چیف جسٹس آف پاکستان کی صائب باتیں

ایڈیٹوریل  پير 1 مئ 2017
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب میں ماڈل کورٹس اور مصالحتی مراکز کے قیام کے حوالے سے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم اپنے فرائض کی انجام دہی اور اس قوم کے لیے کام کرنے میں سنجیدہ ہیں، اگر جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کے لیے انقلابی کام نہ کرسکے تو یہ ہماری ناکامی ہوگی اور خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے۔

ججز کے پاس من مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے، ہمیں قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتے ہیں‘ انصاف کرنا آسان نہیں زندگی موت کے معاملے ہوتے ہیں‘ سزا و جزا کا تعین کرنا ہوتا ہے، جس شخص کا حق مارا جاتا ہے وہ عدالت میں تاریخ ملنے پر بہت مایوس ہوتا ہے‘ کسی بھی نئے نظام کو اپنانے میں وقت لگتا ہے اور ہمیں امید ہے پاکستان میں مصالحتی نظام سے عدلیہ میں بہت بہتر اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بالکل صائب کہا کہ ججز کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ جو مسئلہ درپیش  ہے وہ یہی ہے کہ عدالت میں داد خواہی کے لیے جانے والا شخص اپنی مرضی اور منشا کے فیصلے چاہتا ہے اور جب فیصلہ اس کی مرضی کے خلاف آئے تو وہ عدلیہ پر طومار باندھ دیتا ہے۔

ہمارے ہاں کسی بھی جرم کی تفتیش سے لے کر انصاف کی فراہمی تک کے نظام میں بہت سے اسقام موجود ہیں جس کے باعث جہاں ایک جانب مقدمے کے فیصلے میں تاخیر ہوتی ہے وہاں تفتیشی افسران کی جانب سے کمزور تفتیش کے سبب ملزم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ داد رسی کے نظام میں موجود اسقام جب تک دور نہیں کیے جائیں گے تب تک انصاف کی فراہمی بلاتاخیر اور بروقت ہو گی اور نہ مظلوم کو اس کا حق ملے گا۔

رشوت اور کرپشن بھی مظلوم کو اس کا حق دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے‘ بااثر اور صاحب ثروت افراد اپنی منشا کے مطابق تفتیشی رپورٹ بنوانے کے لیے تفتیشی افسران پر اثر انداز ہوتے ہیں ‘ کمزور اور ناقص تفتیش کے باعث عدالت کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں دشواری پیش آتی ہے جس کا فائدہ بااثر ملزمان کو پہنچتا ہے۔

عدالتوں میں انصاف کا حصول بھی طویل المدت اور مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے جس کے باعث جب کسی شخص کو انصاف ملتا ہے تب تک وہ اپنی زندگی اور جمع پونجی کے بڑے حصے سے محروم ہو چکا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے عدلیہ کے نظام میں جن مسائل کا ذکر کیا ہے وقت آ گیا ہے کہ انھیں دور کرنے اور معیاری انصاف کی فراہمی کو ناکامی سے بچانے  کے لیے انقلابی سطح پر کام کیا جائے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔