’’بموں کی ماں‘‘ کا حملہ اور دنیا کی خاموشی!

شبینہ فراز  اتوار 7 مئ 2017
افغانستان میں جنگ و جدل سے خطّے کے موسم بھی انتہائی بے ترتیب ہوچکے ہیں۔ فوٹو : فائل

افغانستان میں جنگ و جدل سے خطّے کے موسم بھی انتہائی بے ترتیب ہوچکے ہیں۔ فوٹو : فائل

امریکی فضائیہ نے 13 اپریل کو افغان صوبے ننگرہار کے ضلع اچین میں اپنے انتہائی طاقتور بمGBUU-43 B کو پہلی بار استعمال کیا جسے ’’تمام بموں کی ماں‘‘ (Mother of all bombs) کہا جاتا ہے۔

امریکی فوجی ذرائع کے مطابق اس طاقت ور ترین بم کو ان سرنگوں کے اوپر گرایا گیا ہے، جن میں انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق داعش خراسان کا ایک اہم اجلاس ہورہا تھا۔ بم کا یہ خوف ناک دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی سنی گئی، بل کہ بعض علاقوں میں عمارتیں بھی اس دھماکے سے متاثر ہوئیں۔ اس بم کے مہلک اثرات کے بارے میں افغانستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بم کے زہریلے اثرات کے باعث مقامی لوگوں کی بینائی متاثر ہونے لگی ہے۔

ننگرہار کے آٹھ بچوں کی بینائی اس بم کے اثرات کے بعد بری طرح متاثر ہوئی ہے، جب کہ درجنوں افراد میں سانس اور جلد کی بیماریاں نمایاں ہونے لگی ہیں۔ ننگرہار کے مقامی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان بیماریوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں اور متاثرین کو یہ مشورہ بھی دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے علاج کے لیے پاکستان یا کابل جائیں۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے اس سب سے وزنی بم نے کئی دیہات کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ’سارے بموں کی ماں‘ آخر ہے کیا؟

امریکا کی جانب سے یہ سفاکانہ کارروائی پہلی بار نہیں کی گئی ہے۔ اس سے قبل امریکا نے ایسے فائر میزائل بھی استعمال کیے تھے جن میں خطرناک اور زہریلے کیمیائی مواد بھی شامل تھے۔ متاثرین کی زندگی نشان عبرت بن جاتی تھی، کیوںکہ ان زخموں کا علاج کرنا ڈاکٹروں کے بس سے باہر تھا اور بڑے شہروں کا منہگا علاج ان غریبوں کی رسائی میں نہ تھا۔ ایسے سیکڑوں زخمی موت کے گھاٹ اتر گئے جن کے زخم ٹھیک نہیں ہوسکتے تھے۔ افغانستان کے مظلوم عوام جن کا کسی شدت پسندی سے تعلق نہیں ہے۔

پچھلے پندرہ برسوں سے امریکی جارحیت کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس بڑے بم کے استعمال پر بھی دنیا کی تمام قوتیں خاموش ہیں۔ نہ اقوام متحدہ کا کوئی ردعمل آیا اور نہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے آواز اٹھائی۔ پچھلے پندرہ برسوں میں ڈرون حملوں میں ہزاروں معصوم شہری موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں مگر عالمی قوتیں اس صاف قتل عام پر خاموش تماشائی ہیں گویا

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

سابق صدر حامدکرزئی کا کہنا ہے کہ ’’یہ حملہ افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف ہے۔ امریکا نے محض اپنے خوف ناک ہتھیار کے تجربے کے لیے ہماری سرزمین استعمال کی۔ ‘‘

بم دھماکے کے بعد صدر ٹرمپ نے اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کو مبارک باد دی۔ مگر افغانستان جہاں پہلے ہی امریکا کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں اس نوعیت کے خوف ناک بم کا استعمال مزید ناپسندیدگی کے تاثرات ابھارے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ ماحولیاتی مسائل جن میں سرفہرست فضائی آلودگی ہے سرحدوں تک محدود نہیں ہوتے ہیں اور ان کے اثرات متاثرہ علاقوں سے پھیل کر دوسرے ممالک تک پھیل جاتے ہیں۔ افغانستان وہ ملک ہے جس کے پڑوس میں رہنے کے باعث پاکستان نے بہت زیادہ نقصان برداشت کیا ہے۔ فضائی آلودگی مہلک ہتھیاروں کا استعمال اور جنگلات کی کٹائی نے پاکستان میں مون سون کے نظام کو بھی بے ترتیب کردیا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ افغانستان اْن ممالک میں شامل ہے، جن کا ماحولیاتی نظام خراب اور ہوا انتہائی آلودہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بموں کی ماں، بموں کا باپ

بیشتر ممالک میں ماحولیاتی نظام کی خرابی کی بڑی وجہ فیکٹریوں اور کمپنیوں کی آلودہ گیسیں ہیں، لیکن افغانستان میں آلودہ فضا کا سبب قابض قوتوں کی جانب سے کیمیکل اور مہلک بارود بھرے ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ باغات اور جنگلات کی کٹائی بھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا شمار بیماری کی بنیادی وجوہات میں ہوتا ہے اور ماہرین صحت کے مطابق اس وقت افغانستان میں اکثر لوگ ماحول کی آلودگی کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

افغانستان میں جنگ و جدل سے خطّے کے موسم بھی انتہائی بے ترتیب ہوچکے ہیں۔ ان جنگوں سے بڑے پیمانے پر جنگلات بھی متاثر ہوئے جس سے مون سونی نظام میں بھی خلل واقع ہوا۔ افغانستان کی جنگ میں پاکستان اور اس کے پڑوسی علاقوں میں سوائے جنوب اور وسطی ایشیا کے سب کو متاثر کیا ہے۔ مون سون کے نظام میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ماہرین موسمیات کہتے ہیں کہ سردی کے موسم میں عموماً 6 یا6 سے زائد طوفان پاکستان سے گزرتے ہیں۔ جن مین پامیر اور افغانستان میں بننے والے زیادہ دباؤ کے باعث بارشیں بھی ہوتی ہیں لیکن اب کچھ سال سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔ بارشوں کی کمی سے گندم کا ہدف بھی متاثر ہوا ہے جس سے غذائی قلت کا بھی خطرہ بعید از قیاس نہیں ہے۔

آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں اور اس سے خصوصی طور زرعی سرگرمیاں اُس وقت متاثر ہوتی ہیں جب پانی کی دست یابی کم ہوجائے۔ پانی کی کمی سے زیر زمین بھی پانی کم ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگ خشک سالی کے دنوں میں ٹیوب ویل سے بھی استفادہ نہیں کرسکتے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت کی ایک وجہ پڑوس میں ہونے والی جنگوں سے موسموں کی تبدیلی بھی ہے۔ اس کے علاوہ 1980میں پہلی مرتبہ افغان مہاجرین کی آمد سے جنگلات کا رقبہ متاثر ہوا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔

اگر حالیہ صورت حال کو دیکھیں تو موسمیاتی تبدیلیوں نے کرۂ ارض کو پہلے ہی خطرے دوچار کردیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے IPCC کی تازہ رپورٹ بھی مندرجہ بالا نتائج کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے مطابق سائنس دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب اس بات پہ متفق ہے کہ موسموں میں جو تبدیلیاں اور بے ترتیبی پیدا ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ وہ انسانی سرگرمیاں ہیں جن کے نتیجے میں کاربن گیس کا اخراج ہوتا ہے۔

یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں زرعی پیداوار میں کمی، خشک سالی، سیلابوں اور طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ، سمندر کی سطح اور پانی میں تیزابیت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان معلومات کے باوجود 1970 سے لے کر2010 تک ایسی تمام انسانی سرگرمیاں جاری رہیں، جس سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ 2000 سے لے کر2010 تک کی دہائی میں ہوا ہے۔

جنگوں سے متعلق ایک ویب سائٹ کی رو سے بیسیویں صدی میں 165 بڑی جنگوں میں 165 ملین سے لے کر 258 ملین تک انسان ہلاک ہوئے۔ جنگ مخالف ویب سائٹ Environmentalists Against War کے مطابق بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام انسانوں میں سے چھے اعشاریہ پانچ فی صد کی موت کی ذمے دار جنگیں اور مسلح تصادم بنے۔ پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے آٹھ اعشاریہ چار ملین فوجی اور پانچ ملین شہری ہلاک ہوئے جب کہ دوسری عالمی جنگ نے سترہ ملین فوجیوں اور 34 ملین شہریوں کی زندگیوں کے چراغ گُل کردیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان جدید جنگوں میں مارے جانے والے 75 فی صد لوگ عام شہری تھے۔

جنگوں نے صرف ہلاکتوں کے انبار ہی نہیں لگائے بل کہ کرۂ ارض کے ماحول کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر انسانوں کو بھی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ آج ہمارے سمندر، دریا، جنگلات، پہاڑ، میدان غرض کرۂ ارض کی ہر شے جنگی تباہ کاریوں سے متاثر ہوچکی ہے۔

جنگ روایتی ہو یا غیرروایتی، وہ ہمارے ماحول کو زہرآلود کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ ویت نام کی جنگ کے دوران اِس بدقسمت ملک کے جنگلات، کھیت اور باغات پر 25 ملین بموں کی بارش کی گئی جب کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے 19 ملین گیلن زہریلے مادوں نے بھی اس ملک کے ماحول کو بھی آلودہ کیا۔ اس جنگ کے دوران Agent Orange نامی Herbicide کو ویت نام کے دس فی صد حصے پر چھڑکا گیا۔ اس اسپرے کی وجہ سے جنوبی ویت نام کے 14 فی صد جنگلات تباہی سے دوچار ہوئے، جن میں 50 فی صد mangroves بھی شامل ہیں۔ Agent Orange میں شامل Dioxin اور دیگر کیمیائی ہتھیاروں سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے زمین کی اندورنی تہوں اور دریاؤں کے پانی کو آلودہ کیا، جس نے آبی حیات اور انسان دونوں کو نقصان پہنچایا۔

بحیرہ بالٹک سے لے کر بحرِاوقیانوس تک لاکھوں ایکڑ زمین جنگی کیمیکلز اور جوہری فضلے کی وجہ سے آلودہ ہوگئی ہے۔ کمبوڈیا میں 1300 مربع میل رقبہ زمینی بارودی سرنگوں کی وجہ سے ناقابل کاشت ہو گیا۔ اس کے علاوہ 35 فی صد جنگلات بھی اس ملک میں 20 سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے تباہی کا شکار ہوئے۔ انگولا میں 10 ملین زمینی بارودی سرنگوں نے بھی زرعی اراضی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جب کہ افغانستان اور بوسنیا سمیت دنیا کئی حصوں میں آج بھی ایسی بارودی سرنگیں انسانی زندگی اور ماحول کو تباہ کن اثرات سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔

1991 کی خلیجی جنگ کے دوران عراق پر88 ہزار ٹن بم گرائے گئے، جس سے نو ہزار گھر تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ پانی کا نظام، چار بڑے ڈیمز اور کئی انرجی پلانٹ بھی جنگی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ عراق نے دوران جنگ ایک ملین ٹن خام تیل خلیج فارس میں بہا دیا، جب کہ صحرا میں بھی 50 مربع کلومیٹر کے علاقے میں تیل بہایا گیا۔ اس ماحولیاتی تباہی نے نہ صرف انسانی صحت کو خطرے میں ڈالا بل کہ نقل مکانی کرنے والے 25 ہزار پرندے بھی اس ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔

کیا اکیس ویں صدی میں ان طاقت ور ’’مہذب ممالک‘‘ کو ان کے جنگی جنون سے باز رکھا جاسکتا ہے ، یہ وہ سوال ہے جس پر دنیا کو غور کرنا ہی ہوگا ورنہ جنوبی ایشیا کا یہ غریب خطہ مزید بموں کے تجربات کا میدان بنا رہے گا۔

دنیا کا سب سے بڑا غیرایٹمی بم کیا ہے؟
عام طور پر بموں میں دھماکا خیزمواد اور اسے جلانے کے لیے فیول یا آکسیڈائز استعمال ہوتا ہے، لیکن ایم اے او بی (MAOB) خاصا مختلف ہے۔ یہ ایک تھرموبیرک ہتھیار ہے، جو فضا میں موجود آکسیجن کو زیر استعمال لا کر بارودی مواد کو پھٹنے یا ڈیٹونیٹ کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بم میں زیادہ دھماکا خیز مواد ہوتا ہے۔

دنیا میں پائے جانے والے زیادہ تر دیگر بم جس جگہ گرتے ہیں، اسی کے آس پاس کے مختصر حصے میں تباہی مچاتے ہیں لیکن یہ بم بنیادی طور پر فضا ہی میں ارد گرد کی تمام آکسیجن کو آگ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یوں یہ بم ان جگہوں پر بھی تباہی مچا دیتا ہے جہاں کوئی دوسرا بم کارآمد نہیں ہو سکتا۔

جی بی یو 43 عملی طور پر ڈیزی کٹر بم کے متبادل کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ امریکا نے ڈیزی کٹر بم ویتنام میں کھیتوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔

یہ بم کنکریٹ اور مضبوط چٹانوں سے گزر کر تباہی نہیں مچا سکتا۔ اسے ’سافٹ ٹارگٹس‘ کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ تاہم اس بم کی آکسیجن کھینچ لینے کی صلاحیت غاروں کے سلسلوں جیسے اہداف پر گرائے جانے کی صورت میں اے مزید تباہ کن بنادیتی ہے۔

عام طور پر یہ بم سطح زمین سے چھے فٹ کی بلندی پر پھٹتا ہے۔ بم کا کنٹینر انتہائی پتلا رکھا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس میں موجود دھماکاخیز بارود زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلا سکے۔

اس بم کو مارچ 2003 میں تیار کیا گیا تھا۔ ایک بم پر سولہ ملین ڈالرز خرچ ہوتے ہیں۔ امریکا نے اب تک ایسے بیس بم تیار کیے ہیں۔

روس نے بھی اس سے چھوٹا لیکن ایسا ہی ایک بم تیار کر رکھا ہے جس کا نام ’تمام بموں کا باپ‘ رکھا گیا ہے۔ لیکن روسی بم امریکی بم سے چار گناہ زیادہ تباہ کن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔