100 دن: دعوے اور حقائق

زاہدہ حنا  اتوار 7 مئ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

100 دنوں کی زندگی میں بھلا کیا اہمیت ہوتی ہے؟

ہوسکتا ہے آپ کو یہ خیال ہو کہ انسانوں کی زندگی میں اہمیت تو ایک دن کی بھی ہوتی ہے لیکن نومنتخب صدر امریکا کے لیے وہائٹ ہاؤس میں گزرنے والے ابتدائی 100 دن بہت اہمیت کے حامل تھے۔ اگر ان کے حامی بہت تھے تو ان کی مخالفت کرنے والے اور انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے بھی بے شمار تھے۔ ان ابتدائی دنوں میں وہ امریکی صدارت کے لطف اٹھارہے تھے اور امریکا کے مختلف شہروں میں ان کی مخالفت میں بلاناغہ جلوس نکل رہے تھے۔ اخبارات ان کی پالیسیوں پر انگشت نمائی کررہے تھے۔ ان کے بارے میں بہت کٹیلے کارٹون شایع ہورہے تھے۔

ان کارٹونوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے سنجیدہ اور معتبر تجزیہ نگاروں کی تحریروں کا جائزہ لیجیے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے سابق صدر اوباما کی امیگریشن پالیسی پر جو اقدامات کیے انھیں کانگریس اور عدالتوں کی مخالفت نے کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا۔ انھوں نے اس یقین اور اعتماد کے ساتھ وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھا تھا کہ دنیا اور امریکا کے بارے میں ان کی جتنی تعلیم ہے اور جو ان کی معلومات ہیں، اس کو کام میں لاتے ہوئے وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب رہیں گے لیکن دنیا کے معاملات کو وہ جس عینک سے دیکھ رہے تھے، اس کا زاویہ درست نہیں تھا۔ انھیں یہ بات سمجھنی پڑی کہ چین کے بارے میں ان کے اندازے درست نہیں تھے اور اس سے دوستی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ان کے معاونین نے بتایا تھا کہ ناٹو اب ایک بھولی بسری کہانی ہوچکا ہے، تو یہ ان کے مشیروں کی خام خیالی تھی۔

ان کا خیال تھا کہ وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی وہ جو چاہیں گے، کرسکیں گے لیکن ہر قدم پر انھیں یہ بات یاد دلائی گئی کہ امریکا بھر میں آزاد اور خودمختار عدالتیں موجود ہیں جو قدم قدم پر ان کی مزاحمت کریں گی۔ ان کے لیے سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ان کی اپنی ریپبلیکن پارٹی جو کانگریس میں عددی برتری رکھتی ہے، وہ ان کی ہر رائے سے اتفاق نہیں کرتی۔ ابتدائی 100 دنوں میں ہی انھیں اندازہ ہوگیا کہ بہت سے دعووں اور وعدوں سے انھیں کسی نہ کسی طرح واپسی اختیار کرنی ہوگی۔

اسی طرح انھیں خارجہ امور کے بارے میں اپنے سیاسی مشیروں کے بجائے نیشنل سیکیورٹی ٹیم کے افراد پر بھروسہ کرنا پڑا جو مختلف ملکوں سے امریکا کے تعلقات کے بارے میں برسوں پر پھیلا ہوا تجربہ رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ صدارت ایک بہت مشکل اور ذمے داری والا کام ہے۔ اس انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے ایک قریبی دوست اور کاروباری شریک نے کہا کہ ان 100 دنوں میں وہ دو مرتبہ صدر سے ملاقات کرچکے ہیں اور یہ اندازہ ہوا ہے کہ صدارت اور کاروبار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کاروبار میں ہم جو فیصلے کرتے ہیں وہ بروئے کار آجاتے ہیں لیکن حکومتی امور میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔

اب اسی معاملے کو دیکھیے کہ صدارتی مہم کے دوران مسٹر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا آنے والوں پر سفری پابندیاں عائد کردیں گے۔ قصرِ صدر میں قدم رکھتے ہی انھوں نے سفر پر پابندی کا یہ حکم جاری کیا لیکن عدالتوں نے ان کا یہ حکم نامہ منسوخ کردیا۔ صدر ٹرمپ کے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا، انھوں نے سفری پابندیوں کو نافذ کرنے کے لیے ایک نیا اور قدرے بدلا ہوا حکم نامہ جاری کیا لیکن اس بارے میں بھی انھیں منہ کی کھانی پڑی۔

امریکا کے جن شہروں میں غیر قانونی تارکین وطن پناہ لیے ہوئے ہیں، ان شہروں کو خصوصی وفاقی فنڈ ملتے ہیں جن سے ان غیر قانونی پناہ گزینوں کی مدد کی جاتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی آنکھ میں یہ وفاقی فنڈ کھٹکتے تھے، ان کا خیال تھا کہ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والوں کو سرحدوں سے باہر دھکیلنے کی ضرورت ہے، نہ کہ انھیں کسی بھی قسم کی امداد دی جائے۔ اس محاذ پر بھی ان کے حصے میں ناکامی آئی۔

ان کے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ سابق صدر اوباما کی صحت پالیسی جس کے خلاف ری پبلیکن پارٹی برسوں سے مہم چلا رہی تھی، اسے کانگریس میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی صدارتی مہم کے دوران انھوں نے اپنے ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ جس دن وہ وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھیں گے اسی روز اس قانون کو یک قلم منسوخ کردیں گے۔ تمام ریاستوں کے گورنروں کی ایک میٹنگ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم میں سے کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ صحت پالیسی اس قدر پیچیدہ ہوگی۔ ان کے مشیروں نے انھیں مزید شرمندگی سے بچانے کے لیے اوباما ہیلتھ کیئر پالیسی کو ختم کرنے کے لیے بہت کام کیا اور یہ کوشش کی گئی کہ جس روز ان کی صدارت کے 100 دن پورے ہورہے ہیں، اس روز اس پالیسی کو ہاؤس میں پیش کردیا جائے لیکن ان کے مشیروں کی کوششوں کے باوجود بمشکل ایسا ممکن ہوسکا۔

صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد مسٹر ٹرمپ اور ان کے مشیروں کو اندازہ ہوا کہ وہ سرکاری معاملات اور طرزِ حکمرانی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ ان کے یہ مشیر قانون سازی کی باریکیوں سے بھی واقف نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ کو اس الجھن کا بھی سامنا ہے کہ ان کی پارٹی میں قدامت پسند اور اعتدال پسند اراکین کے درمیان مختلف معاملات پر گہرا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کے دفتر سے یہ اعلان کردیا گیا کہ 100 دن پورے ہونے سے پہلے ٹیکس پروپوزل پیش کردیا جائے گا لیکن دی ہوئی مدت پوری ہونے سے پہلے جو ٹیکس پروپوزل سامنے آیا، وہ صرف ایک صفحے پر مشتمل تھا اور اس میں ٹیکسوں کی ادائیگی کو سہل بنانے کے طریقے بیان نہیں کیے گئے تھے جس پر خود ری پبلیکن ارکان کو بھی اعتراض ہے۔

انھوں نے شام کے بشارالاسد کے بارے میں انتخابات سے پہلے جو بیانات دیے تھے، ان سے بھی انھیں اس وقت واپسی اختیار کرنی پڑی جب شام میں کیمیاوی حملہ ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بشارالاسد کی افواج نے شامی باغیوں پر کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ با بار یہ کہہ چکے تھے کہ ہم سب سے پہلے امریکا کے مسائل سے نمٹیں گے اور دوسرے ممالک کے معاملات میں نہیں الجھیں گے۔

ان 100 دنوں میں ان کی کئی یورپی ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے انھیں یقین دلایا کہ ناٹو آج بھی یورپ اور امریکا کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے۔ یوں ٹرمپ صاحب جو ’ناٹو‘ کو ازکار رفتہ کہتے ہوئے آئے تھے اور امریکا کو اس تنظیم سے علیحدہ کرنے کی بات کرتے تھے، انھوں نے اچانک اعلان کردیا کہ وہ ناٹو سے علیحدہ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ انھوں نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ بعض معاملات کو گہرائی سے نہیں جانتے تھے اور انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو کچھ بھی کہا وہ ان کے مشیروں کی بتائی ہوئی باتیں تھیں۔

اسی طرح انھوں نے چین سے تعلقات کے بارے میں جو سخت گیر موقف اختیار کیا تھا، اس سے بھی انھیں پسپائی اختیار کرنی پڑی کیونکہ نیشنل سیکیورٹی کے اعلیٰ حکام نے انھیں بتایا کہ چین سے تجارتی اور سفارتی روابط میں بہت فائدے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سالہا سال سے امریکی خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ہیں اور باریک بینی سے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ امریکا کے مفادات کا تحفظ کس طرح ہوسکتا ہے۔

انھوں نے میکسیکو اور امریکی سرحد پر کنکریٹ کی جس دیوار اور اس پر لگائی جانے والی خاردار باڑ کا شور مچایا تھا، اس بارے میں بھی وہ اور ان کے مشیر بالکل خاموش ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکڑوں میل لمبی اس دیوار کے لیے ابھی تک ایک ڈالر بھی مختص نہیں کیا گیا ہے جب کہ اس کے لیے کروڑوں ڈالر یا شاید اس سے بھی زیادہ کی ضرورت ہوگی۔

اپنے ابتدائی دنوں میں صدر ٹرمپ نے معتبر اور موقر امریکی اخباروں اور ٹیلی وژن چینلوں کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک کیا اور انھیں جعلی خبروں کو بنانے اور پھیلانے والے ادارے قرار دیا۔ وہ اپنی ایک پریس کانفرنس سے ملک کے نہایت معتبر اور اہم اخباروں کے نمایندوں کو بھی نکال چکے ہیں۔ اخباروں اور ٹیلی وژن چینلوں کی اس بے توقیری نے ان کی ساکھ اوراعتبار کو کم کیا۔

100 دن کے آئینے میں صدر ٹرمپ کی صدارت کا جائزہ لیا جائے تو یہ کچھ دل خوش کن نہیں ہے۔ امریکا جو دنیا کی عظیم جمہوریت ہے وہ اس وقت ایک اخلاقی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ ان 100 دنوں میں ہمارے ان سیاستدانوں کے لیے بھی ایک سبق پوشیدہ ہے جن کے خیال میں جمہوریت ایک ایسا کھیل ہے جو زور زبردستی اور دریدہ دہنی سے جیتا جاسکتا ہے اور اقتدار پر قبضے کے لیے جھوٹ بولنا اور کچھ بھی کر گزرنا کوئی خاص بات نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔