یہ بھی جمہوریت ہے

عبدالقادر حسن  بدھ 3 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جمہوریت ایک اچھا طرز حکمرانی ہے لیکن جب اس جمہوریت میں ہمارے جیسے ملکوں کے سیاستدان شامل ہو جاتے ہیں تو یہی بدل کر کوئی اور ہی رنگ و روپ اختیار کر لیتی ہے اور سیاست جس کی بے رحمی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہ تھا اور اب ان سیاستدانوں کے غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے رہا سہا شک بھی یقین میں تبدیل ہو گیا ہے ۔

جمہوریت پسند ممالک میں جمہوری حکومتیں اپنے اوپر نہ صرف تنقید کو برداشت کرتی ہیں بلکہ اس میں سے اپنی اصلاح کے پہلو بھی نکال لیتی ہیں اور اپنی غلطیوں کو سدھار لیتی ہیں تا کہ وہ اپنی عوامی مقبولیت کو برقرار رکھ سکیں اور جہاں پر تنقید برائے تعمیر بھی برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو وہ حکومتیں ہمیشہ یہی شکایت ہی کرتی رہتی ہیں کہ ان کو کام نہیں کرنے دیا جارہا اور ان پر بلا وجہ تنقید کر کے ان کے کاموں میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں جس سے ملکی ترقی متاثر ہو رہی ہے یہ تو وہ جواب ہے جو کہ ان جمہوری حکومتوں کی جانب سے آتا ہے جو عوام کے لیے کام تو کچھ خاص کر نہیں رہی ہوتیں لیکن اس سلسلے میں ڈھنڈورا زیادہ پیٹا جا رہا ہوتا ہے۔

ہماری موجودہ حکومت اپنے پانچ سالہ اقتدار کے آخری دور میں داخل ہو گئی ہے اور یہ آخری مارشل لاء کے بعد دوسری جمہوری حکومت ہے جو  اپنی مدت پوری کرنے کی کوشش کر رہی اور اپنے منتخب اقتدار کے آخری سال میں داخل ہونے جا رہی ہے ۔ ان کی کوشش تو یہی ہے کہ اپنی منتخب مدت کو مکمل کیا جائے لیکن ان کی چال ڈھا ل اس کی گواہی نہیں دیتی۔آپ نے وہ مشہور مثال تو سنی ہو گی کہ ایک لڑکی اپنی ماں سے کہنے لگی کہ آج رات کے بعد ہمارے گھر سے ایک فرد کم ہو جائے گا، دراصل اس نے گھر سے بھاگنے کا پروگرام بنا رکھا تھا،  وہ اگلے دن صبح گم پائی گئی تو اس کی ماں کہنے لگی کہ بڑی اﷲ لوک تھی کل ہی کہہ رہی تھی کہ گھر سے ایک فرد کم ہو جائے گا۔ ہمارے حکمران بھی ایک فرد کی گمشدگی یا قربانی کو تیار بیٹھے ہیں کیونکہ جس رفتار سے وہ اس ملک کے بااختیار اداروں کی ناراضی مول رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ وہ بم کو لات مارنے کے درپے ہیں، اب یہ بم پر منحصر ہے کہ وہ پھٹتا ہے یا ان کو ڈراتا ہی رہتا ہے ۔

یہ حالات کیوں بن رہے ہیں، ان کو کون بنا رہا ہے اور کیا ان کو اس سطح پر لایا جا رہا ہے کہ بم پھٹ ہی جائے اور جو طاقتیں بم پھٹنے کے انتظار میں ہیں،  وہ لگتا ہے کہ انتظار میں ہی رہیں گی کیونکہ اس دفعہ ملک میں اگر فوجی حکومت کی نوبت آئی تو یہ بم ان سب پر پھٹے گا نا کہ صرف مخصوص لوگوں پر اور یہ ان میں سے کسی کے وارے میں نہیں کیونکہ سب ہی اقتدار کے بھوکے ہیں اور اپنی باری کے لیے تاک لگائے بیٹھے ہیں کہ کب حکومت کا خاتمہ ہو اور یہ ساٹھے باٹھے کے سیاستدان الیکشن میں درست نشانے لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں یا پھر موجودہ حکومت  اگلے الیکشن میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پراپنی شاہی حکمرانی کو ہی طول دینے کی کوشش کرے گی جو  اب کافی مشکل نظر آرہا ہے ۔

ڈان لیکس کے حوالے سے جو شورو غوغا برپا ہے وہ کسی صحافی کا قصور نہیں بلکہ انھی حکمرانوں کاخود پیدا کردہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا مداوا کرنے کی پوزیشن میں وہ اب خود بھی نہیں ہیں۔ صحافی خبر کا بھُوکھا ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی خبر جو  اس کو براہ راست اس ملک کے سب سے بڑے ایوان سے ملی ہو، اس کے بعد صحافی کا کام بس اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ وہ اس کی ذمے دار ذرایع سے تصدیق کر کے اس کو اشاعت کے لیے متعلقہ شعبے کے سپرد کر دے۔ ڈان لیک کے معاملے میں بھی حکومت نے ذمے داری کا احساس نہیں کیا اور اس کی آزادانہ انکوائری رپورٹ عوام کے لیے شایع کرنے کے  بجائے ایک سرکاری ملازم اور اپنے ایک مشیر کی قربانی دے دی جس کو فی الفور ہماری فوج نے مسترد کر دیا کیونکہ ان کے مطابق رپورٹ پر اس طرح عملدرآمد نہیں کیا گیا جس پر باہمی رضامندی سے معاملات طے کیے گئے تھے ۔

اس سلسلے میں پہلے ہی طارق فاطمی نے استعقیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا جب کہ محکمہ اطلاعات کے افسر راؤ تحسین کو بھی قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے جنہوں نے بھی اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرائے جانے کے بعد اس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان دونوں کا یہی طرز عمل ہی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دال سار ی کی ساری ہی کالی ہے اور اس خبر کے پیچھے کوئی اور ہی شخصیت ہے جس کو بچانے کے لیے نواز شریف نے فوج سے لڑائی بھی مول لے لی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کا آج کل کا رویہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا اور وہ سب کام کر رہے ہیں جو  مقتدر قوتوں کے لیے ناپسندیدہ ہیں اور اس سلسلے میں براہ راست ٹکراؤ کی پوزیشن میں آگئے ہیں جو  نہ صرف خود ان کی حکمرانی کے لیے بلکہ آج کل کے حالات کے مطابق ملک کے لیے بھی شدید ضرررساں ہیں ۔ وہ شاید ابھی تک اکتوبر 99 کو نہیں بھولے اور ان کے اندر ملکی اداروں کے بارے میں جو تحفظات ہیں وہ دور نہیں ہو سکے لیکن اب وقت اور حالات بدل گئے ہیں اور انھیں اپنے اندر چھپے ہوئے آمرانہ عزائم کو نکالنا ہو گا۔

صحافت اور حکومت کا ساتھ ہمیشہ ہی رہتا ہے ، ہٹلر کے زمانے میں اس نے اپنے  وزیر گوئبلز کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا اور آج تک گوئبلز کو پراپیگنڈہ صحافت کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اخبارات کے ساتھ ٹی وی کے نیوز چینلز اور ان کے ذریعے نشر ہونے والے پروگرام بھی صحافت میں شامل ہو گئے ہیں وہ وقت ہوا ہو گئے جب چند اخبارات کے سر پر ہی حکومت کا دارومدار ہوتا تھا اور ارباب اختیار کے پاس وقت کی کوئی قلت نہیں ہوتی تھی اور وہ رات گئے تک اپنی خبروں کو شامل اشاعت کرا سکتے تھے لیکن اب الیکڑانک میڈیا کی دوڑ میں سب ہی پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمارے نئے اور نوجوان صحافیوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور حکومت بھی اپنی تشہیر کے لیے  الیکڑانک میڈیا پر توجہ زیادہ دیتی ہے۔

اس نئے میڈیا کے باوجود اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر کالے کیے جانے والے صفحات کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے کیونکہ یہ صفحات انھی سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں سے ہی بھرے ہوتے ہیں۔لیکن وہ صحافت ہی کیا جو سیاست کی آلہ کار بن جائے اور ان کے مقاصد کے لیے استعمال ہو جائے ۔ ایک وقت تھا جب صحافیوں کی کوئی پارٹی نہیں ہوتی تھی بلکہ کسی پارٹی سے وابستگی گالی سمجھی جاتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اقدار بھی بدل گئیں اور اب تو کھلم کھلا سیاسی وابستگی کو اعزاز سمجھا جاتا ہے بلکہ اگر جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ ہمارے کئی جید صحافی براہ راست حکومت کے شراکت دار بھی بن گئے ہیں اور جب صورتحال یہ ہو گی تو اس طرح کی کئی لیکس ہوتی رہیں گی اور ہم صحافی ان سیاستدانوں کے آلہ کار بنتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔