میں لوٹ کے آ گیا!!

شیریں حیدر  اتوار 30 اپريل 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ میں تمہارے لیے کیا کر سکتی ہوں بیٹا؟ ‘‘ میں نے بے بسی سے اس سے کہا جو فون پر مجھے کہہ رہا تھا کہ وہ واپس آ گیا ہے اور اب اسے اس ملک میں کوئی ملازمت کرنا ہے، لوٹ کر نہیں جانا، ’’تم واپس کیوں آ گئے… اب توکوئی لوٹ کر آنے کی وجہ بھی نہ رہی تھی تمہارے پاس، تم بتا رہے ہو کہ ماں باپ مٹی کی ڈھیریاں ہو گئے، آخری سانس تک تمہیں لوٹ آنے کا کہتے رہے اور ان کی نظریں تمہارے انتظار میں باہر کے دروازے تک جا جا کر لوٹتی تھیں!!‘‘

’’ مجبوریاں آنٹی!!‘‘ اس نے مختصرا کہا۔’’ اب وہ مجبوریاں کیا ہوئیں؟ کیا تم اس لیے باہر گئے تھے اور پھر لوٹ کر نہ آئے کہ ماں باپ دنیا سے چلے جائیں تو پھرلوٹ آؤں گا، وہ تمہاری شکل دیکھنے کو ترستے ہوئے چلے گئے اور اب تم بے سوچے سمجھے لوٹ آئے ہو!‘‘

’’بے سوچے سمجھے نہیں… ڈر کر لوٹ آیا ہوں !!‘‘ اس نے سسکی لے کر کہا۔’’ کس بات سے ڈر کر؟ مکافات عمل سے… یہ سوچ کر کہ تمہارے ماں باپ تمہیں دیکھنے کو ترس گئے تھے، تم پیسے کمانے کی دوڑ میں اتنا تیز بھاگتے رہے کہ رک کر بھی نہ دیکھا۔ تم سمجھتے تھے کہ کمپیوٹر پر تمہاری شکل دیکھ کر یا فون پر تمہاری آواز سن کر وہ خوش ہو جاتے ہوں گے… ان کی دوا دارو تو ان کے اپنے پنشن کے پیسوں سے ہی آجاتی تھی، ایک کھانا ہی تو کھاتے تھے وہ تمہاری کمائی سے اور اس میں بھی وہ کچھ نہ کچھ شیئر کرتے تھے…‘‘ ’’ جانتا ہوں … سب کچھ جانتا ہوں … بس ملک چھوڑ کر آنے والوں کے لیے بیرون ملک ایسے ایسے پھندے ہیں کہ انسان ان میں الجھتا ہی جاتا ہے، کمائی کرنے کو انسان انسان نہیں رہتا، ڈھور ڈنگر بن جاتا ہے، گدھے کی طرح کام کرتا ہے اور پھر جو کمائی کرتے ہیں اس پر ہمیں لازمی ٹیکس دینا پڑتا ہے، صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جہاں جو زیادہ کماتا ہے وہ اتنا ہی کم ٹیکس دیتا ہے۔

کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ کیسے خوش قسمت لوگ ہیں جو ٹیکس چوری کرتے ہیں، جو کچھ کماتے ہیں وہ سب ان کا ہوتا ہے!!‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔’’ تو کیا تم اس لیے لوٹ آئے ہو کہ یہاں تم جو کچھ کماؤ اس پر ٹیکس نہ دو… ٹیکس دینے سے ڈر گئے تم؟ ‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔

’’ جب کماؤں گا یہاں تو دیکھوں گا کہ کیا ٹیکس دینا پڑتا ہے… بس بال بچوں کی وجہ سے لوٹ آیا ہوں !!‘‘

’’ بال بچوں کو تو اب تم وہاں بلا سکتے تھے کہ اب تمہارے پیچھے کوئی ذمے داری بھی نہیں رہ گئی تھی جس کی خاطر تم نے اپنی بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ رکھا تھا!!‘‘

’’ بیوی بچوں کو وہاں بلانے میں بھی قباحتیں ہیں… میں نے دیکھا ہے کہ وہاں اپنے خاندان سمیت چلے جانے والے کبھی لوٹ کر اپنے ملک میں نہیں آ سکے۔ اس ملک میں جو مسائل ہیں، خاندانوں میں جو سیاستیں اور باتیں انھیں سننا پڑتی ہیں تو وہ خود کو باہر جا کر ان سب سے محفوظ سمجھتی ہیں، یہاں آتی ہیں تو کئی طرح کی باتیں سن کر وہ جھنجھلا جاتی ہیں اورکبھی واپس نہیں آنا چاہتیں، بچے بھی وہاں کے نظام میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ انھیں پاکستان کا موازنہ ان ملکوں سے کرتے ہیں تو کبھی لوٹ کر نہیں آنا چاہتے… میں نے اپنے بچوں کو تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے کئی بار وہاںبلایا مگر انھیں اپنے کام کرنا برا لگتا ہے، انھیں یہاں ملازموں سے کام کروانے کی اتنی عادت ہو چکی ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا انھیں عار لگتا ہے!!‘‘

’’لیکن اب ایسا کون سا کام ہے جو تم یہاں کر کے اتنا کما لو گے کہ اپنے بال بچوں کی ویسے ہی کفالت کر سکو؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔’’ اس سے کم کما لوں گا… بال بچوں کے لیے بہت کچھ بنا بھی لیا ہے اور بچا بھی لیا ہے، ان کے مستقبل کی ایسی کوئی فکر نہیں مجھے، اپنا گھر بنا لیا ہے، بچیوں کے نام پر بھی پلاٹ وغیرہ لے لیے ہیں، ان کی شادیوں کا وقت آئے گا تو ان کو بیچ کر ان کے فرض سے فارغ ہو جاؤں گا اسی طرح بیٹوں کی تعلیم کے لیے بھی کافی جمع کر لیا ہے… ‘‘

’’ جب تم نے اتنا کچھ بنا لیا ہے تو پھر کوئی کام کرنا کس لیے ضروری ہے؟ ‘‘

’’ خود کو مصروف رکھنا اور پھر بیٹھے بیٹھے تو قارون کے خزانے بھی خالی ہو جاتے ہیں… اس لیے کچھ نہ کچھ کرنا اہم ہے، فارغ بیٹھے بندے پر تو بڑھاپا بھی جلد طاری ہو جاتا ہے!!‘‘

’’ تو گویا تم بڑھاپے سے ڈر کر تم لوٹ آئے ہو، میں نے تو سنا ہے کہ باہر کے ملکوں میں اولڈ ہومز کا نظام اچھا ہے… اچھا نہیں کہ تمہیں بڑھاپا وہاں گزارنے کو مل جاتا؟‘‘

’’ میں بڑھاپے سے ڈر کر بھی نہیں لوٹا، وہ تو جہاں اور جیسا قسمت میں ہو گا اسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا!!‘‘… ’’ میں تو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تم کیوں لوٹ کر آئے ہو اور پھر کہہ بھی رہے ہو کہ ڈر کر آئے ہو!!‘‘…’’ آپ کو بتا رہا ہوں آنٹی… کسی کو بتا بھی نہیں سکتا… میں اپنی بیوی سے ڈر کر لوٹ آیا ہوں !!‘‘…’’کیا؟؟؟‘‘ میری آواز کافی بلند ہو گئی تھی، ’’ وہ تو تم نے بتایا ہے کہ انتہائی قناعت پسند اور فرمانبردار عورت ہے پیارے!!‘‘ …’’ اس میں کوئی شک نہیں آنٹی!!‘‘ اس نے فوراً کہا ، ’’ وہ قناعت پسند ہے، میری کمائی کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتی ہے، میرے گھر کے نظام کو بخوبی چلاتی ہے، صاف ستھرا رکھتی ہے… فرمانبردار ہے، اس نے میرے والدین کی استطاعت بھر خدمت بھی کی ہے اور کبھی انھیں پلٹ کر جواب نہیں دیا، اس کی ضرورتیں ہر لحاظ سے پوری کرتی رہی ہے، بچوں کی پرورش میں اس نے کوئی کمی کجی نہیں رکھی، ان کی تعلیم کا ہر طرح سے ہر لحاظ سے اچھی ہے مگر میں پھر بھی ڈر گیا … ‘‘

’’ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا بیٹا کہ تمہارے مطابق اگر اس میں ساری اچھائیاں ہیں جو کہ ایک اچھی بیوی میں ہونا چاہئیں تو پھر تم اس سے کیوں ڈر گئے؟ ‘‘ میری حیرت کو زبان ملی۔’’ بس آنٹی کسی کو بتا بھی نہیں سکتا کہ کیوں ڈر گیا ہوں !!‘‘

’’ حیرت ہے کہ تم اس سے کسی ایسی وجہ سے ڈر رہے ہو جو تم کسی کو بتا بھی نہیں سکتے… کیا تمہاری ساری جائیداد اس کے نام پر ہے؟ ‘‘ میں نے سوال داغا۔’’ اس کی مجھے کوئی فکر نہیں آنٹی، اگر جائیداد اس کے نام پر ہوتی تو مجھے کوئی پریشانی نہ ہوتی!!‘‘ اس نے جواب دیا، ’’ وہ اس طرح کی لالچی عورت نہیں ہے کہ میری جائیداد ہتھیا لیتی!!‘‘… ’’آپ نے تو میری حیرت کو آسمان تک پہنچا دیا ہے بیٹا!!‘‘ میں نے چڑے ہوئے لہجے میں کہا، ’’ ایسی کون سی بات ہے کہ جسے آپ بتا بھی نہیں سکتے اور وہ آپ کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے؟ ‘‘

’’ آنٹی… آپ کو بتا دیتا ہوں کہ شاید آپ سمجھ سکیں… ‘‘ وہ کہہ کر رکا، ’’ میں جب بھی واپس آنے کا کہتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ سوچ سمجھ کر واپسی کا ارادہ کرنا… اور آنا بھی تو ساری کشتیاں جلا کر نہ آنا، مگر آنٹی میں ساری کشتیاں جلا کر لوٹنا چاہتا ہوں ، اسی مٹی میں بسنا چاہتا ہوں جہاں سے میرا خمیر اٹھا تھا!!‘‘

’’ اس میں تو مجھے کوئی پریشانی والی بات نہیں لگتی… اگر وہ کہتی ہے کہ سوچ سمجھ کر آنا اور ساری کشتیاں جلا کر نہ آنا تو اسی نقطہ نظر سے کہتی ہو گی نا کہ ایسا نہ ہو یہاں واپس آ کر آپ کا دل نہ لگے، کوئی کاروبار نہ سیٹ ہو سکے!!‘‘

’’ نہیں آنٹی ایسا نہیں ہے… ‘‘ اس نے گہری سانس لی، ’’ اس نے میرے بغیر جینا اور خوش رہنا سیکھ لیا ہے، یہ بات مجھے بہت پریشان کرتی ہے، اسے میری ضرورت نہیں رہی ہے!!‘‘…’’ زوجین کو ایک دوسرے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے… آپ خواہ مخواہ کے وہم نہ پالو!!‘‘

’’ نہیں آنٹی، چند سال پہلے تک اسے میرے آنے کا انتظار ہوتا تھا، ایک ایک دن اور گھنٹہ تک گن گن کر بتایا کرتی تھی، میں چھٹی کاٹ کر واپس آنے لگتا تھا تو وہ رو رو کر آنکھیں لال کر لیتی تھی، میری روانگی کے وقت مجھ سے سوال کرتی تھی کہ میں آئندہ کب آؤں گا،مگر اب !‘‘

’’ اب کیا ہوا ہے؟ ‘‘…’’ اب میں اسے کال کر کے بتاؤں کہ میں فلاں وقت آنے کا پلان بنارہا ہوں تو وہ مجھے سو وجوہات بتاتی ہے کہ وہ وقت میرے لیے، میرے اپنے ہی گھر جانے کے لیے نا مناسب ہے- بچوں کے امتحانات ہیں، خاندان میں کوئی اور مصروفیت ہے یا اس کی کسی سہیلی کی بیٹی کی شادی ہے اور وہ خود مصروف ہے… میں اس کی بے نیازی سے، اس کی لاتعلقی سے اور اس کی زندگی میں اپنی ضرورت سے ماورا ہونے سے ڈر گیا ہوں !! لوٹ آنا چاہتا ہوں اس وقت سے پہلے کہ جب میں بالکل ہی عضو معطل ہو جاؤں … آپ سمجھ گئی ہیں نا میری بات آنٹی؟؟ ‘‘

’’ ہوں … ‘‘ میں نے کہا کیونکہ میں کچھ نہ سمجھی تھی… آپ سمجھے کچھ ؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔