کردار سازی سے دور تعلیمی ادارے

پروفیسر عرفان شاہ  پير 21 جنوری 2013
نئی نسل کو نصابی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ تعمیری کردار کی بھی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

نئی نسل کو نصابی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ تعمیری کردار کی بھی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

 لوگوں کا زیور علم سے آراستہ ہونا معاشرہ کو سبدِ گل بناتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گود سے گور یعنی لحد تک علم حاصل کرنے کا حکم دیا۔

تربیت کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے، اس لیے سرچشمہ تربیت کا علم سے آراستہ ہونا بھی ایک امر لازم ٹھہرا، مادر علمی کی اصطلاح بھی اسی افادیت کی آئینہ دار ہے کہ علم گاہ ماں کی طرح پروقار اور عظمت والی ہو، لیکن پچھلے چند سالوں سے درس گاہوں کی جو صورت حال ہے، اس کے منفی اثرات معاشرے پر واضح طور پر محسوس ہو رہے ہیں۔

تعلیم کا اولین مقصد تربیت ہے۔ تربیت ہی سلیقہ اور قرینہ عطا کرتی ہے، اس کے بغیر تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑ ہی نہیں سکتی۔ تربیت ہی آدمی کو انسان بناتی ہے۔ مذاہب عالم کا عمیق مطالعہ بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ عالم اقوام میں رائج تمام مذاہب کی بنیاد ہی تربیت ہے۔ تربیت فکر کو جنم دیتی ہے اور فکر کردار کی تشکیل کرتی ہے، لیکن بدلتے ہوئے رویوں نے درس گاہوں کو کاروباری اداروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں اذہان کی فکری تربیت اور کردار سازی کے بجائے مادیت کی ترغیب کو اولیت دی جانے لگی ہے۔

مختلف نجی کالج اور جامعات کی تشہیر اس امر کی گواہ ہے کہ ان کا ارتکاز مال و زر کی جانب ہوگیا ہے، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ علم کا ایک مقصد یقیناً حصول روزگار بھی ہے لیکن اس کے لیے دائرۂ علم کو محدود کر دینا قطعاً درست نہیں۔ سماجی علوم (آرٹس) کو بے توقیر اور صرف سائنس اور کامرس کو ہی علمیت جان لینا، حقیقتاً فیض علم سے محرومی کا سبب بن رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس غلط سوچ کے پیچھے اساتذہ ہی بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔

کیوں کہ طالب علم اپنے مستقبل اور آئندہ کی تعلیمی منصوبہ بندی کے لیے اساتذہ کرام سے ہی مشورہ لیتا ہے اور پھر اپنی سوچ و فکر کو بھی اس ہی جانب مائل کرنے کی از حد کوشش کرتا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اساتذہ اس موقع پر کتنی اہم ذمہ داریاں رکھتے ہیں۔ بول چال اور نشست و برخاست سے لے کر لباس تک ہر چیز میں طلبہ پر اپنے اساتذہ کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں شعوری اور لاشعوری طور پر استاد کا اپنے منصب سے کمٹمنٹ از حد ضروری ہے۔

اس کے علاوہ مختلف کالجوںمیں جاری رہنے والی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں بھی خاصی توجہ طلب ہیں۔ ساتھ ہی سرکاری کالجوں میں مختلف طلبہ تنظیموں کی مداخلت، درس وتدریس میں رکاوٹیں، سیاسی نعرے، ہنگامے، مار دھاڑ اور دیگر تعلیمی مسائل نے نئی نسل کو بری طرح جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ عمر کے اس حصے میں جب وہ کھل کر جینا چاہتے ہیں، اپنے احساسات کا اظہار چاہتے ہیں، آزادی سے پڑھائی اور مکالمہ کرنا چاہتے ہیں، ان کے اس ابھرتے ہوئے جذبات کو اس ہی رفتار سے دبا دیا جاتا ہے، جو ایک طرف ان میں شدید جذباتی بے چینی کا باعث بنتا ہے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں کے انتشار سے بھرپور ماحول ان کی کسی بھی کردار سازی کے موقع کو ضایع کر کے اس کے برعکس نتائج دیتا ہے۔

دوسری طرف خواتین کالجوں میں اگرچہ لڑکوں کے کالجوں جیسے مسائل نہیں، لیکن یہاں انہیں الگ نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔ جنہوں نے آنے والی نسلوں کی پرورش کرنی ہے ان کے لیے یہ کالج ایک اہم ترین درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آج خصوصاً خواتین تعلیمی اداروں میں سیکنڈری، ہائر سیکنڈری اور کالجوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر ایسی چیزوں کا رحجان بڑھ گیا ہے، جس سے درس گاہوں کا پورا ماحول اور تقدس پامال ہو رہا ہے۔

یہ کمپنیاں اپنے دیدہ زیب اور رنگ برنگے پوسٹروں، اشتہاری مواد، مصنوعات اور پرکشش انعامی مقابلوں سے معصوم اذہان کو ایسی ترغیبات کی جانب متوجہ کرتی ہیں جن سے کردار سازی کے بجائے خود ستائی اور دیدہ زیب ہو جانے کے خیالات، طالبات کو نمود و نمائش کے عارضے میں مبتلا کیے جا رہے ہیں۔ اس غیر ضروری روش کی روک تھام کے لیے ارباب حل و عقد کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، لیکن یہ کوششیں صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں۔

تعلیمی اداروں میں سماج کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو یونیفارم کی پابندی اسی لیے کرائی جاتی ہے کہ کم ازکم تعلیم کے حصول کے دوران احساس محرومی اور طبقاتی تقسیم کا دبائو ان پر اثر انداز نہ ہو اور ان میں حصول علم کے لیے یکسوئی اور لگن پیدا ہو سکے، لیکن علمی ماحول کو کثیف بنانے والے بعض پروگرام طالبات میں ذہنی و جذباتی انتشار کا سبب بن رہے ہیں۔

اس تنزلی پر اہل دل ہر سطح پر اضطراب میں مبتلا ہیں، لیکن ان وجوہ کو تلاش اور تدارک کرنا بھی ہمارا ہی فرض ہے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ آج بھی علی گڑھ، جامعہ عثمانیہ، سندھ مدرسۃ الاسلام اور دیگر قدیم درس گاہوں سے فارغ التحصیل طلبہ اپنی علمی، ادبی، تخلیقی اور اخلاقی روایات کے باعث مثالی تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کا فکری اور علمی نظم و ضبط انہیں سماجی زندگی میں ممتاز رکھتا ہے۔ یہی وہ تربیت ہے جو صرف نصابی تکمیل سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے اساتذہ کا خاص لگائو بہت ضروری ہے۔

تعلیمی ادارے اپنے ماحول اور مستحکم روایات سے ہی معتبر ہوتے ہیں۔ محترم اساتذہ کرام کو بھی اپنے وقار کا پاس رکھتے ہوئے ایسے اقدام کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جن سے منفی رحجانات جنم لے رہے ہوں۔ تعلیم کا معیار جس زبوں حالی سے دو چار ہے اس کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کرام طلبہ کی کردار سازی پر بھی اپنا کچھ اضافی وقت لگائیں، کیوں کہ یہ طلبہ ہی کل معاشرے میں ہمارا تعارف بنیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔