نیوز لیکس ایشو؛ مکمل انکوائری رپورٹ سامنے آنی چاہیے

ایڈیٹوریل  پير 1 مئ 2017
۔ فوٹو: فائل

۔ فوٹو: فائل

نیوز لیکس ایشو نے ایک بار پھر پاکستان کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے نیوز لیکس انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی جس کے تحت وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ سید طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جب کہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر راؤ تحسین کو تبدیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ پی آئی او کے خلاف ای اینڈ ڈی رولز1973 کے تحت کارروائی کی منظوری دی گئی ہے۔

خبر شایع کرنے والے اخبار کے ایڈیٹر اور رپورٹر کا معاملہ اے پی این ایس کو بھجوایا جائے گا اور اسے قومی سلامتی سے متعلق رپورٹس کے لیے ضابطہ اخلاق تیار کرنے کا کہا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی اور اہمیت کے معاملات پر رپورٹنگ صحافتی اقدارکے مطابق ہونی چاہیے۔اے پی این ایس سے پرنٹ میڈیا کے لیے خاص طور پر پاکستان کی سیکیورٹی سے متعلق معاملات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق تشکیل دینے اور قومی اہمیت و سلامتی سے متعلق خبروں کی اشاعت میں بنیادی صحافتی اور ادارتی اقدار پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

ادھر پاک فوج نے نیوز لیکس کی انکوائری رپورٹ پر وزیراعظم ہاؤس سے جاری کیے جانے والے نوٹس کو مسترد کر دیاہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ نیوز لیکس انکوائری رپورٹ پر حکومتی نوٹیفکیشن انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں‘ یہ نوٹیفکیشن نا مکمل ہے‘ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ ٹویٹ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے نیوز لیکس کی انکوائری رپورٹ پر جاری ہونے کے بعد سامنے آیا۔

نیوز لیکس کے ایشو نے اب ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔پاک فوج نے اس پر اپنے موقف کو واضح کر دیا ہے جب کہ حکومت گومگو کا شکار نظر آتی ہے‘اگر یہ موقف نہ آتا تو صورت حال کچھ اور ہوتی ‘بہرحال حکومت اس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو من و عن پبلک کر دیتی تو زیادہ بہتر ہوتا اور کسی کو شکایت بھی پیدا نہ ہوتی‘ بلا شبہ جس ایشو پر انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی وہ کوئی معمولی ایشو نہیںتھا بلکہ اس میں قومی سلامتی کے معاملات شامل ہیں جن کا براہ راست تعلق ریاست پاکستان سے ہے۔

سیدھی سی بات ہے کہ نیوز لیکس کی تحقیقات کے لیے جو انکوائری کمیٹی بنائی گئی ‘اس کے ذمے یہی کام تھا کہ وہ جائزہ لے کہ کیا خبر کی وجہ سے واقعی سیکیورٹی بریچ ہوئی ہے ۔دوسرا نقطہ یہ بھی ہے کہ اسٹوری کا مقصد و منشا کیا تھا۔اس میں کون کون سے افرادنے کردار ادا کیا اور ان کرداروں کا تعین کرنا اور پھر اگر سیکیورٹی بریچ ثابت ہوتی ہے تو ان کے لیے پنالٹی یا سزا کی سفارش کرنا ہے اور اگربریچ ثابت نہیں ہوتی تو اس حوالے سے بھی سفارشات دینا۔

یقیناً نیوز لیکس کا معاملہ انتہائی حساس تھا‘ 3اکتوبر2016ء کو وزیراعظم ہاؤس میں سیاسی و عسکری قیادت کا جو اجلاس ہوا وہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا اور اس میں انتہائی حساس معاملات پر گفتگو بھی ہوئی۔اس قسم کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کا افشا ہونا انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ جب ریاست کے معاملات پر بات چیت ہو رہی ہو تو اس کا افشا ملک و قوم کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ریاست کی سالمیت کے تحفظ کا حلف سرکاری ملازم بھی اٹھاتا ہے اور وزیراعظم سے لے کر ایک ایم این اے اور ایم پی اے تک یہ حلف اٹھاتے ہیں۔یہ معاملہ اتنا حساس تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے تین مرتبہ اس خبر کی تردید کی گئی۔دباؤ کی وجہ سے ہی اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو عہدے سے ہٹایا گیا۔

اس معاملے کا سیاق و سباق ایسا تھا کہ جس کی وجہ سے فوج کا ردعمل آنا قدرتی امر تھا۔اصولی طور پرحکومت کو اس ایشو پر بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی مکمل رپورٹ کو پبلک کرنا چاہیے اور اس رپورٹ میں جن جن لوگوں کے نام آئے ہیں انھیں منظرعام پر آنا چاہیے۔دو اداروں کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔ دنیا میں ہمارا مذاق بن رہا ہے اور طرح طرح کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔

حکومت کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے پاک فوج میں منفی تاثر پیدا ہو۔یہ انتہائی خطرناک ہو گا‘پاک فوج نے اگر وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کو ادھورا کہا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے۔ بلاشبہ پاک فوج نے انتہائی اہم اور حساس معاملات پر مثالی صبر و ضبط کا مظاہرہ کیاہے‘ نیوز لیکس کے ایشو میں پہلے جنرل راحیل شریف شامل رہے اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کے سربراہ ہیں۔ لہٰذا حکومت کو پوری سنجیدگی اور ذمے داری سے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ ایک دو لوگوں کو تبدیل کرنے یا معطل کرنے سے یہ معاملہ ٹھنڈا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

بعض اطلاعات کے مطابق انکوائری رپورٹ میں ذمے داروں کا تعین کر دیا گیا ہے۔اگر ایسا ہے تو حکومت کو پوری رپورٹ کو شایع کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ریاست کے مفاد اور سالمیت کوافراد پربرتری حاصل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔