ہمارا کیا بنے گا

عبدالقادر حسن  جمعرات 4 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اداروں میں بد انتظامی اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ عوام کو سہولیات تو کیا ان کے جائز حقوق بھی فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور عوام اپنے جائز حق کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں ۔

انتظامیہ کے اس بحران کے بارے میں بارہا لکھ چکا ہوں اور ایک بار پھر اس بات کا رونا رو رہا ہوں۔ انتظامیہ کے اس بحران کے بارے میں ہماری حکومت بالکل لا تعلق ہو چکی ہے جس کی وجہ سے عوامی بے چینی اور انتشار بڑھتا جا رہا ہے، خطرہ ہے کہ ایک وقت آئے گا یہ کسی بہت بڑے بحران میں تبدیل ہو جائے گا جس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا اور ہم اس وقت کو روئیں گے لیکن اس وقت کو کون روئے گا کیونکہ اس طرح کے حالات میں ہمارے لیڈر حضرات جن کا عوام کی مشکلات دور کرنے سے کوئی تعلق نہیں وہ تو کہیں دوسرے ملک میں ہوں گے اور ہم خود ہی اپنے جگر کو پیٹ رہے ہوں گے قہر درویش برجان درویش۔ اگر ملک کے اداروں کی انتظامیہ درست کام کر رہی ہو تو حق ہے کہ حکمران چین کی بانسری بجائیں لیکن یہاں تو حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ حکمران نہ تو خود سکون میں ہیں اور نہ ہی عوام کو چین سے رہنے دیتے ہیں بلکہ عوام پر اس طرح کی انتظامیہ مسلط کر دی گئی ہے جو کہ ان کے دکھوں میں مزید اضافے کا موجب بن رہی ہے۔

میری اس ساری تمہید کا مطلب میرے ساتھ بیتنے والے ایک واقعہ سے ہے جس کا شکار میں پچھلے سال بھی ہوا اور اب دوبارہ اسی سوراخ سے ایک بار پھر ڈسا جا رہا ہوں۔ میں کرائے کے جس مکان میں رہتا ہوں وہ لاہور کے ایک نسبتاً بہتر علاقے ڈیفنس میں ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ جہاں سے ہمیں بجلی کے بلوں کی مد میں پوری قیمت وصول ہو رہی ہے وہاں پر لوڈشیڈنگ نہیں کی جا رہی یا نہ ہونے کے برابر ہے لیکن صورتحال اس طرح نہیں جیسی کہ بیان کی جا رہی ہے بلکہ لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں اور میٹروں میں ہیرا پھیری کے واقعات بھی زبان زد عام ہیں اور میں بھی پچھلی گرمیوں کی طرح اس سال موسم کی گرمی کے آغاز میں‘ میں بھی ایک بد انتظامی کا شکار ہو گیا ہوں۔

پچھلے سال مجھے ڈیڑھ لاکھ سے زائد کا بجلی کا بل بجھوا دیا گیا جو کہ سرا سر ادارے کی غلطی تھی اور مجھے بتایا گیا کہ میٹر ریڈر کی نااہلی کی وجہ سے آپ کا میٹر جو کہ خراب ہو چکا تھا اس کو ایک سال اور چند ماہ بعد تبدیل کیا گیا اور اس سلسلے میں ہم نے متعلقہ اہلکار کے خلاف محکمانہ کارروائی کی لیکن آپ کو اس سلسلے میں کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی، میں نے چاروناچار مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق تین قسطوں میں بل کی ادائیگی کر دی کیونکہ اس عمر میں ان بنیادی ضرورتوں کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن ہو چکا ہے اور ہمارا تو دال دلیہ اسی روشنی سے چلتا ہے کہ روشنی نہ ہوگی تو لکھیں گے کیسے اور عوام کی بات حکمرانوں تک کیسے پہنچائیں گے جس کی وقعت آجکل کے حکمرانوں کے لیے ’’بے وقعت‘‘ ہو چکی ہے اور وہ عوام کی بات سننے سے بے زار ہو چکے ہیں۔

میں جو کہ حکومتی بلوں سے ڈرتا ہوں اور جب یہ گھر پہنچتے ہیں تو ان کو ایک طرف رکھوا دیتا ہوں اس دوران اپنے آپ میں ان پر درج رقم پڑھنے کی ہمت پیدا کرتا ہوں اورکیونکہ ان پر درج رقم یعنی اصل استعمال کے علاوہ بے تحاشہ حکومتی ٹیکسوں کی بھر مار ہوتی ہے اور ہم ان کو ادا کرنے کے پابند ہیں تا کہ ہمارے ٹیکسوں سے حکمرانوں کی عیاشیاں جاری و ساری رہیں۔ بات اداروں کی بدانتظامی کی ہو رہی تھی اس ماہ کا بل جو مجھے موصول ہوا وہ اتنا زیادہ تھا کہ میں مجبور ہو گیا اور اپنے علاقہ کے بجلی دفتر پہنچ گیا وہاں پر موجود اہلکاروں کو شاید میرے حالات اور دکھ بھری داستان پر رحم آگیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پچھلے سال بھی میری ساتھ واردات ہو چکی ہے ۔

انھوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرے گھر کے دورے کی حامی بھر لی اور میں نے جس مایوسی کی حالت میں بجلی دفتر کا رخ کیا تھا اس فوری کارروائی سے کچھ اطمینان محسوس کیا لیکن بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ جب میرے گھر کے تمام آلات بند کرانے کے بعد بھی میٹر چلتا رہا تو میرے ساتھ لیسکو کے اہلکار بھی پریشان ہو گئے  اس موقع پر ایک نوجوان جو کہ اس کارروائی کے لیے وہاں موجود تھا اس نے کھمبے پر لگے دیگر میٹر کو چیک کرنے کو بھی کہا تو عقدہ کھلا کہ میرے میٹر کو کوئی اور استعمال کر رہا ہے اور ان کا بل نہ جانے کب سے یہ ناچیز بھر رہا ہے۔ قصہ کوتاہ کہ لیسکو ڈیفنس کے نوجوان ایس ڈی او نے میری درخواست پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے اور اس واقعہ کی چھان بین شروع کر دی ہے کہ کس کی ملی بھگت سے میں یہ ظلم برداشت کر رہا ہوں اور میں’’ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کے انتظار میں ہوں کہ میری دادرسی کب ہو گی کیونکہ زائد بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے میری بجلی کاٹی جا سکتی ہے جس کا میں اس عمر میں متحمل نہیں ہو سکتا۔

بات بد انتظامی سے شروع ہوئی تھی اور یہ ایک ہلکا سا نمونہ ہے جو کہ خود میرے ساتھ بیتا ہے، میںذاتی بات کے لیے قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ ان کو میری یہ ذاتی شکایات پڑھنی پڑ رہی ہیں لیکن مجھے یہ خوش فہمی ہے کہ شاید میری معروضات پڑھ کر افسران بالاء کے کانوں پر جوں ہی رینگ جائے کیونکہ ہم پُرانے وقتوں کے لوگ تو واپڈا کے عادی تھے اور ہر کام کے لیے واپڈا کے تعلقات عامہ کا ہی سہارا لیتے تھے اب نہ جانے ان نئی وجود میں آنے والی کمپنیوں میں کون براجمان ہے ۔ اس نئی دنیا میں ان بڑے اداروں کے حصے بخرے کر دئے گئے جس کا بنیادی مقصد ان کی کارکردگی میں بہتری لانا تھا میرا تو یہ خیال ہے کہ ان کی کارکردگی میں بہتری کے بجائے ابتری آئی ہے اور افسران کی فوج ظفر موج میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔بات عوام کو سہولیات کی فراہمی کی ہے نہ کہ ان سے جینے کا حق ہی چھین لیا جائے اور ان کو اس بات پر مجبور کر دیا جائے کہ وہ حکمرانوں کے منہ کا نوالہ ہی چھین لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔