کھسیانی بلی کھمبا نوچے

شکیل فاروقی  منگل 2 مئ 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ایٹم بموں کے زور پہ اینٹھی ہے یہ دنیا
بارود کے اک ڈھیر پہ بیٹھی ہے یہ دنیا

مندرجہ بالا شعر دنیا کے حالات پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ تباہی اوربربادی کی اس کہانی کے آغازکا اصل ذمے دار امریکا ہے جس نے خود کو عالمی امن کا ٹھیکیدار قرار دینے کے باوجود دراصل غارت گری کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ امریکا کی اس جارحانہ روش نے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اس کے نقش قدم پر چلنے پر مجبورکردیا۔ چنانچہ اب دنیا کے کئی ممالک ایٹمی قوت کے حامل بن چکے ہیں۔

برصغیر پاک وہند میں ایٹمی دوڑکا آغاز ہمارے ملک کے ازلی دشمن بھارت نے کیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان ناصرف اسلامی ممالک کی اولین ایٹمی قوت بن چکا ہے بلکہ اس نے بھارت پر اپنی برتری حاصل کرلی ہے۔ اب بھارت کی مجال نہیں کہ وہ پاکستان کو ڈرا دھمکا سکے اور اس پر اپنا رعب جماسکے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا بھی ایک قوت بن کر ابھر رہا ہے اور پانچویں بار ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔اس کے دارالخلافہ پیانگ یانگ میں ہنگامی سی صورتحال ہے۔اس کا مدمقابل جنوبی کوریا امریکا کی شے پر ہاہاکار مچا رہا ہے۔ جاپان کی حکومت بھی بری طرح تھر تھرا رہی ہے کیونکہ وہ ہولناک امریکی ایٹم بم کی تباہ کاریوں کو آج تک فراموش نہیں کرسکی۔ حسن اتفاق ہے کہ ہم بذات خود اس مقام کا مشاہدہ کرچکے ہیں جہاں امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا۔ یہاں کے عجائب گھر میں اس ہولناک تباہی کی باقیات دیکھنے والے کو لرزانے کے لیے کافی ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی شمالی کوریا کو جنگی عزائم سے باز رہنے کی دھمکی دی تھی لیکن شمالی کوریا نے کسی قسم کے دباؤ میں آنے کے بجائے ایٹمی دھماکے کے لیے اپنی ایٹمی تیاریاں مزید تیزکردیں۔ بے چارے ٹرمپ کو منہ کی کھانا پڑی اور امریکی کانگریس اور سینیٹ میں شدید شرمندگی اٹھانی پڑی کیونکہ پوری دنیا میں امریکا کی جگ ہنسائی ہوئی۔ امریکا کی اسلام اور مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور ٹرمپ تو اس معاملے میں سب سے زیادہ بد نام ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شام پر 59 ٹام ہاک کروز میزائل نہایت بے رحمی سے داغے گئے جس کے بعد ابھی حال ہی میں 11 اپریل کو ٹرمپ نے بلااشتعال ایٹم بم سے بھی زیادہ وزنی بم ننگرہار کے قریب آچن کے مقام پر شام کے ساڑھے سات بجے C-130 جہاز سے 11 ٹن وزنی بم گرایا جسے امریکی Mother of All Bombs یعنی تمام بموں کی ماں کہتے ہیں۔ اس بم کا سب سے پہلا تجربہ عراق کی جنگ سے پہلے 2003 میں کیا گیا تھا۔ یہ 30 فٹ لمبا اور 40 انچ چوڑا بم 9500 کلوگرام وزن کا ہے۔

امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر 1945 میں جو بم گرائے تھے، یہ بم ان ایٹم بموں سے دو گنا وزن کا ہے۔ یہ زمین سے 6 فٹ کی بلندی پر اس زوردار دھماکے سے پھٹتا ہے کہ انسان کے کان اس کی گونج سے پھٹ جائیں۔ یہ 300 میٹرزکے ایریا میں موجود ہر جاندار اور بے جان چیزکو اڑا دیتا ہے۔ امریکی حکومت نے ہلمند میں اپنی زبردست شکست کا بدلہ لینے کے لیے یہ کارروائی کی۔ یہ غیر جوہری بم پاکستانی سرحد کے نزدیک گرایا گیا۔

امریکی فوج کے کمانڈرز نے اس قیامت خیز دھماکے کے بعد دعویٰ کیا کہ اس میں 36 جنگجو ہلاک ہوگئے، مگر کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ ان کا یہ بیان سفید جھوٹ سے بھی بڑھ کر ہے۔ سابق افغان صدرحامدکرزئی نے اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلچسپ بیان دیا ہے کہ یہ امریکی حملہ محض امریکی اسلحہ چیک کرنے کی کارروائی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کرزئی کے اس دلچسپ بیان کو بڑی اہمیت دی ہے۔

ایک مشہور امریکی اخبار کے مطابق اگر دنیا کی 100 سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والی فیکٹریوں کے اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو ان میں سب سے بڑی تعداد امریکی فیکٹریوں کی ہے۔ ان میں سے 37 فیکٹریوں نے 402 ارب ڈالرز کا اسلحہ بیچا جن میں بم بھی شامل تھے۔ ادھر روس 40 ملکی اتحاد کے مخالفوں کو اپنے برانڈزکا اسلحہ بیچ رہا ہے جن میں بم بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں انتہائی انسانیت سوز رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام کے مہاجروں کو بچانے کے لیے درد کی گولیاں مہیا کرنے کے بجائے بازار میں بارود کی گولیاں سستے داموں بیچ رہی ہیں۔ شام میں مسلمانوں کے قتل عام پر سب سے زیادہ یہودی خوش ہیں۔

جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسی عالمی طاقتیں بھی ٹرمپ کی حامی بنتی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام عیسائی ممالک اسلحے کے تاجر ہیں اور انھیں صرف اپنا مال بیچنے میں دلچسپی ہے۔ ان کی بلا سے کے کتنے گھر جلتے ہیں اور تباہ ہوتے ہیں مگر امریکی اوردیگر طاقتیں شمالی کوریا کو محض دھمکیاں تو دے سکتی ہیں مگر ان میں اتنی ہمت نہیں کہ شمالی کوریا پر حملہ آور ہوسکیں۔ وہ اس کا سارا غصہ اسلامی ممالک پر اتارنا چاہتی ہیں گویا کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ کاش ! اسلامی ممالک میں مکمل اتحاد ہوتا اور وہ اپنے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے بات کرسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔