خود پر یقین بڑھائیں، مگر کیسے؟

احمد آفتاب  اتوار 30 اپريل 2017
یقین جتنا زیادہ بڑھے گا، خوف اتنا ہی کم ہوگا۔ فوٹو:فائل

یقین جتنا زیادہ بڑھے گا، خوف اتنا ہی کم ہوگا۔ فوٹو:فائل

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ۔۔۔

٭ غیر معمولی اور ہنگامی حالات میں آپ کی جسمانی صلاحیت، ذہنی استعداد اور دباؤ برداشت کرنے کی خصوصیات میں اچانک اضافہ کیوں ہوجاتا ہے؟

٭ ہاتھ میں خنجر لیے کوئی جنونی آپ کا تعاقب کررہا ہو تو آپ کی رفتار یکایک اتنی تیز کیسے ہوجاتی ہے کہ آپ چشمِ زدن میں اس سے دور نکل جاتے ہیں؟

٭ کئی دشمنوں میں گھرا ہوا کوئی شخص، فرار کا کوئی راستہ نہ پاکر ، کئی افراد سے کیسے تنہا ہی بھڑ جاتا ہے اور ان کی گرفت سے نکل بھاگتا ہے؟

ممکن ہے زندگی میں کبھی آپ کو بھی اس غدود کی معجزاتی طاقت سے واسطہ پڑا ہو اور اس کے زیر اثر آپ نے جوش، غصے، اشتعال، غم یا خوف کے عالم میں ایسے کام کیے ہوں جن پر بعد میں آپ کو خود پر حیرت ہوئی ہو کہ ’’یہ چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی‘‘

ہنگامی حالات میں انسان کی اپنی استعداد سے زیادہ بڑھ کر کام کر گزرنے کی یہ صلاحیت دراصل ہمارے جسم میں موجود ایک ننھے سے غدود یا گلینڈ کی وجہ سے ہوتی ہے جسے اینڈرینالین غدود کہتے ہیں۔ یہ غدود کیا کام کرتا ہے، اس کی چند مثالیں ہم اوپر پیش کرچکے ہیں۔

ایڈرینالین کی حیرت انگیز قوت کا اندازہ مجھے پہلی بار تب ہوا تھا جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کینجھرجھیل، سندھ میں کشتی کی سیر کررہا تھا۔ کشتی میں میرے دوست کا چھوٹا سا مگر بے حد چلبلا بیٹا اور خاندان کے چند دیگر لوگ بھی موجود تھے۔ تقریباً دس برس کی عمر کا وہ بچہ، ڈولتی، ڈگمگاتی کشتی میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتا پھررہا تھا۔ کشتی دھیرے دھیرے گہرے پانیوں کی جانب رواں تھی۔ آسمان پر بادل تھے اور تیز فرحت بخش ہوا چل رہی تھی جس سے سب ہی لطف اندوز ہورہے تھے، سوائے میرے دوست کے جس کو گہرے پانی سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اس وقت بھی وہ مضبوطی سے بنچ کو پکڑ کر بیٹھا تھا اور اس کی حالت غیر تھی۔ ہمارے بہت اصرار پر وہ کشتی میں آتو بیٹھا تھا، مگر ہم جانتے تھے کہ وہ تو ساحلِ سمندر پر بھی چہل قدمی سے گھبراتا تھا، کہاں یہ کہ وہ اتنی بڑی جھیل کے وسط میں موجود ہو۔

اچانک ہمارے کانوں میں ایک چھپاکے کی آواز آئی اور ہر طرف شور مچ گیا۔ میرے دوست کا بیٹا توازن بگڑنے سے جھیل میں جاگرا تھا۔ اس نے دہشت زدہ ہوکر چیخیں ماریں اور پھر چند سیکنڈ میں ہی پانی میں غائب ہوگیا۔ وہ بچہ ڈوب رہا تھا اور میرا ذہن ماؤف ہوگیا۔ گہری جھیل کا درمیانی حصہ، لائف جیکٹ کی غیر موجودگی، پانی کا بہاؤ، میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دوسرا غیر متوقع واقعہ ہوا۔ بجلی کی سی تیزی سے میرا دوست اپنی جگہ سے اٹھا اور پانی میں کود گیا۔ پانی میں گرتے ہی اس نے بچے کو بالوں سے پکڑ کر اوپر کھینچ لیا اور کشتی کی طرف اچھال دیا۔ پھر وہ خود سطح پر رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا، کیوں کہ اسے تیرنا نہیں آتا تھا۔

اب کشتی کے ملاح بھی سنبھل گئے تھے۔ انہوں نے بچے کو کشتی میں واپس کھینچا اور پھر ایک ملاح نے پانی میں چھلانگ لگاکر میرے دوست کو بھی ڈوبنے سے بچالیا۔ محض ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں یہ واقعہ ختم ہوگیا۔ میرے دوست نے اپنے بچے کو ایک نظر دیکھا کہ وہ بالکل ٹھیک اور محفوظ ہے، اور پھر وہ بے ہوش ہوگیا۔ ملاحوں نے اس کے پیٹ کو دبا کر پانی نکالا اور اسے ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے آنکھیں کھول لیں، مگر یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سکتے کی حالت میں ہے۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے دھیرے سے مجھ سے پوچھا:’’یار! کیا میں خود پانی میں کودا تھا؟‘‘

اس ایک سوال نے مجھے انسانی ذہن کے ایک نہایت اہم راز سے روشناس کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ قدرت نے انسانی جسم اور ذہن کو ہر اعتبار سے مکمل بنایا ہے، اسی لیے روزمرہ کی چھوٹی موٹی تکالیف کے ساتھ ساتھ ہمیں اچانک اور غیر معمولی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔ عموماً ہم غیرارادی طور پر خودکار عمل کے تحت، بہت سے معمولات زندگی طے کرتے چلے جاتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ کتنی آسانی سے ہم نے ایک بڑی مصیبت کو ٹال دیا ہے۔ زندگی کی ایسی ہی بہ ظاہر غیر موجود سی کاوشوں کے لیے قدرت نے ہمیں توانائی کے مناسب وسائل فراہم کیے ہیں۔ تاہم اگر ہنگامی ضرورت ہو تو اس کے لیے بھی ایڈرینالین غدود کی صورت میں اضافی سپلائی کا انتظام کیا ہوا ہے۔

جسم میں توانائی کی اس کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے آس پاس لوگوں کی زندگیوں ہر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ اتنے پریشان ہوتے نہیں ہیں، جتنے نظر آتے ہیں۔ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی مایوسیاں، تلخیاں، دوسروں کے خراب رویے سے پیدا ہونے والا ردعمل اور نقصانات یا گھریلو اشیاء کی ٹوٹ پھوٹ، یہ سب پریشانیوں کے زمرے میں نہیں آتے، اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ان کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرلیتا ہے اور ان کا خود ہی خاتمہ کرلیتا ہے۔ ان تمام محنتوں اور مشقتوں کے لیے انسان میں توانائی کے ریگولر ذخیرے موجود ہیں، تاہم اگر کبھی ، ضرورت سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہو تو پھر ایڈرینالین کا ایمرجنسی کارخانہ چل پڑتا ہے اور وہ بوسٹر انرجی سپلائی کرتا ہے، جو خود ہمیں بھی حیران کردیتی ہے۔

اوپر بیان کردہ مثال سے آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی ذہن ۔۔۔ خوف کے جال میں مقید ہوتا ہے اور عام طور پر اس جال سے باہر آنے کی کوشش نہیں کرتا۔ مگر جوں ہی کوئی ایسی صورت حال درپیش ہوتی ہے جب خوف، زندگی کی بقا کی راہ میں رکاوٹ بننے لگتا ہے تو پھر قدرتی طور پر ایک چمک لہراتی ہے اور ہمارا ذہن خوف کے ان جالوں کو توڑ کر خود کو آزاد کرالیتا ہے، یعنی ذہن پر وہی کیفیت طاری ہوتی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

سوال یہ ہے کہ اگر ذہن پر چھائے خوف کے ان جالوں کو ، ہم غیرمعمولی حالات میں خود ہی توڑ ڈالتے ہیں، تو پھر عام حالات میں اس کیفیت کا مظاہرہ کیوں نہیں کرپاتے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی سوچ پر چھائی ہوئی فکرمندی، ڈر اور بزدلی کو ختم نہیں کرسکتے؟ جس کی وجہ سے ہم زندگی کے بہت سے فیصلے یا تو کرہی نہیں پاتے یا ان میں بہت زیادہ تاخیر کردیتے ہیں۔

نوجوانوں کو قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ذہن کا تجزیہ کریں اور خود ہی اپنے آپ کو اندیشوں اور اور وسوسوں سے چھٹکارا دلائیں۔ ہمیں اپنے آپ پر یقین رکھنا ہوگا کہ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں۔ شرط صرف ارادے کی ہے۔ اگر آپ خوف سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو پھر ان نکات کو یاد رکھیں۔

٭ ذہن پر دو ہی طاقتوں کی حکم رانی ہے۔ خوف اور یقین۔ ان میں سے خوف بہت طاقت ور ہے ۔ یہ آپ کے ذہن پر قبضہ جماکر اسے بیکار بنا سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یقین ہے جو اس سے زیادہ طاقت ور ہے اور یہ آپ کے اوپر خوف کا قبضہ ختم کرسکتا ہے۔

٭ خوف کو پہچاننے کے لیے، پہلے اپنے آپ کو پہچاننا ضروری ہے۔

٭ ضروری نہیں کہ آپ کو پتا ہو کہ آپ خوف زدہ ہوں۔ بہت سے خوف ہمارے اندر موجود ہوتے ہیں اور ہمیں زندگی بھر ان کی موجودگی کا علم نہیں ہوتا۔

٭ انتہائی مرحلے سے پہلے ہی مرض کی تشخیص کریں۔ خود شناسی کا علاج اپنائیں۔

٭ اپنے اندر یقین کی مقدار بڑھائیں۔ اسے پختہ تر کریں۔ آپ کا یقین جتنا زیادہ بڑھے گا، خوف اتنا ہی کم ہوگا۔

٭ اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ان صلاحیتوں کو آواز دیں جو صرف ہنگامی مواقع پر ہی سامنے آتی ہیں۔ اس سے آپ کو اپنی ذات کے وہ پہلو دیکھنے میں مدد ملے گی جو دنیا بھر کو حیرت زدہ کرسکتے ہیں۔

٭ہر وہ کام کریں جس سے آپ خوف زدہ ہیں۔ قدم مضبوط رکھیں اور ہمت جواں یاد رکھیں۔

وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔