صوبہ بہاولپور ہی کافی ہے

غلام محی الدین  پير 21 جنوری 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

پنجاب کے نئے گورنر مخدوم احمد محمود کی جانب سے بہاولپور صوبہ کے قیام کے لیے بل پارلیمنٹ میں لانے کے ارادے کو پیپلزپارٹی کے اس دور حکومت میں سامنے آنے والے اُن چند ایک ارادوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جسے ہر ذی ہوش مثبت قرار دے گا۔ گورنر جنوبی پنجاب سے پیپلزپارٹی کے لیے سیاسی کمک بہم پہنچانے کا باعث بنے ہیں، اس لیے یہی سمجھا جانا چاہیے کہ اس فیصلے کو پیپلزپارٹی کی قیادت کی حمایت حاصل ہو گی۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی پی پی پی کی قیادت اس فیصلے پر مخالفانہ رد عمل کا اظہار کر رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کی مزاحمت کی جائے گی۔

ان کے خیال میں وہ سرائیکی صوبہ یا سرائیکستان کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لہٰذا بہاولپور صوبے کی حمایت نہیں کریں گے۔ ن لیگ کے صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ہم دو صوبے بنائیں گے، یعنی بہاولپور اور سرائیکی صوبہ۔ شاید انھوں نے یہ بات اس لیے کہی ہو کہ کہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا موقف ایک نہ سمجھ لیا جائے۔ اگر یہ سب سنجیدگی سے کہا سُنا جا رہا ہے پھر تو سیاسی قوتیں عام اعلان کر دیں کہ ’’ جس کسی نے صوبہ بنوانا ہو ہم سے رجوع کریں‘‘۔ اگر آپ کو کہیں سے سیاسی حمایت کی اُمید ہو تو آپ کسی بھی مطالبے کو اپنی حمایت کی بیساکھیاں فراہم کر دیں گے۔ پنجاب کے اندر نئے صوبے کے قیام سے متعلق معاملات کو دیکھیں تو صرف نقطہ اختلاف یہی نظر آتا ہے کہ صوبے کا نام سرائیکستان ہونا چاہیے نہ کہ بہاولپور یا کچھ اور۔

حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب پر مشتمل سرائیکی بولنے والوں کے علاقے پنجاب میں سب سے زیادہ پسماندہ علاقے ہیں۔ ان علاقوں کی پسماندگی کثیر جہتی ہے۔ اپنے ماحول اور وسائل کے حوالے سے تو یہ علاقے ویسے ہی خسارے میں ہیں اس پر ستم یہ کہ ملک کے پسماندہ حصوں کو ریاست کی جانب سے جس خصوصی توجہ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان علاقوں کو کبھی حاصل نہیں ہوئی اور یوں پنجاب کے تمام وسائل اور وفاق کی جانب سے حاصل ہونے والے فنڈز کا زیادہ تر حصہ پنجاب کے مخصوص پسندیدہ مقامات پر صرف ہو جانے کے باعث‘ ترقی کے تقابل نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔

یوں احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ سرائیکی علاقوں کے مسائل کی نوعیت انتظامی ہے۔ اس کے باوجود کہ سرائیکی علاقوں کی سیاسی شخصیات کی مرکز اور پنجاب کے اقتدار میں ہمیشہ شراکت داری رہی لیکن ان علاقوں کی قسمت نہیں بدلی۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی تاریخ دکھائیں تو جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی شخصیات انتہائی بااثر رہی ہیں۔ مشتاق گرمانی مغربی پاکستان کے گورنر رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہے۔

بھٹو کے دور میںہی سجاد حسین قریشی بھی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔ان کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے تھا۔ ضیاء الحق کے دور میں شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد قریشی طویل عرصہ تک پنجاب کے گورنر رہے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور کر لیں کہ سرائیکی علاقوں کی پسماندگی میں بااختیار حیثیت حاصل کرنے والی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بدنیتی شامل نہیں رہی تو پھر بھی یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ یہ معاملہ انتظامی اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے جب کہ سرائیکی صوبہ کے قیام کی تحریک سے منسلک سیاستدان اسے مسلسل زبان کے تناظر میں دیکھنے پر بضد رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آیا سرائیکی زبان جنوبی پنجاب کے لوگوں کو پسماندہ رکھنے کی وجہ بنی ہے یا مقتدر حلقوں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ جس جس کی مادری زبان سرائیکی ہو گی اسے خوشحالی سے دور رکھا جائے گا۔ سرائیکی علاقوں میں دیگر زبانیں بولنے والوں اور دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی انھی مسائل اور مصائب کا سامنا ہے، جو سرائیکی بولنے والے سہتے ہیں۔ ایک صحرا کا دریا کے کنارے پر واقع زمین سے تقابل نہیں کیا جا سکتا دونوں کی الگ الگ خصوصیات ہوتی ہیں۔

دوسری جانب سرائیکی علاقوں سے شمالی پنجاب یا ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں میں آباد ہونے والے لوگوں کو ان علاقوں کے وہ تمام فوائد اور آسانیاں حاصل ہوتی ہیں جن سے یہاں رہنے والے دوسرے لوگ پہلے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں ملک کے کسی بھی حصے سے آ کر آباد ہونے والے لوگوں کے ساتھ کبھی تعصب نہیں برتا جاتا۔ اسی طرح اگر ملک کے کسی ترقی یافتہ علاقے سے کوئی شخص پسماندہ علاقے میں ہجرت کر جائے تو اسے انھی مسائل کا سامنا کرنا ہو گا جن سے وہاں کے لوگ پہلے سے نبرد آزما ہیں۔

یہ سراسر احمقانہ بات ہو گی کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو ملنے والے فائدے کی اس بنیاد پر مخالفت شروع کر دی جائے کہ یہ فائدہ انتظامی بنیادوں پر نہیں زبان کی بنیاد پر ملنا چاہیے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سرائیکی علاقے کے مختلف حصوں میں چار بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تحصیل بہاولپور اور احمد پور شرقیہ میں بولی جانے والی زبان ’ریاستی‘ کہلاتی ہے جو پنجابی‘ راجستھانی اور ملتانی (سرائیکی) کا ملغوبہ ہے ’ماجھی یا مالوی‘ حاصل پور‘ یزمان‘ خیر پور‘ ٹامیاوالی اور شہری علاقوں میں بولی جانے جاتی ہے۔ صحرائی علاقے کی زبان مارواڑی ہے جو پنجاب اور راجستھانی زبانوں کا مرکب ہے۔ اس طرح شہروں میں ہریانوی زبان بولنے والے بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں یہ زبان پنجابی، گوجری اور اردو کا مرکب ہے۔ اسی طرح کم تعداد میں بلوچی بولنے والے بھی موجود ہیں۔

دوسرا اہم سوال ان علاقوں کا ہو سکتا ہے جنھیں نئے صوبے میں شامل ہونا ہے۔

سرائیکی تحریک جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اور پلوچستان کے کچھ علاقوں کو بھی نئے صوبے میں شامل کرنے کی حامی ہے لیکن یہاں پر بھی ایسا کرنے کی بنیاد اس اصول کو بنانا ہو گا کہ ان علاقوں کی شمولیت سے آیا وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں قابل ذکر بہتری آنے کی امید ہے یا نہیں۔ نئے صوبوں کا قیام کھیل تماشا نہیں بلکہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی گروہوں کو خوش کرنے کے لیے صوبے نہیں بنائے جا سکتے۔ جنوبی پنجاب پر مشتمل اگر کوئی صوبہ وجود میں آنے والا ہے‘ یا سیاسی قوتیں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو اس کی بنیاد صرف اور صرف لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی ہونی چاہیے۔ اگر زبان و ثقافت کا معمولی سا فرق نئے صوبوں کی بنیاد قرار دے دیا جائے تو پھر دس بارہ صوبے تو بن ہی جائیں گے۔ موجودہ حالات میں بہترین حل یہی ہے کہ ریاست بہاولپور کو ملک کے نئے صوبے کے طور پر بحال کر دیا جائے اور انتظامی مستعدی کو یقینی بنانے کے لیے اُن پسماندہ علاقوں کو بھی نئے صوبے میں شامل کر دیا جائے جو اپنی موجودہ حیثیت میں ترقی کے ثمرات سے محروم چلے آ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔