علم کا ارتقائی سفر

پروفیسر محمد نقی چاندنہ  پير 21 جنوری 2013
مغرب میں تعلیمی انقلاب کی اہم تاریخ کا آغاز ’’نیوٹن‘‘ سے ہوتا ہے۔۔وٹو : فائل

مغرب میں تعلیمی انقلاب کی اہم تاریخ کا آغاز ’’نیوٹن‘‘ سے ہوتا ہے۔۔وٹو : فائل

 ایک دانش ور نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’ستارے آسمانوں کا زیور ہیں اور تعلیم یافتہ انسان زمین کی زینت۔‘‘

کام یابی ان لوگوں کو ہی ملتی ہے جو کام یابی پر یقین رکھتے ہیں، دنیا کی ہر چھوٹی بڑی قوم نے اگر ترقی کی ہے تو وہ تعلیم کی سیڑھیوں کو عبور کر کے ہی کی ہے۔ پاکستان کے مسائل کے حل کی کنجی بھی تعلیم ہے۔ جب تک تعلیم عام نہ ہوگی ہم ایک منتشر قوم ہی رہیں گے۔ ہمارے اتحاد کے راستے مسدود اور نظم و ضبط کا فقدان رہے گا۔ ماہرین تعلیم آج بھی پرانے کلیہ پر متفق ہیں کہ تعلیم ہر قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ آج وہی قومیں زندہ اور آزاد ہیں کہ جن کے اکابرین نے تعلیم کی اہمیت کو نہ صرف سمجھا بلکہ پالیسی سازی میں تعلیمی پالیسی کو ہمیشہ سرفہرست رکھا۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جرمنی اور جاپان نہ صرف غلامی میں چلے گئے تھے بلکہ پورے ملک ملک کا بنیادی ڈھانچا تباہ ہو گیا تھا۔ ان حالات میں بھی ان ملکوں نے اپنی قومی تعلیمی پالیسی کو ترتیب دیا اور عمل شروع کر دیا۔ آج دوبارہ یہ ممالک ترقی کے سفر پر رواں دواں ہیں اور سائنسی ترقی کی معراج پر ہیں۔

بانیان پاکستان بھی تعلیم کی افادیت و اہمیت سے آگاہ تھے۔ ہمارا پہلا تعلیمی کمیشن1948ء میں ہی بن چکا تھا، جس نے اپنی سفارشات تیار کر کے حکومت کو پیش کر دی تھیں لیکن سیاسی عدم استحکام اور قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد عدم استحکام نے اپنے قدم جمانا شروع کردیے۔ 1958ء کے مارشل لا کے بعد کے حالات، 1965ء کی جنگ، 1971 کا سانحہ مشرقی پاکستان اور بعد کے پے درپے ناعاقبت اندیشانہ حالات نے تعلیمی عدم استحکام پیدا کیا جو اب بھی جاری ہے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں ’’تعلیم کی تاریخ بڑی فکرانگیز اور دل چسپ ہے۔ پتھر کے دور سے میزائل کے دور تک حضرت انسان نے ترقی کی ہے! کہتے ہیں انسان کا پہلا اتالیق ’’کوّا‘‘ تھا، (کیوں کہ جب جناب آدم علیہ سلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تو نعش کو زمین میں دفنانے کا طریقہ کوے سے ہی سیکھا گیا) وقت کے ساتھ ساتھ موسم کی سختیوں، جنگلی جانوروں کے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے انسان کے ’’تعقل‘‘ کو مہمیز ملی اور اس نے ایسے طریقے آزمائے کہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکے۔ تجربے کو بزرگوں سے بچوں میں منتقل کیا گیا۔ پھر مشترکہ آگاہی کے لیے علوم کے اجتماعی سلسلے بھی پروان چڑھنے لگے۔ تاریخ معلوم میں نسل انسانی کے عقلی بلوغ کی انتہا شاید یونانیوں کے زمانے سے ہوتی ہے۔ اس میں ہم تعظیمات کے اعتبار سے ’’افلاطون‘‘ کو پہلا اصول پسند مفکر ماننے پر مجبور ہیں۔‘‘

تعلیم میں افلاطون کی اہمیت یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے تعلیم کو ایک نظام کی حیثیت سے دیکھا۔ تعلیم کو ایک طرف نفس انسان کی تربیت وتکمیل کا ذریعہ بتایا اور دوسری طرف تعلیم کو اجتماع کی خدمت کا بھی ایک وسیلہ قرار دیا۔ افلاطون نے نفس انسانی سے ’’ذہن و روح‘‘ ہی مراد نہ لی بلکہ اس نے جسم کو بھی تعلیم کے دائرے میں شامل کیا۔ افلاطون نے علم کے حصول یا ادراک میں تعقل کو ضروری قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی مشاہدے اور تجربے کو بھی اہمیت دی۔

مسلمانوں کا دور علم کی ترقی کا تیز تر دور تھا۔ ان کی تعلیم کا پہلا بڑا دبستان بغداد میں قائم ہوا اور عباسی و اموی خلفا نے بھرپور سرپرستی کی۔ اس دور میں زندگی کی ’’خارجیت اور باطنیت‘‘ کے الگ الگ اسلوب ازروئے مذہب مسترد کردیئے گئے۔ اس نظریہ زندگی کا ان کے نظریہ تعلیم پر بھی اثر پڑا۔

مسلمانوں کے تعلیمی میلانات آخری ادوار میں کچھ بھی ہوں یہ مسلّم ہے کہ مغرب کے احیائے ثانی میں مسلمانوں کی تجربیت (Empiricism) کا اثر ناقابل فراموش ہے۔ مغرب میں تعلیمی انقلاب کی اہم تاریخ کا آغاز ’’نیوٹن‘‘ سے ہوتا ہے۔ جس کی طبیعیاتی دریافتوں نے فطرت کے نظام کے متعلق جو انکشاف کیا اس کا یہ اثر ہوا کہ فطرت کے قوانین کا اطلاق ہر جگہ ہونے لگا، انسان کے متعلق بھی ان قوانین کی جستجو کی گئی۔ نیوٹن کے نظریات نے علم و عمل کے اکثر سلسلوں کو متاثر کیا جن میں ’’تعلیم‘‘ بھی شامل ہے۔

دل چسپ صورت حال یہ رہی کہ نیوٹن سے لے کر آئن اسٹائن تک مغربی افکار عجیب کشاکش میں مبتلا رہیں۔ مادیت اور روحانیت کے درمیان ایک طرف تعقل اور تجربیت کے معاملات تھے تو دوسری طرف ماہرین نئی کہکشاؤں کا انکشاف کر رہے تھے۔

جان لاک نے تعلیم کے سلسلے میں انسانی حواس اور طبیعت کا سائنسی بنیادوں پر مطالعہ کرنے پر زور دیا۔ اور تجربے کو تعلیم کی بنیاد قرار دیا۔ ہیوم نے مادہ و روح دونوں کو ’’وہم و خیال‘‘ قرار دیا۔ رُوسو نے تعلیم اور فطرت کے درمیان رابطہ قائم کیا اور جبلتوں کی آزادی پر زور دیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جلد ہی ’’لائی بنٹر‘‘ نے اس کی تجربیت کی تردید کرتے ہوئے پھر عقل و تعقل کا علم بلند کیا۔ دوسری طرف ’’کانٹ‘‘ نے عقل و حواس کی اس جنگ میں درمیانہ راستہ اختیار کیا اور زندگی کی ’’کلیت‘‘ کا احیا کیا۔

جان لاک، کانٹ اور روسو کے افکار بہت سے تعلیمی تجربات کی بنیاد قرار پائے۔ یہ اثر اتنا دیرپا ہوا کہ موجودہ دور میں بھی ان کی بازگشت کبھی کبھی سننے میں آجاتی ہے۔

ڈارون کی شخصیت بڑی دل چسپ رہی ہے۔ سائنسی دنیا کے اس عظیم مفکر کے نظریات نے تعلیم پر یہ اثر ڈالا کہ ماہرین تعلیم نے انسانی طبیعت و قابلیت کو ’’تغیر و ارتقا‘‘ کے نظریے کی روشنی میں موضوع فکر بنا دیا۔

مادہ نفع، تجربیت اور حواس اب تک تعلیم کی اساس بنے ہوئے ہیں۔ اب بھی روح انسانی کی ’’بے قراری‘‘ کسی معاہدے کے انتظار میں ہے۔ سائنس اس وقت دنیا کی ’’فاتح قوت‘‘ ہے۔ جس کے سامنے تعقل نے بھی ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ جب صورت حال یہ ہے تو جب بھی کوئی معاہدہ ہوگا تو اس میں تعقل ، عمل و تجربہ اور وجدان تینوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

شاید ہماری زندگی میں ہی ایسا وقت ضرور آئے گا کہ جب علم اور تعلیم، پھر ایک ’’وحدت‘‘ بن کر خدا، انسان اور کائنات کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیں گے اور سائنسی فلسفہ و ادب تینوں کو یکساں طور پر نفس انسانی کے ترجمان اور حیات انسانی کے معاون بن سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔