے رہا ہوں‘ ہماری کامیابی ہمارا اثاثہ ہوتی ہے‘ ہم جب تک اس اثاثے کا ایک بڑا حصہ صدقہ نہیں کرتے ہم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے‘ آپ انجینئر ہیں تو آپ اپنی انجینئرنگ کا ایک حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے وقف کریں اور دوسرا حصہ صدقہ کر دیں‘ لوگوں کو اپنے علم اور اپنے فن کے فوائد میں شامل کر لیں آپ صالح ہو جائیں گے۔

آپ اسی طرح اگر ڈاکٹر ہیں تو آپ لوگوں کا مفت علاج کریں‘ یہ مفت علاج آپ کی طرف سے صدقہ ہو گا اور یہ صدقہ آپ کو صالح بنا دے گا اور آپ اگر تاجر ہیں تو آپ اپنی تجارت کو منافع خوری‘ ملاوٹ اور بددیانتی سے پاک کرتے جائیں آپ صالح تاجر ہو جائیں گے اور اس کا آپ اور آپ کے والدین کو فائدہ ہو گا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’آپ کو اب تک اس پریکٹس کا کیا فائدہ ہوا‘‘ وہ مسکرایا اور بولا ’’میں زندگی اور میرے والد موت کے بعد مطمئن ہیں‘ وہ اکثر اوور کوٹ پہن کر میرے خواب میں آتے ہیں‘ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور اونچی آواز میں کہتے ہیں ’’شاباش عبدالمالک‘‘ اور میں نہال ہو جاتا ہوں‘ میں خوش ہو جاتا ہوں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔