نزلہ بر عضوِ ضعیف

تنویر قیصر شاہد  پير 1 مئ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کسی بھی شخص،گروہ یاادارے کے بارے میں جب بھی کوئی تأثراستوار ہوتا ہے تو اُسے نامکمل یا غلط تو کہا جاسکتا ہے لیکن اُسے بے اساس نہیں کہا جا سکتا۔ وہ بنیاد یااساس ڈھونڈنا پڑتی ہے جو کسی بھی بننے والے تأثر کا موجب بنتی ہے۔ نیوز لیکس کا جو سرکاری’’نتیجہ‘‘ سامنے لایا گیا ہے،عمومی اور عوامی تأثر یہ ابھرا ہے کہ انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ اور یہ کہ جو سزا کے مستحق تھے، اُنہیں بوجوہ بچا لیا گیا ہے۔

ایک ادارے کی طرف سے ’’نتیجے‘‘ کو Incompleteقرار دینا بے معنی تو نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تأثر بھی مستحکم ہُواہے کہ نیوز لیکس کا جو سب سے کمزور اور غیر متعلقہ فریق تھا،اُسے زیادہ سزا دی گئی ہے۔ اِس لیے کہ وہ سرکاری افسر تھا۔ اُس کے پیچھے نہ کوئی عوامی طاقت تھی اور نہ ہی ملک بھر میں اُس کا کوئی انتخابی حلقہ ہی ہے۔

غالباً یہی سوچ کر اُسے قربانی کا بکرا بنایا گیاہے، یہ خیال کرتے ہُوئے کہ اُس بے نوا نے طاقتوروں کے سامنے کونسا احتجاج کرنا ہے!! وزارتِ اطلاعات کے سینئر افسر راؤ تحسین علی خان،جنہوں نے ساری عمر سرکار کی خدمت کرتے گزاری ہے،کو نیوز لیکس کی قربان گاہ پر ’’ذبح‘‘ کر کے کوئی مستحسن مثال قائم نہیں کی گئی ہے۔ اس کا نامناسب پیغام تمام سرکاری افسروں تک بخوبی پہنچ گیا ہے۔جس شخص کا نیوز لیکس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اُسے بر طرف کر کے اوایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ یہ بھی کلیئر نہیں ہے کہ اس افسر کی ساری ملازمت کا کیا بنے گا؟وفاؤں کا کیا ایسا نتیجہ بھی نکل سکتا ہے؟

راؤ تحسین دکھے دل کے ساتھ یقینا ایسا سوچتے ہوں گے۔ ایک تأثر یہ بھی ابھرا ہے (اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے)کہ ایک سابق عسکری قائد نے بوجوہ نیوز لیکس کے کچھ حصوں پر کمپرومائز کیا۔سارے قضیئے کا سارا نزلہ گرا ہے تو سب سے کمزور ’’عضو‘‘ پر۔ اِسے کسی بھی طرح قرینِ انصاف قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ تقریباً چھ ماہ قبل جب نیوز لیکس کا انکشاف ہُوا تو یہ بات رپورٹ ہُوئی تھی کہ اُس ہائی پروفائل میٹنگ، جس میں سویلین اور عسکری معاملات زیر بحث آئے تھے، میں نصف درجن لوگ تو موجود تھے لیکن راؤ تحسین صاحب تو سرے سے حاضر ہی نہیں تھے۔ وہ تواسلام آباد ہی میں نہیں تھے۔ پھر وہ کیوں اور کیونکر نیوز لیکس کا باعث بن سکتے تھے؟ اور کسی کی فائل کی گئی خبر کو بھی کیسے رکوا سکتے تھے؟

اب یہ بات بھی طے ہو جانی چاہیے کہ آیا وزارتِ اطلاعات کے پرنسپل انفرمیشن آفیسر کا یہ بھی منصب ہے کہ وہ ایسی خبریں اخبارات میں شایع ہونے سے ہر صورت رکوائے گا جو حکومت مخالف ہوں؟ واقعہ یہ ہے کہ نیوز لیکس کے ’’نتیجے‘‘ اور عسکری اداروں کے ترجمان کے استردادی ٹویٹ نے صورتحال گمبھیر بنا دی ہے۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن کا جاری کردہ نوٹیفیکیشن اور افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا اٹھارہ لفظی ٹویٹ ایک نئی داستان مرتب کر گیا ہے۔

اِس داستان کو غیر ملکی میڈیا منفی معنی پہنا کر پاکستان کے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ہم سب کو اس پر تشویش کا اظہار کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے اپنے صفحہ اوّل پر اسے جگہ دی اور ساتھ ہی نامناسب الفاظ میں پاکستان کے دو اداروں کے بارے میں منفی تبصرہ بھی کیا ہے۔

دوسرے بڑے بھارتی انگریزی اخبار، دی انڈین ایکسپریس، نے بھی اِسی سے ملتی جلتی خبر شایع کی ہے جس سے پاکستان کے خلاف نہائیت منفی تأثر ابھارنے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف بھی دریدہ دہنی کی گئی ہے۔ یہ دراصل پاکستانیوں کی اکثریت کے دل دکھانے کا باعث بنی ہے۔

بھارت کا تیسرا بڑا روزنامہ(ہندوستان ٹائمز) بھی،نیوز لیکس کے حوالے سے،پاکستان اور پاکستان کی عسکری قیادت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے سے باقی دونوں متذکرہ بھارتی اخباروں سے پیچھے نہیں رہا۔ ممتاز ترین امریکی اخبار نے بھی نیوز لیکس کے ’’نتائج‘‘ کے حوالے سے جو نمایاں خبر شایع کی ہے،وہ بھی اپنی زہر افشانی سے کم نہیں ہے۔

وطنِ عزیز رواں لمحات میں جن مسائل اور بحرانوں سے گزر رہا ہے، نیوز لیکس کے ’’نتیجے‘‘ کا ہنگامہ کسی بھی اسلوب میں پاکستان کی اجتماعی سلامتی کے لیے مناسب نہیں ہے۔ وزیر اعظم نوز شریف پر بھی یقینی طور پر دباؤ آئے ہیں کہ ابھی تو پانامہ لیکس کا اونٹ بھی کسی خاص کروٹ نہیں بیٹھا ہے۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی کا دباؤ روز افزوں ہے۔

دوسری طرف وزیر اعظم صاحب بھی اپنی جگہ پوری طرح ڈٹے ہُوئے ہیں۔ گزشتہ روز اُنہوں نے اوکاڑہ کے ایک بڑے جلسے میں جس لہجے اور تیقن کے ساتھ خطاب کیا ہے، اُس کے پیشِ نظر تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ وہ ابھی آصف زرداری، عمران خان اور سراج الحق کے دباؤ کو کسی خاطر میں نہیں لا رہے۔ اُن کی باڈی لینگوئج بھی قابل ِ دید تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جلسہ جمعہ کو اسلام آباد میں کپتان کے برپا کردہ ایک بڑے جلسے کا فوری جواب تھا۔ اِسی لیے تو میاں صاحب نے جوشِ جذبات میں اشارتاً ارشاد فرمایا کہ ’’لوگ جلسیاں‘‘ کرنا بند کریں اور ’’صرف سڑکیں ناپیں جو اُن کا مقدر بن چکا ہے۔‘‘

عمران خان ہیں کہ ہار ماننے پر تیار نہیں۔ کراچی جا رہے ہیں تاکہ مزید دباؤ بڑھایا جا سکے۔ ان سب تماشوں کو جمہوریت کا حُسن کہا جارہا ہے۔ عوام بیچارے ہیں کہ اس مبینہ حُسن کی ’’چکا چوند‘‘ سے مارے جارہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ دو اداروں کے درمیان جو نئی خلیج پیدا ہُوئی ہے،اس کا انت کیا ہوگا لیکن پاکستان کے ہر شخص کی یہ تمنا اور آرزو ہے کہ کسی بھی ایڈونچر سے گریز کیا جانا چاہیے۔ جتنا جلد ہو سکے، فیصلہ ساز قوتوں کو ایک جگہ بیٹھ کر متنازع معاملات کا ٹھنڈے دل سے کوئی حل نکالنا چاہیے۔ کسی بھی فریق کی طرف سے کوئی بھی دانستہ تاخیر کسی بڑے نقصان کا موجب بن سکتی ہے۔

بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان کو جن گمبھیر مسائل اور مصائب میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں،اِن سب کا فوری تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کے اہم ترین اداروں میں کوئی رسہ کشی باقی نہ رہے۔ کیا یہ ستم نہیں ہے کہ پاکستان میں نیوز لیکس اور پانامہ لیکس کے بحران ہمیں بُری طرح اپنی گرفت میں لیے ہُوئے ہیں اور بھارت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ظلم پر ظلم ڈھا رہا ہے!!بیچارے کشمیری پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور پاکستان ہے کہ اس کے اپنے ہی بکھیڑے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

کشمیریوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر بڑی مشکل سے عالمی توجہ حاصل کی ہے لیکن عین اس موقع پر پاکستان کے حکمران طبقے اپنی اپنی بالا دستی کی ’’جنگ‘‘کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔فیصلہ کُن فیز میں داخل کشمیری پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو اُنہیں یقینا خوشی اور اطمینان نہیں ہو رہا۔ کیا پاکستان کی اجتماعی سلامتی، اس کے بہترین عالمی امیج اور کشمیر کاز کے لیے ہماری فیصلہ ساز شخصیات تصادم کی راہ اختیار کرنے کے بجائے اتحاد اوراتفاق کی راہ اختیار کر سکتی ہیں؟ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام امید بھری نظروں سے اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ایک پنجابی محاورے کے مطابق: ابھی بِکھرے بیروں کو آسانی کے ساتھ سمیٹا جاسکتا ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔