بلا تبصرہ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 3 مئ 2017

ریاستیں ایمانداری سے چلتی ہیں، بے ایمانی سے ریاستیں کھنڈر بن جاتی ہیں۔ سسرو کہتا تھا ’’مملکت کی عظمت اور سالمیت کا انحصار اس کے فیصلوں کی پاکیزگی اور حقانیت پر ہوتا ہے‘‘۔ ماضی قدیم میں اہل صقلیہ (سسلی) نے اپنے گورنر کے خلاف رشوت ستانی، لوٹ کھسوٹ، دھونس اور دھاندلی کی شکایات کیں، جس پر اس کا مقدمہ عدالت انسداد رشوت ستانی میں پیش ہوا۔

گورنر کا نام ویریس تھا اور اسے روم کے بہت سے سرکردہ افراد کی حمایت حاصل تھی۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میں صرف اپنے لیے نہیں کماتا ہوں، بلکہ سینٹ کے لیے، ججوں کے لیے اور دوسرے نگران حکام کے لیے بھی رشوت لیتا ہوں۔ ویریس کی حمایت میں بڑے بڑے لوگ متحد ہوگئے تھے اور اس کی طرف سے ہارٹن سیس صفائی میں پیش ہورہا تھا، جو اپنے تمول، تعیش، تصنع اور تنعم کے لیے مشہور تھا۔

اس نے ہر امکانی کوشش کے ذریعے اس مقدمے کو خراب کرنے کی جدوجہد کی۔ پہلے اس نے سسرو کی جگہ اپنے ایک دوست کو، جو کہ ویریس کا بھی پرجوش حامی تھا، استغاثہ کی طرف سے وکیل کرایا، لیکن سسرو نے اس کی اس کوشش کو بے کارکردیا۔ اس کے بعد اس نے مقدمے کو دوسرے سال تک ملتوی کرانے کی سعی کی، تاکہ اس وقت تک ویریس کے موافق جج تعینات کرائے جاسکیں۔ سسرو نے یہاں بھی اس کی ایک چلنے نہ دی۔ آئیں اس مقدمے میں سسرو نے جو تقریر کی، اس کے اقتباسات مختصراً پیش کرتے ہیں۔

سسرو نے کہا معزز جج صاحبان! ہمارے ملک کی تاریخ کی اس بحرانی منزل پر خدا نے آپ کو ایک نادر موقع عطا کیا ہے، آپ اپنے منصب کی عظمت رفتہ کو بحال کر سکیں اور اس کی مقبولیت کو از سر نو حاصل کر لیں اور اس عدالت کی گرتی ہوئی شہرت کو مزید گرنے سے بچا لیں۔ ہمارے ملک میں اب ایک انتہائی بے اعتمادی جنم لے رہی ہے اور لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ ہماری عدالتیں اپنی موجودہ تشکیل میں مجرم کو کبھی سزا نہیں دے سکتیں، بشرطیکہ وہ صاحب حیثیت اور صاحب دولت ہو۔ یہ بات ہر شخص کی زبان پر ہے، روم کے اندر بھی اور باہر بھی۔ ان حالات میں ویریس کا مقدمہ آپ کے سامنے آیا ہے۔ یہ ایک ایسا شخص ہے جس کی زندگی اور عمل کو دنیا نے پہلے ہی قابل ملامت سمجھ لیا ہے، لیکن جو ہمیشہ ان عدالتوں کے ہاتھ سے بری ہوتا رہا ہے۔ وہ علانیہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ہمیشہ اس کی بے حد و حساب دولت نے سزا سے بچایا ہے۔

حضرات! آج میں اس پر مقدمہ چلا رہا ہوں کیونکہ اہل روم نے یہ کام میرے ذمے لگایا ہے۔ میں آپ کی غیر مقبولیت میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ میری دلی خواہش ہے کہ آپ کی شہرت نیک ہو اور مقدمہ آپ کی عظمت اور شہرت کی بازیابی میں ممدو معاون ثابت ہو۔ حضرات! ویریس نے ہمارے خزانے کو لوٹا ہے، اس نے ایشیا اور اس کے صوبوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کا عہد رہزنی و قزاقی اور غضب و نہب سے بھرا ہوا ہے۔

اس نے صقلیہ میں لوٹ مار کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ وہ صقلیہ کے عوام و خواص پر ایک جان لیوا وبا کی طرح نازل ہوا۔ آپ سے میں انتہائی درد مندی سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ ایک حق پرستانہ اور ضمیر دارانہ فیصلہ صادر کریں اور اپنی نیک نامی کو قائم کریں، نیک نامی جو ایک جج کا واحد سرمایہ ہوتی ہے اور جو ہمیشہ اس کی ذات سے منسلک ہونی چاہیے۔ ویریس کی دولت عدالت کے ضمیر اور ایمان کی تخریب کے درپے ہے اور اگر وہ کامیاب ہو گیا تو لوگ یہ نہیں کہیں گے ملزم کے خلاف جرم ثابت نہ ہو سکا یا اس کے مقدمے کی اچھی طرح پیروی نہیں کی گئی، بلکہ وہ صرف یہ کہیں گے اس ملک میں اب حق پرست جج نہیں رہے۔ میں ایک ذاتی بیان بھی دینا چاہتا ہوں کہ جب میں اس مقدمے کی شہادت جمع کرنے اور اس کی تصدیق و توثیق کے لیے صقلیہ گیا تو ویریس نے میرے راستے میں ہر قدم کانٹے بچھائے، لیکن مجھے اس وقت اتنا خطرہ نہ تھا جتنا کہ آج اس عدالت میں ہے۔

میری تقریر سے لوگوں کو بڑی امیدیں ہیں، یہاں لوگوں کا ہجوم ہے لیکن مجھے ان سے کوئی تشویش نہیں۔ ہاں مجھے صرف ویریس کے ان مجرمانہ منصوبوں اور سازشوں سے خطرہ ہے جن کا جال اس نے بچھایا ہوا ہے۔ وہ بیک وقت مجھے، استغاثہ کو، آپ کو اور روم کو، سب کو زیر دام لانا چاہتا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ قانون سے صرف وہ لوگ ڈرتے ہیں جنھوں نے صرف اپنے لیے تھوڑا سا مال لوٹا ہو لیکن جس نے بہتوں کے لیے بہت سا مال و منال غصب کیا ہو، اسے کوئی خوف نہیں ہو سکتا۔ اس نے اعلان کر دیا کہ

’’ روم میں نہ کوئی ادارہ اتنا مقدس ہے اور نہ کوئی فرد اتنا پاک ہے جسے خریدا نہ جا سکے۔ کسی میں کردار کی وہ مضبوطی اور استحکام نہیں کہ وہ روپے کے حملے کو پسپا کر سکے۔ اس نے جن وسائل اور ذرایع سے دولت لوٹی ہے انھیں کبھی پردہ اخفا میں نہیں رکھا اور نہ ہی آج وہ ان اسکیموں اور سازشوں کو چھپانا چاہتا ہے جن کے ذریعے وہ ججوں کو خریدنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن وہ بھول گیا ہے کہ اب وقت ججوں کو رشوت دینے کے لیے سازگار نہیں رہا‘‘۔

تاریخ کے اس عظیم مقدمے میں عظیم سسرو کی عدالت میں کی گئی تقریر کو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ہمارے موجودہ حالات میں اس تقریر کی کوئی اہمیت یا حیثیت ہے بھی یا نہیں، فیصلہ آپ کے ذمے چھوڑتا ہوں، کیونکہ آپ مجھ سے زیادہ سمجھ دار اور ذہین ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔