بلدیہ عظمیٰ ہرنوں کی ہلاکتوں کو روکنےمیں ناکام، کمیٹی میں2 ڈاکٹرزشامل کرنےکا فیصلہ

اسٹاف رپورٹر  منگل 22 جنوری 2013
ہرنوں کی اموات کی وجوہات جاننے کیلیے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کرائے گئے، رپورٹ حاصل ہوتے ہی مزید اقدامات کریں گے۔(فوٹو : شاہد علی / ایکسپریس)

ہرنوں کی اموات کی وجوہات جاننے کیلیے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کرائے گئے، رپورٹ حاصل ہوتے ہی مزید اقدامات کریں گے۔(فوٹو : شاہد علی / ایکسپریس)

کراچی: بلدیہ عظمیٰ کی انتظامیہ تاحال تسلسل کے ساتھ کراچی چڑیا گھر میں ہرنوں کی ہلاکت کاسبب اور ان کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے۔

جس کے بعد اس نے قائم کردہ کمیٹی کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر  عدم اطمینان اور عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس کمیٹی میں سندھ حکومت کے2نئے ڈاکٹر شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ بات چیف آفیسر بلدیہ عظمیٰ کراچی متانت علی خان نے کراچی زو کے متعلق ہونے والے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی، اس اجلاس میں سینئر ڈائریکٹر اسپورٹس کلچر اینڈ ریکریشن محمد ریحان خان، ڈائریکٹر زو بشیر سدوزئی، ڈاکٹر کاظم، ڈاکٹر اعظم ، ڈاکٹر عامر کے علاوہ دیگر افسران بھی موجود تھے، انھوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں چڑیا گھر میں ہرنوں کی اموات کی وجوہات جاننے کیلیے مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کرائے گئے۔

جس کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ موجودہ سرد موسم کی وجہ سے وائرل ا نفیکشن ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر سبزہ کھانے والے جانوروں میں ہوتا ہے جس میں خوراک، ماحول، صفائی ستھرائی اور پانی اس کی وجوہات ہوتی ہیں، انھوں نے کہا کہ فوری طور پر جانوروں کو حفاظتی ادویات فراہم کردی گئی ہیں اور ویکسینیشن بھی کردی گئی ہیں، خوراک اور پانی کے لیبارٹری ٹیسٹ کرائے جارہے ہیں اس کی رپورٹ حاصل ہوتے ہی مزید اقدامات کیے جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ پرائیوٹ سطح پر ٹیسٹ کرانے سے یہ نتائج حاصل ہوئے ہیں کہ ان ہلاک ہونے والے جانوروں کو مختلف بیکٹیریا کی وجہ سے عارضے لاحق ہوئے جو عموماً سرد موسم میں ہوسکتے ہیں اور کراچی کے مضافاتی علاقوں میں سبزہ کھانے والے جانوروں میں بھی وائرل انفیکشن کی علامات پائی گئی ہیں، انھوں نے کہا کہ سینٹرل ویٹنری ڈائیگنوسٹک لیبارٹری حکومت سندھ کو بھی ہلاک ہونے والے ہرنوں کے خون کے نمونے بھیجے جاچکے ہیں ان کی رپورٹ کا انتظار ہے اور ہفتہ وار جانوروں کی صحت، خوراک، پانی اور ادویات کو چیک کیا جائے گا، واضح رہے کہ کراچی چریا گھر میں 12سے زائد ہرن ہلاک ہوچکے ہیں اور مزید ہرنوں کی ہلاکت کا بھی امکان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔