مودی کی دہکائی آگ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 5 مئ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارت میں نریندر مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد تمام بھارتی تشدد پسند ہندو مذہبی جماعتوں کے حوصلوں میں کئی گنا اضافہ ہُوا ہے۔ اب بی جے پی، وی ایچ پی، آر ایس ایس، شِو سینا،بجرنگ دَل ایسی انتہا پسند مذہبی ہندو پارٹیوں کے  وابستگان زیادہ جرأت اور بیباکی سے بھارتی مسلمانوں، عیسائیوں، دَلتوں اور دیگر زیردست طبقات کے خلاف صف آرا ہو گئے ہیں۔اُنہیں کھلے بندوں ڈرایا،دھمکایا اور ہراساں کیا جانے لگا ہے۔

ممتاز بھارتی اخبار ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘نے خبردی ہے کہ اُترپردیش کے معروف علاقے’’بریلی‘‘ سے 75کلومیٹر دُور واقع ایک گاؤں کے مسلمانوں کو مقتدر بی جے پی کے کارکنوں نے مختلف پوسٹروں کے ذریعے دھمکایا ہے کہ یا تو وہ سارے ہندو ہو جائیں یا گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔اس بدقسمت گاؤں کا نام ہے: جیا نگلہ!! یہاں صرف دو سو کی تعداد میں مسلمانوں کی قلیل آبادی رہائش پذیر ہے۔ دھمکی دینے والوں میں اُترپردیش اسمبلی کا ایک رکن بھی شامل ہے جو حال ہی میں بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہُوا ہے۔ان پوسٹروں میں دھمکی لکھی گئی ہے کہ یا تو گاؤں کے تمام مسلمان دونوں مطالبات میں سے ایک تسلیم کر لیں یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔یہ تنبیہی پوسٹر گاؤں میں چوبیس مختلف مقامات پر لگائے گئے ہیں ۔

گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق،مقامی پولیس نے مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت آگیں مہم چلانے پر کچھ ہندوؤں کو گرفتار تو کیا ہے لیکن ہندو پولیس گاؤں مذکور کے سہمے مسلمانوں کا خوف دُور کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور اب 2مئی کو بھارت نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے ایل او سی پار کرکے دو بھارتی فوجیوں(پرمجیت سنگھ اور پریم ساگر)کو نہ صرف قتل کر دیا بلکہ اُن کے سر بھی کاٹ ڈالے۔ پاکستان آرمی کے ترجمان ادارے،آئی ایس پی آر، نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے لیکن بھارت مان ہی نہیں رہا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارت نفرت کی آگ دہکا کر پاکستان کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانے والا ہے۔

مقتدر،متشدد ہندو مذہبی جماعتوں کے وابستگان کے ہاتھوں اب خود ہندو عوام بھی ان کی زیادتیوں او ر بیہودگیوں کا ہدف بننے لگے ہیں۔ ایک تازہ واقعہ نے تو سارے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چند روز قبل انتہا پسند ہندو جماعت’’شِو سینا‘‘ کے رکن پارلیمنٹ، روندرا گائیکواڈ، نے دہلی ائر پورٹ پر بھارتی قومی ائر لائن(ائر انڈیا) کے ایک سینئر افسر،جن کی عمر ساٹھ سال بتائی گئی ہے،پر جوتوں سے تشدد کیا۔یہ افسوسناک خبر بھارت کے تمام میڈیا میں شایع اور نشر ہُوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، روندرا نے اس افسر (R  Sukumar )کو25بار جوتے مارے۔ جب وہ اس بزرگ پر جوتوں کی بارش برسا رہا تھا تو پورے ائر پورٹ پر کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ آگے بڑھتا اور شِو سینا کے اس بدمعاش رکن پارلیمنٹ کو اس ظلم اور بربریت سے باز رکھتا۔بھارتی قومی ائر لائن کے اس بوڑھے افسر کا قصور محض اتنا تھا کہ اُس نے روندرا کو جہاز میں بزنس کلاس کی سیٹ فراہم نہیں کی تھی۔

اس میں ائر لائن کے افسر مذکور کی بھی کوئی غلطی نہیں تھی کیونکہ اس پرواز میں بزنس کلاس سرے سے تھی ہی نہیں۔صرف اکانومی کلاس تھی۔اوریہ بات جہاز کی پرواز سے پہلے ہی روندرا کو بتا دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اقتدار کے نشے اور اپنی جماعت کی بدمعاشیوں کے بَل پر سنگین بد تمیزی سے باز نہ آیا۔پورے بھارت میں کٹر ہندو مذہبی جماعت کے اِس رکنِ لوک سبھا کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا ہے لیکن روندرا گائیکواڈ کی بے شرمی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وہ معذرت کرنے پر تیار نہیں ہُوا ۔بلکہ اُلٹا اُس نے مضروب و مظلوم افسر سے مطالبہ کیا کہ وہ اُس سے معافی مانگے، ’’پھر مَیں اپنے بارے میں غور کروں گا۔‘‘حیرت مگر یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم، جناب نریندر مودی،نے روندرا کے اس بہیمانہ اقدام کے خلاف ایک بھی مذمتی لفط منہ سے ادا نہیں کیا ۔

وہ نریندر مودی جو خود ان متشدد اور انتہا پسندہندو مذہبی جماعتوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے، اب خود بھی اِنہی کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔مثلاً: مودی جی اُتر پردیش کے حالیہ انتخابات کے بعد اپنے دوست (کشیو پرشاد موریہ) کو وہاں کاوزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے لیکن یو پی میں بروئے کار تمام انتہا پسند ہندو مذہبی جماعتیں مودی کے سامنے ڈٹ گئیں اور صاف لفظوں میں اُن سے کہا کہ اُترپردیش کا وزیراعلیٰ ہوگا تو صرف گورکھ پور کے سب سے بڑے مندر کا مہنت یوگی ادیتا ناتھ ہوگا، وگرنہ ہم کسی دوسرے کو یو پی کا وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیں گے!!مودی جی سناٹے میں آگئے؛چنانچہ اُنہیں جنونیوں کے سامنے جھکنا پڑا۔ یوں انتہا پسند اور مسلم دشمن یوگی ادیتا ناتھ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔اور بہ امرِمجبوری مودی کو اپنے انتہائی قریبی اور معتمد ترین دوست، کشیو پرشاد موریہ، کو ڈپٹی وزیر اعلیٰ بنانا پڑا ہے۔

اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مودی جی نے اقتدار کے حصول کے لیے جس مذہبی فرینکنشٹائن کو جنم دیا تھا، اب وہ خود بھی اس بلا کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ معروف بھارتی ہندو بھی مقتدر شدت پسند ہندوؤں سے خوف کھا رہے ہیں۔ 2مئی2017ء کو جب بھارت بھر میں یہ خبر وائرل ہو گئی کہ مشہور بھارتی اداکارہ،کاجول،نے ممبئی میں اپنے ایک قریبی دوست کے ریستوران سے گائے کا گوشت کھایاہے(جس کا ویڈیو میں وہ اعتراف کرتی بھی سنائی دیتی ہے)تو وہ بیچاری انتہا پسند ہندوؤں کی دھمکیوں سے اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ فوری طور پر جھوٹ بولتے ہُوئے یوں ٹویٹ کیا:’’بعض لوگوں کو غلط فہمی ہُوئی ہے۔ جس ویڈیو میں مجھے گوشت کھاتے ہُوئے دکھایا جارہا ہے،وہ گوشت گائے کا نہیں بلکہ بھینس کا ہے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو تو محض بیف کھانے کے شک کی بنیاد پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے خلاف مقتدر اور متشدد مذہبی ہندو جماعتوںکی کارروائیاں روز افزوں ہیں۔

اکثریتی مسلمانوں کے بھارتی شہر، حیدرآباد، میں بھی ان ہندو مذہبی جنونی جماعتوں نے مسلمانوں کے بنیادی اور آئینی حقوق کے خلاف سخت اودھم مچا رکھا ہے۔ آزادی سے لے کر اب تک حیدرآبادی مسلمانوں کو 12فیصد کوٹے کے تحت سرکاری اداروں میں سہولیات دی جا رہی ہیں۔ اب مگر جب سے بھارت کے کئی صوبوں اور مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس کوٹے کے خاتمے کے لیے ہندو مذہبی تنظیمیں تحریکیں چلانے لگی ہیں۔ چند روز پہلے بھی اِسی سلسلے میں حیدرآباد میں بی جے پی کے منظم کارکنوں نے وزیر اعلیٰ، چندر شیکھر راؤ، کے گھر کے سامنے کئی روز تک دھرنادیا ہے۔ شہر بھر کو مفلوج کر دینے والے اس دھرنے کی قیادت بی جے پی کا سب سے بڑا مقامی لیڈر، بدام پال ریڈی، کر رہا تھا۔ مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے مختص یہ بارہ فیصد کوٹہ فوری ختم کیا جائے۔ (مقبوضہ) کشمیر کے مسلمانوں پر تو بھارتی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی زیادتیاں اور مظالم روز افزوں ہیں۔

تنگ آکر کشمیری طالبات بچیاں بھی اب قابض بھارتی فوج، پولیس اور انتظامیہ کے خلاف میدان میں اُتر آئی ہیں۔ اپریل2017ء کے تیسرے ہفتے ساری دنیا نے مناظر دیکھے ہیں کہ سنگ بدست یہ کشمیری طالبات کس جذبے اور اولو العزمی کے ساتھ بھارتی فوج کے مقابل آ کھڑی ہُوئی ہیں۔بھارت بھی سناٹے میں آگیا ہے؛چنانچہ بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی تین دن پہلے بہ امرِمجبوری کہنا پڑا ہے کہ اگر کشمیری طلبا و طالبات (مقبوضہ) کشمیر میں تعینات بھارتی سیکیورٹی فورسز پر سنگباری سے باز آجائیں تو سٹیک ہولڈرز سے مکالمہ شروع ہو سکتا ہے ۔

بھارتی جبر کا شکار کشمیریوں کو مگر یہ شرط منظور نہیں ہے۔کشمیری طالبات کا عزم دیکھتے ہُوئے بھارتی وزیر داخلہ،راجناتھ سنگھ،نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ دس ہزار نفری پر مشتمل IRB(انڈین ریزرو بٹالین)کی ایک ایسی فورس بنا رہے ہیں جس میں صرف عورتیں ہوں گی اور یہ کشمیری طالبات سے نمٹ سکے گی۔ بھارت یہ ظلم بھی کرکے دیکھ لے۔نتائج اُس کے حسبِ منشا نہیں نکلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔