دیگر بازیگروں کا کیا ہوگا کالیا ؟

وسعت اللہ خان  پير 21 جنوری 2013

مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی کو مسلمانوں کا جے سالک ، ظاہرالپادری ، سیاسی آئٹم نمبر ، بابائے کنٹینر ، مغربی ایجنڈے کا گماشتہ ، پرفارمر المعروف ریفارمر ، نوٹنکیا ، بہروپیہ ، مسخرہ ، مداری ، نرگسیت کا مارا ہوا کہنے سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

جو کچھ جو بھی کہہ رہا ہے ہوسکتا ہے کہ ملزم میں یہ سب اوصاف ہوں۔ہوسکتا ہے اسے آئین کا بھی واجبی علم ہو اور آئین میں ترمیم کے عمل کا تو واجبی علم تک نا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ لانگ مارچ پر ہونے والے بھاری نشریاتی ، اشتہاراتی ، نقلی و حملی اخراجات کا بل کسی پراسرار ذریعے نے ادا کیا ہو۔ہوسکتا ہے کہ سب کے سب اسی کے مرید یا اس کے دینی و تعلیمی اداروں سے فیضیاب ہونے والے افراد اور ان کے کنبے اس مشکوک آدمی کا احسان لوٹانے کے لیے دارالحکومت کی جانب چل پڑے ہوں۔ہوسکتا ہے اس کی ٹوپی میں واقعی کوئی ایسا انٹینا لگا ہو جس کے سگنل تل ابیب ، لندن ، واشنگٹن ، ماسکو ، تہران یا دلی میں ریسیو کیے جارہے ہوں مگر کیا فرق پڑتا ہے‘ مذکورہ بالا کسی بھی بات ، پھبتی یا آنکڑے سے؟

اگر یہی ظاہر الپادری آج کراچی کے بلاول ہاؤس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کر کے بھٹو خاندان سے اپنے دیرینہ تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے پیپلز پارٹی میں غیر مشروط شمولیت کا اعلان کردے تو پھر؟

اگر یہی پرفارمر عرف ریفارمر رائے ونڈ میں شریف برادران سے ملتے ہوئے انھیں اتفاق انڈسٹری کے دور کا تعلق یاد دلاتے ہوئے تجدیدِ عہدِ وفا کی بات کرتے ہوئے کہہ دے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آگیا ہے تو پھر؟

اگر یہی نرگسیت کا مریض ڈاکٹر زمان پارک یا بنی گالا میں عمران خان کے برابر کی نشست پر بیٹھ کر پرہجوم پریس کانفرنس میں اعلان کردے کہ تبدیلی کی خواہاں قوتوں کو انتشار سے بچانے کے لیے وہ اپنی پاکستان عوامی تحریک کو تحریکِ انصاف میں ضم کررہا ہے تو پھر؟

اگر یہی مسلم جے سالک اسلام آباد کے کسی فارم ہاؤس پر مولانا فضل الرحمان سے ملے اور پھر مولانا ہنس مکھ کی موجودگی میں صحافیوں کے گھیرے میں اعلان کرے کہ ملک اس وقت جس نازک دوراہے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ سیاست بچانے کے بجائے ریاست بچانے کو ترجیح دی جائے چنانچہ تحریکِ منہاج القرآن اور جمیعت علمائے اسلام نے تمام دینی سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے جماعتِ اسلامی سمیت دیگر ہم خیال سیاسی جماعتوں سے ہنگامی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر؟

چلیے چھوڑئیے؟ اگر یہ کوئی امپورٹڈ مسخرہ ہے تو یہ بات اس امپورٹڈ مسخرے کو ہی کیوں کرنا پڑی کہ پاکستان کی جمہوریت عملاً ایک ایسا ایلیٹ کلب بن گئی ہے جس کی رکنیت صرف صنعتی، کاروباری، جاگیری، قبائلی سیاسی برہمن ہی حاصل کر سکتے ہیں؟ کروڑوں شودر صرف اس کلب کی عمارت حسرت سے ہی دیکھ سکتے ہیں؟

شاید یہ جملہ بے نظیر بھٹو کے منہ سے ہی سنا گیا تھا کہ پاکستان اور دہشت گردی، پاکستان اور انتہا پسندی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس کے بعد سے آج تک یہ جملہ ادھر ادھر، اگر مگر، چونکہ چنانچہ کے بغیر کسی سرکردہ رہنما کے منہ سے باآواز ِ بلند نہیں سنا گیا اور پھر یہ جملے ایک دہری شہریت والے نان پولیٹیکل فلاں فلاں کے منہ سے ہی ادا ہوئے۔ آخر بے نظیر بھٹو کے بعد سنگل شہریت والے کسی سیاسی ذخیرہ اندوز کے منہ سے یہ جملے کیوں نہ نکل پائے؟

بات شاید یہ ہے کہ جب کسی قوم کے خون میں انجیکٹ کیے جانے والے زہریلے مواد کے سبب جسم پر جگہ جگہ ابھرنے والے ہر پھوڑے کو ایک بنیادی بیماری کی نشانیاں سمجھنے کے بجائے ہر پھوڑے کو علیحدہ بیماری کے طور پر گنا جانے لگے تو ماہر سے ماہر اسپیشلسٹ بھی صحیح تشخیص نہیں کرسکتا چہ جائیکہ کوئی موثر علاج تجویز کرسکے۔

ایسے میں کوالیفائڈ ڈاکٹروں کے ہاتھوں کنگلا ہو جانے والا جاں بلب مریض ہر اس سنیاسی، نیم حکیم، پوشیدہ و غیر پوشیدہ امراض کے ماہر، عامل اور جھاڑ پھونکیے کی طرف بھاگنے میں حق بجانب ہے جو اسے زندگی کا جھانسہ دے سکے یا چٹکی بجاتے صحت مند کرنے کا خواب بیچ سکے اور مکمل طبی کورس خریدنے کی صورت میں سانڈے کا عزت بخش تیل اور معاشی سلاجیت بھی بطور بونس دینے کا وعدہ کرے۔

اور جب یہ سب ہو جائے تب پروفیشنل سیاسی معالجین کی ایسوسی ایشن اپنے گریبان میں جھانکنے اور فروغِ عطائیت کے اسباب تلاش کرنے کے بجائے شور مچا دے کہ علاج کے مقدس اصولوں کی پامالی روکی جائے، عطائیوں سے بچا جائے، ان کا پروفیشنل لائسنس، کوالیفکیشن اور ڈگریوں کی چھان پھٹک کی جائے، ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے، سادہ لوح مریضوں کو بتایا جائے کہ وہ علاج کے نام پر کیا زہر لے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ… مگر تب تک یہ باتیں کون سنے گا بھلا، کیوں سنے گا بھلا، کب تک سنے گا بھلا؟

کبھی اس پر بھی غور فرمانے کا وقت نکالیے کہ سیاسی جماعتوں کی سوچ کیا یہی رہنی چاہیے کہ صرف برسرِ اقتدار آ کر ہی عوامی مصائب میں کمی لائی جاسکتی ہے اور اقتدار سے باہر رہتے ہوئے سیاسی جماعتیں عوام کی کوئی ٹھوس مدد نہیں کرسکتیں۔ اگر منہاج ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت چھ سو چوالیس اسکول، کالج اور آئی ٹی سینٹرز میں ایک لاکھ سے زائد بچے پڑھ سکتے ہیں تو مسلم لیگ ن یا ق یا تحریکِ انصاف یا پیپلز پارٹی یا عوامی نیشنل پارٹی یا جمیعت علمائے اسلام یا ایم کیو ایم کی ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت اپنے اپنے زیرِ اثر لاکھوں ووٹوں کے حلقوں میں یہ ادارے بڑی تعداد میں کیوں نہیں بنائے جاسکتے؟

سیاسی جماعتوں میں صرف جماعتِ اسلامی ہی یہ کام زیادہ موثر طریقے اور پیمانے پر کیسے اور کس توقع پر کر رہی ہے؟ خود کو ملک گیر کہنے اور سمجھنے والی جماعتوں کا صحت اور تعلیم کے شعبے میں کام اتنا محدود کیوں ہے؟

مصر میں اخوان المسلمین کئی عشروں سے ملک گیر سطح پر یہ کام کیوں کر رہی تھی جب کہ اس کے اقتدار میں آنے کا بظاہر دور دور تک امکان بھی نہیں تھا۔ ترکی میں جو جماعت پچھلی تین میعادوں سے برسرِ اقتدار ہے وہ اس سے پہلے کی چھ میعادوں میں بغیر اقتدار ہاتھ میں آئے بھی سیاسی سے زیادہ فلاحی کاموں میں کس لیے مصروف تھی۔ یقیناً ہر ملک گیر اور علاقائی پاکستانی سیاسی جماعت کے پاس یہ سب کچھ سنجیدگی سے نہ کرنے کی وجوہات اور اپنی اپنی مجبوریوں کے بارے میں ایک سے ایک موثر دلائل ہوں گے مگر ان دلائل سے کیا اس کام اور جذبے کی کمی کا مداوا ہوجائے گا؟

اسلام آباد میں گذشتہ ہفتے جو کچھ ہوا اگر اس کے اسباب، اس میں شمولیت کرنے والوں کے مسائل، ذہنی ساخت اور نفسیات پر غور کرنے اور اسے عملی اقدامات کے ذریعے بتدریج غیرشعوری طور پر موڑنے کے تعمیری طریقوں پر غور کرنے کے بجائے صرف ایک سرکس اور مسخرہ ورائٹی شو کہہ کر ہنسی ٹھٹھول میں اڑا دیا جائے تو یہ بھی حقائق کا سامنا نا کرنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔آپ چاہیں تو یہ بھی فرض کرسکتے ہیں کہ جو کچا پکا، الٹا سیدھا تماشا چار دن ہوگیا ویسا اب عرصے تک نہیں ہوگا۔

مگر اگلی بار بہت جلد کسی اور جانب سے اس سے بھی زیادہ منصوبہ بند، موثر اور خطرناک سرکس سڑک پر آگیا تو پھر دیگر بازیگروں کا کیا ہوگا کالیا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔