امریکی صدر، جدید عسکری تقاضوں سے بے بہرہ!

ندیم سبحان میو / سید بابر علی  اتوار 7 مئ 2017
دانشور سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا کو دوسری جنگ عظیم کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ فوٹو : فائل

دانشور سمجھتے ہیں کہ وہ امریکا کو دوسری جنگ عظیم کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ فوٹو : فائل

(مائیکل ٹی کلیئر ایک امریکی تعلیمی ادارے میں ’مطالعۂ امن و عالمی تحفظ‘ کے پروفیسر ہیں۔ ان کی تصنیف The Race for What’s Left شایع ہوکر عالمی شہرت پاچکی ہے۔ زیرنظر مضمون میں انھوں نے متنازعہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عسکری رجحانات کا جائزہ لیا ہے جس کا ترجمہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے)

اگر آپ ایک خاص عمر، درست طور پر کہا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر، کے امریکی ہیں تو پھر این بی سی کی ایمی ایوارڈ یافتہ دستاویزی سیریز ’وکٹری ایٹ سِی‘ کی یادیں آپ کی یادداشت میں ضرور محفوظ ہوں گی۔ جنگ عظیم دوم میں امریکی بحریہ کے کردار پر روشنی ڈالتی یہ سیریز اکتوبر1952ء سے مئی 1953ء کے درمیان نشر کی جاتی رہی تھی۔

وکٹری ایٹ سی طویل دورانیے کی، اپنے طرز کی اولین دستاویزی فلموں میں سے تھی جس میں پرل ہاربر کے دفاع میں بحریہ کی شرم ناک ناکامی سے لے کر خلیج مڈوے اور خلیج لیتہ کی لڑائی میں شان دار فتح اور آخرکار یو ایس ایس میسوری پر جاپانی وزیرخارجہ کی جانب سے اعتراف شکست کی دستاویز پر دستخط کرنے تک، تمام واقعات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ جنگ عظیم کی تاریخی فوٹیجز پر مشتمل اور رچرڈ روجرز کی سحرانگیز موسیقی سے سجی یہ فلم مقبولیت کی انتہاؤں کو چُھو گئی تھی۔ اُس دور کے نوجوانوں کے لیے یہ دستاویزی فلم اس تاریخی لڑائی کی سب سے دل چسپ، بصری پیش کش کی تھی جس کا ہمارے انکل، ہم جماعت اور باپ حصہ بنے تھے۔

میں یہ تذکرہ اس لیے کررہا ہوں کہ گذشتہ دنوں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوج کی تعمیرنو کرنے اور ’دوبارہ جنگیں جیتنے‘ کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے اس عزم کا اہم محرک ’’وکٹری ایٹ سِی‘‘ اور اس زمانے کی دیگر جنگی فلموں میں جا بہ جا کی گئی تصویر کشی ہے۔ رواں برس ستائیس فروری امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ عسکری بجٹ میں سالانہ چوّن ارب ڈالر اضافے کی درخواست کریں گے۔

اس موقع پر انھوں نے ان الفاظ میں اس درخواست کا سبب بیان کیا تھا،’’ہمیں جنگی فتوحات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کرنا ہوگا۔ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب میں چھوٹا اور اسکول اور کالج میں زیرتعلیم تھا، تو ہر ایک فخر سے کہا کرتا تھا کہ ہم ہر جنگ میں ناقابل شکست رہے ہیں۔ ہم نے کوئی جنگ نہیں ہاری۔۔۔۔۔ یاد ہے؟ ‘‘

اب ذرا ڈونلڈ ٹرمپ کے لڑکپن اور نوجوانی کے دور کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ امریکا اُس زمانے میں جنگیں ضرور جیت رہا تھا مگر۔۔۔۔۔ صرف ٹیلی ویژن اسکرین پر اور ہالی وڈ کی فلموں میں۔ 1950ء کے اوائل میں جب ’’وکٹری ایٹ سِی‘‘ نشر کی گئی تھی، کوریائی فوج نے امریکی پیش قدمی روک رکھی تھی اور ویت نام کی دلدل میں بھی اس کے پاؤں دھنسنے لگے تھے۔

تاہم اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح آپ ویت نام میں فوجی خدمات کی انجام دہی سے دامن بچانے میں کام یاب ہوئے ہوں اور ان خطوں کی صورت حال کو بھی نظرانداز کردیا ہو تو پھر جنگوں کے بارے میں آپ کے تصور کو تشکیل دینے میں اسکرین کا کردار بنیادی رہا ہوگا۔ جہاں صرف یہی بازگشت سنائی دیتی تھی،’’ہم نے کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔۔۔۔یاد ہے؟‘‘

دو مارچ کو ٹرمپ نے نئے طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ پر دوران تقریر ایک بار پھر ’’وکٹری ایٹ سِی‘‘ میں پیش کردہ خیالات کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر وہ نیوی کی مخصوص جیکٹ پہنے بے حد مسرور نظر آرہے تھے۔ اس خوشی کا اظہار کیے بنا وہ رہ نہ سکے اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گویا ہوئے،’’انھوں نے (بحریہ کے افسران) مجھ سے کہا کہ جنابِ صدر! یہ گھر لے جائیں، مگر میں نے جواب دیا کہ یہیں پہنوں گا۔‘‘

اس تحفے کے لیے امریکی صدر نے جہاز کے عملے کی ستائش کی۔ بعدازاں انھوں نے دوران خطاب پُرجوش لہجے میں کہا،’’آج ہم امریکا کی ساڑھے چار ایکڑ رقبے پر محیط جنگی طاقت پر موجود ہیں، جس کا دنیا بھر میں کوئی مقابل نہیں۔‘‘ پھر انھوں نے بحریہ کی مضبوطی کے مجوزہ منصوبے کے جزو کے طور پر بارھویں انتہائی منہگے طیارہ بردار جہاز کی تیاری کے لیے فنڈز کی فراہمی پر زور دیا۔ حالاں کہ کرۂ ارض پر کسی دوسرے ملک کے پاس دو فعال طیارہ بردار جہازوں سے زیادہ نہیں ہیں (اور وہ ملک بھی امریکا کا اتحادی، اٹلی ہے)

ایک اور طیارہ بردار جہاز کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے بعد جناب صدر دوسری جنگ عظیم۔۔۔۔۔ جی ہاں، دوسری جنگ عظیم۔۔۔۔۔ میں امریکی طیارہ بردار جہازوں کے کردار کو زیربحث لے آئے، جن کا جاپان کے خلاف بحری جنگ جیتنے میں کردار کلیدی رہا تھا۔ انھوں نے کہا،’’آپ مڈوے کی جنگ سے اچھی طرح باخبر ہیں۔ اس جنگ میں امریکی بحریہ جس شجاعت اور بہادری سے لڑی وہ صدیوں تک یاد رکھی جائے گی۔ اس روز کتنے ہی بہادر امریکی جان سے چلے گئے، مگر ان کی قربانیوں نے بحرالکاہل کی جنگ کا نقشہ پلٹ دیا۔‘‘

اس بیان میں ( عسکری تاریخ کی معمولی شُدبُد رکھنے والے) ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر ’وکٹری ایٹ سِی‘ یا پھر ’’مڈوے‘‘ کے نام سے ہالی وڈ میں بنائے گئے اسی فلم کے ورژن کے حصے دہرارہے تھے۔ دونوں فلموں میں یہ مشہور و معروف جنگ ایک ہی انداز میں دکھائی گئی تھی۔

امریکی جنگی تاریخ کے ان سنہری دنوں کی ’ یادوں‘ سے ٹرمپ کا لگاؤ ان کی عسکری پالیسی اور دفاع کے لیے فنڈز کی فراہمی کی اپروچ واضح کرتا ہے۔ امریکی صدور اور ان کے سیکریٹری ہائے دفاع عسکری اخراجات میں نمایاں اضافہ تجویز کرتے ہوئے اسٹریٹیجک وجوہات کو خصوصیت کے ساتھ جواز کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، مثلاً سوویت توسیع پسندی کو حدود میں رکھنا، یا پھر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو فزوں تر کرنا۔ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس اس قسم کی وجوہات کو بہ طور جواز پیش کرنے کا قائل نہیں۔

شام اور عراق میں ڈھائی برس قبل داعش کے خلاف سابق صدر براک اوباما کے حکم پر شروع کی گئی جنگ، جو سرکاری طور پر مقررکردہ مدت کے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے، کو فزوں تر کرنے علاوہ پینٹاگون کو سیکڑوں ارب ڈالر مزید فراہم کرنے کا جواز امریکا کی عسکری صلاحیتوں میں در آنے والی ’فرضی‘ زوال پذیری پر قابو پانا اور مسلح افواج کو ایک بار پھر ’جنگیں جیتنے‘ کے قابل بنانا، پیش کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2016ء کے انتخابات کے دوران دفاعی پالیسی سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کا قدرے طویل اور واحد بیان سات ستمبر کو فلاڈلفیا میں انتخابی مہم کے دوران خطاب کرتے ہوئے سامنے آیا تھا۔ انھوں نے بیان کی ابتدا یہ وعدہ کرتے ہوئے کی تھی کہ منتخب ہونے کی صورت میں،’’میں اپنے جنرلوں سے کہوں گا کہ داعش کو 30 دن میں شکست فاش دینے اور ختم کرنے کے لیے منصوبہ پیش کریں۔‘‘

(’ان‘ کے جنرلوں نے جو آپشن پیش کیے وہ عراق اور شام میں داعش کے مضبوط ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے اوباما دور کے منصوبوں کی قدرے مضبوط شکل تھے) انھوں نے انتخابی مہم کے دوران یہ جملے بھی بارہا دہرائے کہ ’’امیگریشن سیکیوریٹی ہماری قومی سلامتی کا اہم ترین جزو ہے۔‘‘ نیز یہ کہ عمومی دفاع میں ناٹو ارکان کو اپنا کردار مزید بڑھانا چاہیے۔ اس کے بعد ڈونلڈ نے امریکی فوج کی بحالی کے منصوبوں کا ذکر کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے بحریہ کو ترجیح دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ پہلے انھوں نے بحریہ کو 1915ء کے بعد سے محدود ترین حجم پر لے آنے پر اوباما انتظامیہ کو خوب لتاڑا۔ انھوں نے کہا،’’جب رونالڈ ریگن منصب صدارت سے رخصت ہوئے تو اس وقت ہماری بحریہ کے پاس 592 بحری جہاز تھے۔ باراک اوباما صدر بنے تو یہ تعداد 285 تھی۔ اور آج بحریہ کے پاس صرف 276 جہاز ہیں۔‘‘

تعداد اور معیار کی اہمیت پر بحث ممکن ہوسکتی ہے، اگرچہ بحریہ کے بیشتر ماہر کہیں گے کہ آج کے جدید طیارہ بردار اور جنگی جہازوں اور آب دوزوں (ان میں سے اکثر ایٹمی ہیں) پر مشتمل فلیٹ ریگن دور کی کم صلاحیت والی بحریہ سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ تاہم بنیادی نکتہ بحریہ کا حجم ہے، جو ٹرمپ کے ذہن پر غلبہ پاچکا ہے۔

اگر فلاڈلفیا میں خطاب کے دوران ڈونلڈ نے بری فوج اور فضائیہ کی زوال پذیری کا بھی ذکر کیا مگر ان کا سارا زور بحریہ کے حجم پر رہا۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ کانگریس سے دفاعی اخراجات کی راہ میں حائل خودکار رکاوٹ کو دور کرنے کی استدعا کریں گے، اور مسلح افواج کی بحالی کے لیے کثیر مقدار میں اضافی فنڈز کی فراہمی ممکن بنائیں گے۔ فنڈز مختص کرنے کے عمل میں بحریہ کو ترجیح حاصل ہوگی۔ ان کا کہنا تھا،’’ہم بحری جہازوں اور آب دوزوں کی تعداد 350 تک پہنچائیں گے۔‘‘ 74 بحری جہازوں کے اضافے کے لیے ٹرمپ کی جانب سے کوئی ٹھوس اسٹریٹیجک جواز نہیں بتایا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیرالڈ آر فورڈ کے دورے کے دوران ٹرمپ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ دفاعی اخراجات میں اربوں ڈالر کے اضافے کا مقصد مستقبل کی جنگوں میں امریکی فوج کی فتح یقینی بنانا ہے۔ انھوں نے کہا،’’ہم اپنی فوج کو وہ ہتھیار دیں گے جن سے جنگ کا راستہ رُکے گا، مگر ناگزیر صورت میں فوج جنگ بھی لڑے گی اور اس کا ایک ہی مقصد ہوگا۔۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں کیا۔۔۔۔؟ فتح ! صرف اور صرف فتح ! ہم جیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں گے۔‘‘ مگر سوال یہ ہے کہ ان کے ذہن میں کس طرح کی جنگوں کا تصور ہے؟ ٹرمپ اپنے اسٹریٹیجک ہدف کے طور پر اکثر وبیشتر داعش اور کٹر اسلامی دہشت گردوں کو شکست دینے کا عزم ظاہر کرتے رہتے ہیں۔

مگر بحری بیڑے میں شامل جہازوں کی تعداد میں اضافہ ان کے اس عزم کی تکمیل میں کس طرح معاون ہوگا؟ یہ واضح نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ طیارہ بردار جہاز شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے لیے استعمال ہورہے ہیں مگر اس مقصد کے لیے یہ ناگزیر نہیں ہے۔ حملے پڑوسی ملکوں میں قائم امریکی فوجی اڈوں سے بھی کیے جاسکتے ہیں۔ پچھلے پندرہ سال کے دوران انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں ہونے والے آپریشنز میں امریکا کے بیشتر جنگی بحری جہازوں اور آب دوزوں کا شاید ہی کوئی کردار رہا ہو۔ البتہ یہ مشتبہ دہشت گردوں کی عارضی جیل کے طور پر ضرور کام آتے رہے ہیں، مگر ایسا بھی شاذونادر ہی ہوا ہے۔

ٹرمپ جنگی طیاروں اور فوجی بریگیڈز کی تعداد میں اضافے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، مگر یہ اقدام بھی داعش یا دوسرے دہشت گردوں کو شکست دینے میں معاون ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا، اگرچہ نئی انتظامیہ اب شام میں روایتی پیدل فوج بھی بھیج رہی ہے۔ واضح رہے کہ ’اسپیشل آپریشنز فورسز‘ پہلے ہی سرزمین شام پر موجود ہیں۔

پچھلے ڈیڑھ عشرے کے دوران عراق اور افغانستان میں امریکا کے تکلیف دہ تجربات کے پیش نظر امریکی عوام کی اکثریت مشرق وسطیٰ یا شمالی افریقا جیسے جنگ زدہ خطوں میں فوج بھیجنے کے واضح طور پر خلاف ہے۔ صدر ٹرمپ بھی واضح کرچکے ہیں کہ وہ اکثریت کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ سابق صدر کے طریقہ ہائے کار اور پالیسیوں کی لاکھ مذمت کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ میں وہ ڈرون حملوں، اسپیشل آپریشنز فورسز اور کرد اور شامی باغی گروپوں جیسی پراکسی طاقتوں پر انحصار کرنے کی اوباما کی پالیسی جاری رکھنے پر مائل نظر آتے ہیں۔ چناں چہ بارھویں طیارہ بردار بحری جہاز کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی۔ نہ ہی جدید دور کی پیچیدہ جنگوں میں کام یابی ممکن بنانے کے لیے، ٹرمپ کی خواہش کے مطابق جدید ترین ہتھیار، جنگی جہازوں اور آب دوزوں کی ضرورت ہے۔

موجودہ دور کی جنگ کئی جہتوں کا مجموعہ ہے۔ روسی اس جنگ میں مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ اس کا مظاہرہ وہ چیچنیا، جارجیا اور یوکرین میں کرچکے ہیں، اور اب شام میں کررہے ہیں۔ موجودہ دور میں جنگ روایتی لڑائی کے ساتھ ساتھ سائبروار، پروپیگنڈے، اور نفسیاتی جنگ کا مجموعہ ہے۔ ان تمام محاذوں پر بہ یک وقت لڑائی کے ذریعے روس علاقائی سطح پر فتوحات حاصل کرچکا ہے۔ اس نوع کے آپریشنز کا توڑ کرنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو حملوں کے ان غیرروایتی طریقوں کا سراغ لگانے اور ان کا اثر زائل کرنے میں مہارت حاصل کرنی ہوگی۔ اس مقصد کے لیے نئی خصوصی صلاحیتیں یقیناً درکار ہوں گی۔ مگر اس مقصد کے حصول میں طیارہ بردار جہازوں اور ٹرمپ کی خواہشات کی فہرست میں شامل دوسرے ہتھیاروں کا کوئی اہم کردار نظر نہیں آتا۔

پھر معاملہ شمالی کوریا اور ایران جیسی ’بدمعاش ریاستوں‘ کا بھی ہے۔ یہ ریاستیں اپنے پڑوسی ممالک اور کسی حد تک ان کے قرب وجوار میں موجود امریکی افواج کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ مگر دونوں صورتوں میں ان ملکوں کی افواج کے پاس امریکی فوج کے مقابلے میں پرانے اور کم تر ہتھیار ہیں۔ ان ہتھیاروں کے ساتھ یہ امریکی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ علاوہ ازیں ان ممالک کے ساتھ جنگ کی صورت میں امریکا کو اس کے اتحادیوں کی بھی معاونت حاصل ہوگی۔

’بدمعاش ریاستوں‘ کے ساتھ تصادم کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کا خطرہ بھی موجود ہے۔ خوش قسمتی سے 2015ء میں اوباما انتظامیہ کی ایما پر برطانیہ، فرانس ، جرمنی، روس، چین اور یورپی یونین کی کوششوں سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر طے پانے والے معاہدے کی وجہ سے فوری طور پر اس ملک کی جانب سے ایسا کوئی خطرہ نہیں۔ تاہم اگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ معاہدے ختم کردیتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران تجویز کیا تھا، تو پھر اتحادی افواج کے لیے خطرہ بڑھ جائے گا۔ شمالی کوریا کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اور اس خطرے کو محدود کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو حکمت عملی وضع کرنی پڑے گی۔ بحری جہازوں کی تعداد میں اضافے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔

تو پھر عوامی بہبود کے منصوبوں میں کٹوتیاں کرکے فوج کو بحری جہاز، طیارے اور افرادی قوت مہیا کرنے کے وسیع وعریض پروگرام کا مثبت پہلو کیا ہے؟ امریکا کن جنگوں میں ’ فاتح‘ ٹھہرے گا؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے ارادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکا کو ’وکٹری ایٹ سِی‘ کے دور میں پہنچانا چاہتے ہیں۔ مگر کیا چین اور روس، پرل ہاربر پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ یہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ان ممالک کے سربراہان عقل سے پیدل ہوجائیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کل کی جنگوں میں فتح حاصل کرنے کے لیے غیرروایتی ہتھیار، نئی حکمت عملی اور نئے اصول درکار ہوں گے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ تسلیم کرنے پر تیار دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی سوئی 1950ء کی دہائی میں اٹکی ہوئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی 100 دن
امریکی صدر کے اقتدار کی شروعات کن اقدامات کے ساتھ؟


(رابرٹ فسک کا شمار انگریزی کے ممتاز صحافیوں اور لکھاریوں میں کیا جاتا ہے۔ متعدد ملکی اور غیرملکی ایوارڈ جیتنے والے برطانوی نژاد رابرٹ فسک کی مسلح تصادم اور مختلف جنگوں پر متعدد کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے رابرٹ فسک ان چند مغربی صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہیں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔

1993 سے 1997کے عرصے میں انہوں نے تین مرتبہ اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا۔ بیروت، کوسوو، الجیرین سول وار، ایران عراق جنگ میں جنگی رپورٹر کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ برطانوی اخبار انڈیپینڈینٹ کے لیے لکھے گئے اپنے اس مضمون میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں گزرے ابتدائی سو دنوں کا تجزیہ کیا ہے جسے قارئین کی دل چسپی کے لیے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے)

امریکا کا سب سے نااہل آدمی صدر بن گیا ہے اور دنیا اسے ایک دانا آدمی سمجھتی ہے۔ ذرا ٹرمپ کے ابتدائی سو دن پر ایک نظر ڈالیں: مضحکہ خیز ٹوئٹس، جھوٹ، قوتِ واہمہ، خود پرست اور عورتوں سے بے زار رہنے والے اس لیڈر نے ہم سب کو دہشت میں مبتلا کردیا ہے۔ لیکن اس لمحے جب وہ یمن کی جنگ میں داخل ہوا، شام پر میزائل فائر کیے، افغانستان پر بم باری کی تو وہ میڈ یا جس کی ٹرمپ بہت خونخواری سے مذمت کرتا ہے نے اسے عزت دینا شروع کردی۔

وائٹ ہاؤس میں ایک قنوطی یا خبطی شخص کا رات گئے تک ٹی وی دیکھنا اور سارا دن ٹوئٹ کرنا الگ چیز ہے۔ لیکن جب یہی دیوانہ جنگ میں جاتا ہے تو ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کا محافظ ہے، ایک ایسا طاقت ور صدر جو ظلم کے مقابلے پر کھڑا ہے (چاہے وہ سعودیوں، ترکوں اور مصریوں کے ساتھ ہی ہو) اور ایک نک چڑھے انسان کے بجائے انسانی جذبات سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔

کوئی کیسے نیویارک ٹائمز کی اُس غیرمعمولی رپورٹ کی تفصیل بیان کرسکتا ہے جس میں ریکارڈ ہے کہ شام میں مرتے ہوئے بچوں کی فلم نے انہیں اذیت میں مبتلا کیا اور وہ اس کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہوئے۔ امریکی ایکشن پسند کرتے ہیں، لیکن اہم معاملات پر ٹرمپ کی بچکانہ ’ٹرائیگر فنگر‘ کے بارے میں ابہام کا شکار رہتے ہیں۔ اس وقت کیا سوچا جائے جب ایک عقل مند امریکی کالم نگار ڈیوڈ Ignatius  اچانک ٹرمپ کا موازنہ ہینری ٹرومین سے کرنے لگے اور اپنے دیوانے صدر کی نرم دلی اور دوسروں کی خدمت کے جذبے کو سراہنے لگے؟

یہ سراسر احمقانہ بات ہے۔ ایک ایسا فاترالعقل شخص جس نے تین مسلمان ملکوں پر حملہ کردیا، جن میں سے دو ممالک اس فہرست میں شامل ہیں جن کے پناہ گزینوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کی گئی تھی، یہ دنیا کے لیے خطرے کی بات ہے، جس نے مبینہ طور پر بشارالاسد کی جانب سے کیے گئے کیمیائی حملے میں 60 سے زائد شہریوں کی ہلاکت کے بعد شام پر 59 میزائل داغ دیے، لیکن شامی خود کش بمبار کی جانب سے ہونے والے قتل عام کے بعد کچھ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ انجیلا مرکل بھی اپنی عقل کھو بیٹھی ہیں اور ڈاؤننگ اسٹریٹ کے میٹرن سگنورا موغرینی اور دیگر طاقت ور حکم رانوں کی طرح ٹرمپ کی مدح سرائی کر رہی ہیں۔ کیا اس حقیقت کا کسی نے ادراک نہیں کیا کہ ٹرمپ امریکا کو جنگ کی طرف لے جارہے ہیں؟

پینٹاگون کو زیادہ اختیارات دینا کسی بھی امریکی صدر کا سب سے خطرناک کام ہے، مطلب اب سیکریٹری دفاع جیمز ’پاگل کتا‘ میٹس سر قلم کرنے والے سعودیوں کی یمن پر بم باری کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

اس مجرمانہ معاشرے میں امریکی انٹیلی جنس اثاثوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ خلیج کے عربوں کو قیاس آرائیوں پر مبنی آئیڈیا دے رہا ہے کہ ایران عرب دنیا کو فتح کرنا چاہتا ہے۔ میٹس نے اسی مہینے اپنے سعودی میزبانوں سے کہا،’’اگر خطے میں کوئی مسئلہ ہو تو اس کا ذمے دار آپ ایران کو پائیں گے۔‘‘ اسی طرح کا معاملہ مصر کے ساتھ ہوا، پھر! اب وہ داعش کے حملوں کی زد میں ہے کیوں کہ مصری صدر اپنے ہزاروں لوگوں کو ’غائب‘ کر چکا ہے؟ اسی طرح کا معاملہ ترکی کے ساتھ ہے جس کا پہلے سے زیادہ جنونی صدر اپنے ہزاروں لوگوں کو پابند سلاسل کر چکا ہے۔

اور اسی اثنا میں قانون کے ذریعے خود کو حاکم مطلق بنا چکا ہے۔ چلیں اب طیب اردغان کو ترکی میں خلیفہ کی طاقت دینے والے پُرفریب ریفرینڈم (استصواب رائے عامہ) پر ٹرمپ کے ردعمل کا مختصر جائزہ لیں۔ فرانسیسی اخبار لبریشن کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد سے 47ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، 1لاکھ 40ہزار پاسپورٹ منسوخ کیے گئے ہیں، ایک لاکھ بیس ہزار مرد و خواتین کو ملازمتوں سے جبری برطرف کردیا گیا ہے۔ ان میں آٹھ ہزار فوجی افسران، پانچ ہزار ماہرتعلیم، چار ہزار ججز اور وکیل، 65میئر اور دو ہزار صحافی شامل ہیں۔ بارہ سو اسکول، پندرہ جامعات اور 170اخبارات، ٹی وی و ریڈیو اسٹیشنز بند کیے جاچکے ہیں۔

حالیہ انتخابات نے اردغان کو اپنی زیادتیوں کو قانونی شکل دینے کے لیے محدود اکثریت دی ہے، ٹرمپ نے ترک صدر کو ان کی فتح پر مبارک باد دی۔ اسی طرح انہوں نے مصری صدر عبدل الفتح السیسی کو بھی ’دہشت ‘ کے خلاف ’جنگ‘ لڑنے پر مبارک باد دی، وہ ’جنگ‘ جو ال سیسی کی پہلے منتخب صدر کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد اسے اقتدار میں لائی۔

ہم جانتے ہیں کہ امریکا کی خصوصی فورسز نے یمن پر حملہ کر کے القاعدہ کے ارکان سے زیادہ عام شہریوں کو قتل کیا۔ لیکن ہم اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے کہ افغان صوبے ننگر ہار میں ’بموں کی ماں‘ نامی بم نے کیا کیا؟ پہلے اس نے داعش کے 60 جنگ جوؤں کو ہلاک کیا۔ پھر اس نے داعش کے سو جنگ جوؤں کو قتل کیا اور ایک بھی عام شہری ہلاک نہیں ہوا، یقیناً یہ امریکا کی فوجی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے؟ لیکن پھر، پُراسرار طور پر کسی کو بھی اس بڑے بم دھماکے کے مقام پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، کیوں کہ یقیناً عام شہری بھی ہلاک ہوئے؟ یا اس لیے جو کہ حقیقت بھی ہے کہ داعش کے بچ جانے والے جنگ جوؤں نے دھماکے کے بعد امریکا کے زمینی فوجی دستوں کے ساتھ لڑائی شروع کردی؟

اب ٹرمپ شمالی کوریا کو دھمکانے کے لیے بحری جنگی گروپس کو بھیج رہے ہیں جو خود ان کے لیے بھی ایک بچکانہ دھمکی ہے۔ اے خدا! اب بھی یہ شخص ’نرم دل‘ اور ’دوسروں کی خدمت ‘ کرنے والا ہے؟ یہ بات بھی سبق آموز ہے کہ اپنے پہلے ایڈیشن کے بعد ’نیویارک ٹائمز‘ نے اپنی سرخی ’Trump’s Syrian “anguish‘ کو تبدیل کرکے “Trump Upends His Own Foreign Policy”کردیا، یہ ابھی تک اسے ’خارجہ پالیسی‘ (جو کہ ہے ہی نہیں) کا تحفہ دے رہے ہیں۔ مجھے پہلے اوریجنل ایڈیشن کی سرخی پڑھنے کو دی گئی جو کچھ یوں تھی “On Syria Attack, Trump’s Heart Came First”۔ ساز باز! اگر یہ درست ہے تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آہستہ آہستہ نیویارک ٹائمز کو احساس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے ’شوٹنگ فرام دی ہپ‘ صدر کی محبت میں گرفتار ہورہا ہے۔

اب ہمیں کوریا کی جنگ کا انتظار ہے، اس با ت کو بھول کر کہ ماضی میں بھی اس طرح جنگ نے امریکیوں، برطانیوں کی طرح کورین اور چینیوں کو بھی خون میں نہلا دیا تھا۔ شاید ٹرمپ اپنے طور پر جنوب مشرقی ایشیا کو اپنی حقیقی جنگ کا محور بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ یقیناً ٹرومین کے ساتھ ٹرمپ کا موازنہ حقیقت کے قریب تر ہے۔ ٹرومین روز ویلٹ کی موت کے بعد اس وقت آئے تھے جب دوسری جنگ عظیم اختتام پر تھی اور جنگ کے زمانے میں ان کی اہم کام یابی بھی جنوب مشرقی ایشیا میں تھی: ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانا۔

یہ ہیں ٹرمپ کے ابتدائی سو دن ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔