سیاسی عمل کی بقا کے لیے

مقتدا منصور  جمعرات 4 مئ 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ کئی مہینوں سے ریاست کے ایوانوں اور سیاست کے میدانوں میں جو کھینچا تانی چل رہی ہے۔ وہ اس بات کی مظہر ہے کہ ریاست ابھی حکمرانی کی اس منزل تک نہیں پہنچی جسے بلوغت کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ ہو یا نیوز لیکس پر شروع ہونے والا تنازع ، ریاست کے انتظامی ڈھانچے میں بڑھتی ہوئی فرسودگی کے نتیجے میں پیدا ہوتے تضادات  ناپسندیدہ انداز میں ظاہر ہو رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جس طرح املی کا پودا 30برس بعددرخت بن کر پھل دینے کے قابل ہوتا ہے، اسی طرح سیاسی فیصلوں کے نتائج بھی تین سے چار دہائیوں بعد سامنے آنا شروع ہوتے ہیں۔ اس لیے ان دو واقعات کو زیر بحث لانے کے بجائے ان عوامل پرگفتگو کی جائے، جو اس قسم کے تضادات کو گہرا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

ملک کے متوشش شہری اور سول سوسائٹی کی خواہش ہے کہ پاکستانی ریاست عالمی طور پر تسلیم کردہ جمہوری اصول و ضوابط کے مطابق چلائی جائے۔ جہاں تمام ریاستی ادارے منتخب حکومت کو جوابدہ ہوتے ہیں، لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے منتخب سیاسی جماعتوں پر بھی بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جمہوری عمل کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان کو مضبوط بنایا جائے ۔ تمام فیصلے کابینہ کے اجلاس میں طے کرنے کے بعد ان کی پارلیمان سے منظوری لی جائے۔ وزیراعظم اور دیگر وزرا پارلیمان میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں اور اٹھنے والے سوالات کا جواب دیں۔ قانون کی حاکمیت(Rule of Law)کو یقینی بنایا جائے۔ تمام منصوبے اور فیصلے شفاف اور میرٹ پر کیے جائیں۔

لیکن کیا پاکستان میں ان اصول و ضوابط پر عمل ہو رہاہے؟تو جواب نفی میں آئے گا۔ کیونکہ ہماری سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ(ن) نے کبھی پارلیمان کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ بلکہ اقتدار میں آتے ہی من مانے فیصلے شروع کردیتی ہے۔ حد یہ ہے کہ ہمارے یہاں کابینہ کی ماہانہ میٹنگوں تک کا کلچر نہیں ہے بلکہ عام یا اہم دونوں طرح کے فیصلے اپنے مخصوص حلقے میں کیے جاتے ہیں۔ کابینہ کے کئی وزرا ایسے بھی ہیں، جن کی اپنے وزیراعظم سے کئی کئی ماہ ملاقات نہیں ہو پاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکمران جماعت اقتدار میں آنے کے بعد ایک طرف پارلیمان سے دور تو دوسری طرف اپنی ووٹر سے کٹ جاتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2013میں ایک منتخب حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور پر امن طریقے سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ یہ عمل قیام پاکستان کے 66 ویں برس میں ممکن ہوسکا۔ لازمی بات ہے کہ اس عمل کے تسلسل کے لیے کم ازکم تین سے چار عام انتخابات ضروری ہیں۔ اس دوران سیاسی جماعتوں کو اچھی حکمرانی کے ذریعے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ جس کے لیے استعداد سازی پر توجہ دینا ضروری ہے۔ ساتھ ہی طاقتور ریاستی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ کیونکہ پاکستانی سیاست گزشتہ70برسوں کے دوران ارتقائی عمل سے گذر کر آگے بڑھنے کے بجائے مسلسل انتشار کا شکار رہی ہے۔ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں سیاسی نظریات کی بنیادوں پر منظم ہونے کے بجائے مفادات کے حصول کی آماج گاہ  بن گئیں۔

اس صورتحال کا دوسرا سبب یہ رہا کہ ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہر آمر نے اپنی پسند کی سیاسی جماعت تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے مسلم لیگ کو تختہ مشق بنایا گیا، لیکن ہمیں تھوڑا سے پیچھے بھی جانا چاہیے۔ ملک کے سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا عمل ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے شروع کیا۔انھوں نے سیاسی جماعتوں سے موقع پرست سیاستدانوں کو توڑکر ری پبلکن پارٹی بنائی، جس نے بعد میں آنے والے آمروں کو اپنی پسند کی جماعت تشکیل دینے کی ترغیب دی۔ لہٰذا اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر موجود بیشتر سیاسی جماعتیں ایسی ہیں، جنہوں نے آمریت کے بطن سے جنم لیا ہے۔

ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں عوام کے تمام طبقات کی نمایندہ اور ان کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہوتی ہیں۔ ان میں نیا کیڈر طلبہ تنظیموں، ٹریڈ یونینوں اور پروفیشنل باڈیز سے آتا ہے۔ پاکستان کی ابتدائی دو دہائیوں پر نظر ڈالیں تو سیاست کی سمت کا تعین کرنے میں طلبہ تنظیموں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک ہو یا صوبوں کی بحالی کی جدوجہد، 1970کے عشرے تک طلبہ ہراول دستے کے طور پر سامنے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مزدور حقوق کی جدوجہد اور جمہوریت کی بحالی کے عمل میں ٹریڈ یونینوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔

پاکستان میں سیاسی عمل کو کسی ریاستی ادارے سے زیادہ خود مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ جنہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان کی عددی اکثریت اور وہاں سے آنے والی مڈل کلاس سیاسی قیادت سے خوفزدہ ہوکر بیوروکریسی کے دامن میں پناہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بنگال اور سندھ سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت ملک کو ایک حقیقی وفاقی جمہوریہ بنانے کی خواہش مند تھی۔ جب کہ پنجاب اور ہجرت کرکے آنے والی قیادتیں اور بیوروکریسی مضبوط مرکز کی حامی تھیں۔ اسی تضاد کا نتیجہ تھا کہ آئین سازی میں تاخیر ہوئی اور بیوروکریسی کو من مانیوں کا موقع ملا۔ باہمی اختلافات اور تضادات کا یہ نتیجہ نکلا کہ دستور ساز اسمبلی قیام پاکستان کے بعد1954تک کسی دستوری مسودے پر متفق نہیں ہوسکی۔

لیکن اس مسودے منظوری سے قبل دستور ساز اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ جس کے خلاف بنگالی قیادت متحرک ہوئی اور عدالت کا دروازہ کھڑ کھڑایا، مگر مغربی پاکستان کے چند ایک سیاستدانوں کے رسمی بیانات کو چھوڑ کر کوئی بڑی تحریک منظم نہیں ہوسکی۔ یہیں سے ملک میں سیاسی عمل کو کمزور کرنے کا عملی سلسلہ شروع ہوا۔ اسی طرح 1970 کے عام انتخابات کے بعد جب جنرل یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے میں آنا کانی شروع کی، تو عبدالولی خان مرحوم، میر غوث بخش بزنجو مرحوم اور ائیر مارشل اصغر خان کے علاوہ کوئی اور بڑی آواز ایسی نہیں تھی، جو عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق حکمرانی کی حمایت آواز اٹھاتی۔ اسی رویے کی وجہ سے یحییٰ خان کے ٹولے کو مشرقی پاکستان میں غیر ذمے دارانہ آپریشن کرنے کا موقع ملا۔جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔

اب دوسری طرف آئیے۔پاکستان میں دیدہ اور نادیدہ حکومتوں کا تصور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ اس سلسلے میںمعروف دانشور حمزہ علوی مرحوم لکھتے ہیں کہ پاکستان میں روز اول ہی سے دو متوازی حکومتیں قائم ہوگئی تھیں۔ ایک بظاہر نظر آنے والی سیاسی حکومت ، جس کی قیادت لیاقت علی خان مرحوم کررہے تھے۔ جب کہ چوہدری محمد علی کی سربراہی میں ریاستی منصوبہ بندی اورفیصلہ سازی پر بیورو کریسی حاوی ہوچکی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگی قیادت کے فکری، نظریاتی اور طبقاتی اختلافات قیام پاکستان کے بعد زیادہ کھل کر سامنے آگئے تھے۔

لہٰذا غیر سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کی منصوبہ سازی پر بالادستی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ جب سیاسی جماعتیں ، سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ نہیں کرتیں اور ریاستی اداروں پہ تکیہ کرنے لگتی ہیں، تو ریاستی ادارے نظم حکمرانی پر حاوی آجاتے ہیں۔ ابتدائی 23برسوں کے دوران جو کچھ ہوا، وہ اپنی جگہ  لیکن سیاسی جماعتیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اگر اپنا طرز عمل تبدیل کر لیتیں، تو ملک کو جمہوری انداز میں چلانے کی راہ ہموار ہوسکتی تھی، مگر اس موقعے کو بھی پیپلز پارٹی اورPNA میں شامل جماعتیں بروقت حل نہ کرسکیں۔ انھیں یہ بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ملک میں بڑھتا ہوا احتجاجی ماحول بالآخر آمریت کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

اب جب کہ2013کے بعد جمہوری عمل کے تسلسل کی امید ہو چلی تھی، موجودہ حکمرانوں کے ایڈونچر کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہوتا نظر آرہا ہے۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکمران قیادت نے اپنے تینوں ادوار میں جو بھی فیصلے کیے، وہ سیاسی عمل کو مضبوط بنانے کے بجائے کمزور بنانے کا باعث بنے ہیں۔ لہٰذا یہ عاجزانہ مشورہ ہے کہ وہ ریاست کے اہم اداروں کے ساتھ الجھاؤ پیدا کرنے کے بجائے اپنی توجہ اچھی حکمرانی کی طرف مبذول کریں۔ جس سے جمہوری عمل کا تسلسل اور خود ان کی اپنی سیاسی بقا مشروط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔