لاشیں ہی لاشیں

ظہیر اختر بیدری  پير 21 جنوری 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ویسے تو پچھلے دس گیارہ سال سے ہی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور روز ہی جنازے اٹھ رہے ہیں اور نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے، لیکن پچھلے دنوں کوئٹہ کی علمدار روڈ پر 120 کے لگ بھگ بے گناہوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا اور ان مارے جانے والے بے گناہ لوگوں کے ورثاء نے 86 جنازوں کے ساتھ پانچ روز تک جو دھرنا دیا، اس کے بعد باڑہ میں اٹھارہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرکے ان کی لاشیں ورثاء کے حوالے کی گئیں اور ورثاء نے ان لاشوں کو گورنر ہاؤس پشاور کے سامنے رکھ کر جو احتجاج کیا اس کا سلسلہ اورنگی میں متحدہ کے ایک ایم پی اے منظر امام کے قتل کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

اس قتل عام کی اہمیت اس کے خطرناک مضمرات کا گہرائی سے جائزہ لے کر اس کی روک تھام کے لیے ایک قومی پالیسی بنانے کے بجائے یا تو غیر منصوبہ بند جوابی اقدامات کیے جارہے ہیں یا پھر مذمتی بیانات یا ہدایتی احکامات سے کام چلایا جارہا ہے۔ متحدہ کے ایم پی اے کے قتل کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دہشت گردوں کی معروف تنظیم نے یہ اعلان کیا ہے کہ متحدہ کے خلاف ہم نے اپنی کارروائیوں کا آغاز منظر امام کے قتل سے کردیا ہے، اب تک سیکڑوں دہشت گرد پکڑے جاچکے ہیں لیکن میڈیا میں کسی دہشت گرد کو دی جانے والی کسی سزا کی ہم نے کوئی خبر نہیں دیکھی۔ آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو ٹی وی پر کوئٹہ کے ایک اسکول کے پرنسپل اور ان کے 2 سالہ بیٹے کی ٹارگٹ کلنگ کی پٹیاں چل رہی ہیں۔ دہشت گردوں کی گرفتاریوں اور ان سے اسلحہ برآمد ہونے کی تازہ خبریں آرہی ہیں۔

آج سے کچھ ہی دن پہلے خیبر پختونخوا حکومت کے سینئر وزیر اور پختون رہنما بشیر بلور کی ان کے ساتھیوں سمیت ٹارگٹ کلنگ ایک سوالیہ نشان بنی ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ دہشت گردی، خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں اور ٹائم بموں کے ذریعے بے گناہ انسانوں کے قتل عام کا یہ سلسلہ ایک عشرے سے جاری ہے لیکن ہمارا حکمران طبقہ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت اس قتل عام کے خطرناک مضمرات سے آنکھیں بند کیے انتہائی بے شرمی سے انتخابی گٹھ جوڑ، اقتدار حاصل کرنے کی مجنونانہ خواہش کے ساتھ مئی 2013 کے ممکنہ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے اور وہ تمام سیاسی اور مذہبی اکابرین جن کے سیاسی مفادات مختلف ہی نہیں بلکہ متصادم ہیں جاتی عمرہ کے محلوں میں بیٹھ کر جمہوریت کو بچانے اور بلاتاخیر انتخابات کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتخابات کے نتیجے میں کوئی ایک مخلوط اور کمزور حکومت قائم ہوتی ہے تو کیا وہ دہشت گردی کے اس خوفناک عفریت کو ختم کرنے کی اہل ہوسکتی ہے؟ اس ممکنہ طور پر بننے والی حکومت کے ’’استحکام ‘‘ کا اندازہ میں ٹی وی پر دکھائی جانے والی اس رپورٹ سے جس میں ہماری روحانی پیشوا پیر پگارا کی نواز شریف سے ملاقات اور ان دونوں اکابرین کی زرداری کے خلاف نفرت آلود تقریروں سے کر رہا ہوں۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نبیل گبول کی نواز شریف سے ملاقات اور بڑی پارٹیوں میں موقع پرست سیاستدانوں کی شمولیت سے انتخابی سیاست کا اندازہ ہورہا ہے۔

اس 35 سال سے جاری ذاتی خاندانی اور جماعتی مفادات کی سیاست کے خلاف جب ایک سر پھرا مولوی عوام کا ہجوم لے کر نکلا تو ہمارے متصادم مفادات کے اکابرین اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ اپنے پیشہ ورانہ اختلافات کو بھلاکر اس مولوی کے خلاف متحد ہوگئے جو اس خاندانی سیاست اور خاندانی حکومتوں کے کلچر کو روکنے کے لیے چند آئینی دفعات اور چند انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کر رہا تھا اور اس مطالبے کے پیچھے لاکھوں مرد، خواتین، بچے اور بوڑھوں پر مشتمل لانگ مارچ کے شراکت داروں اور 18 کروڑ انسانوں کی خواہشیں اور دعائیں موجود تھیں۔

میں حیران ہوں کہ انسان جسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے اس قدر سنگ دل ،اور بے حس ہوسکتا ہے کہ ہزاروں انسانی لاشوں کو روندتا ہوا صرف اور صرف اقتدار کا اسیر ہوکر ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کی طرف بھاگا چلا جارہا ہے؟ میں حیرانی سے سوچ رہا ہوں کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی اکابرین کیا دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے طوفان سے ناآشنا ہیں یا اپنی اقتداری بھوک کی خاطر اس ملک کے مستقبل پر منڈلانے والے ان سیاہ بادلوں کے مضمرات اور خطرات کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں جو بے گناہ انسانوں کو بسوں سے اتار کر لائن میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون رہا ہے۔ معصوم بچوں کے پیٹ پر بارودی جیکٹیں باندھ کر انھیں جنت میں بھجوا رہا ہے، خود سیاستدانوں کے جلسوں جلوسوں پر خودکش حملے کرکے ان کا قتل عام کر رہا ہے، فقہی اختلافات کو بنیاد بناکر مسجدوں اور نمازیوں پر حملے کر رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کو یہ نوید دے رہا ہے کہ ’’ہم نے تمہارے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔‘‘

کراچی سمیت پورا سندھ منظر امام کے سوگ میں بند رہا، سڑکیں اور بازار سنسان رہے، تعلیمی ادارے بند رہے، امتحانات ملتوی کیے گئے، پشاور سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی تک گریہ و زاری کا طوفان برپا تھا ۔آج ہر شخص سہما ہوا ہے کوئی نہ اپنے ـآپ کو گھر کے اندر محفوظ دیکھ رہا ہے نہ گھر کے باہر۔ دہشت گرد مضافاتی بستیوں میں اپنے مورچے بنا رہے ہیں اور ہمارے سیاستدان اپنے غلیظ مفادات کی خاطر، زبان ،نسل بلدیاتی نظام کے حوالوں سے عوام کو تقسیم کرنے اور عوام میں نفرتیں پھیلانے کی شرمناک کوششوں میں مصروف ہیں۔

امریکا ایک سامراجی ملک ہے اور اس کے اتحادی سامراجی مفادات کے تحفظ میں اس کے ساتھ ہیں لیکن جس طرح ہمارے سیاسی اور مذہبی اکابرین انتخابات اور جمہوریت کو ’’عوامی خواہشات اور عوامی مطالبات کی مسموم ہواؤں‘‘ سے بچانے کے لیے متحد ہیں اسی طرح امریکا اور اس کے اتحادی اپنے ملکوں کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے متحد ہیں۔ دہشت گردی اب افغانستان کے پہاڑوں سے نکل کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ملکوں تک پہنچ گئی ہے۔ دہشت گردوں نے مالی کے ایک صوبے کو جس کا رقبہ فرانس سے بڑا ہے اپنا بیس کیمپ بنالیا ہے۔ یہاں سے وہ مغربی ملکوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ مالی کی حکومت دہشت گردوں سے بچاؤ کی آوازیں لگا رہی ہے اور فرانس مالی کی حکومت کی چیخ وپکار پر کان دھرتے ہوئے مالی میں دہشت گردوں کے بیس کیمپ پر شدید بمباری کر رہا ہے۔

پینٹا گون کے کرتا دھرتا اور افریقہ میں امریکی کمانڈر جنرل کارٹر ہیم سر جوڑ کر بیٹھے افریقہ میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ مالی امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ سے بہت دور ہے، لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ دہشت گردوں کو یہیں نہ روکا گیا تو وہ مغربی ملکوں پر حملہ کرسکتے ہیں۔ افریقی ملکوں میں مغربی شہریوں کو اغواء کرکے بھاری تاوان وصول کیا جارہا ہے۔ یہ ساری وارداتیں مغربی ملکوں سے ابھی دور ہیں لیکن مغربی ملک اس خطرے کو قریب آنے سے روکنے کی تدابیر کر رہے ہیں۔ یہ خطرہ پاکستان میں خیبر سے کراچی تک نہ صرف پہنچ گیا ہے بلکہ اپنی حشر سامانیوں کا ہر روز عملی مظاہرہ بھی کر رہا ہے اور ہمارے اکابرین جمہوریت کی حفاظت میں مرے جارہے ہیں کیا ہم اسے نااہلی کہیں یا بددیانتی اور قومی جرم؟

امریکا کے سامراجی کردار کی ہم ہی نہیں ساری دنیا خلاف ہے لیکن امریکا دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے ہم کس طرح اس کی مخالفت کرسکتے ہیں۔ امریکا ہی نہیں چین، روس، بھارت، انڈونیشیا، ملائیشیا سمیت کئی ممالک دہشت گردی کے خطرے سے خوفزدہ ہیں اور اس حوالے سے مغربی ملکوں کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ ان ملکوں کو ابھی تک دہشت گردی کا سامنا ہی نہیں ہے، پاکستان سر سے پیر تک دہشت گردی کے خون میں نہایا کھڑا ہے اور ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ہے یا امریکا کی؟ ہم ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے دے رہے ہیں احتجاج کر رہے ہیں لیکن ہماری نظریںقدم قدم پر پڑی ہوئی ان لاشوں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں جو دہشت گرد ہماری سڑکوں اور گلیوں میں بچھا رہے ہیں۔

ہماری فوج کہہ رہی ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اس لیے کہ اس کے ہزاروں جوان دہشت گردی کی نظر ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں، لیکن ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت اس مسئلے کو سب سے بڑا قومی مسئلہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور انتخابات اور جمہوریت کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ کہہ رہی ہے جب کہ دہشت گرد جمہوریت، جمہوری سیاست، قانون ساز اداروں اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو کفر کی علامات کہہ رہے ہیں، اے جمہوریت اور اقتدار کے متوالو! اگر تم بچوگے تو ہی جمہوریت اور اقتدار کے مزے لوٹو گے نا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔