ایک ناپسندیدہ کالم

عبدالقادر حسن  اتوار 7 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

گجرات کے ایک مشہور و معروف شاعر استاد امام دین گجراتی کے گھٹنے میں درد ہوئی تو استاد نے اپنی اس تکلیف کو یوں بیان کیا کہ میرے گھٹنے میں درد جگر مام دینا۔ افسوس کہ میں استاد کی طرح قادرالکلام نہیں ہوں اور اپنے پاؤں کی انگلیوں کے درد کو شاعرانہ انداز میں بیان نہیں کر سکتا ورنہ استاد کے گھٹنے میں جو تکلیف تھی اس کو کئی طرح سے بیان کر سکتا تھا۔ تکلیف تو پاؤں کی انگلیوں میں ہے لیکن ان انگلیوں سے دور ہاتھ کی انگلیاں بھی کام نہیں کر رہیں۔

معلوم ہوا کہ انسان آپس میں جتنے بھی لڑتے رہیں ان کے جسم کے اعضاء ایک دوسرے کا درد خوب محسوس کرتے ہیں اور جب بھی موقع آتا ہے وہ اس کے اظہار میں کنجوسی نہیں کرتے جیسے استاد نے کہا تھا ’میرے گوڈے میں درد جگر مام دینا۔‘ گھٹنے کے درد کو استاد نے درد جگر بنا دیا اور یہ استاد ہی بنا سکتا تھا کہ گھٹنے کے درد کو استاد نے کس قدر محسوس کیا لیکن اس درد پر ایک مصرع کہہ کر انھوں نے اپنے درد گھٹنا کو عام کر دیا۔ گھٹنے گوڈے کے درد کو کون سنجیدگی سے لیتا تھا مگر استاد نے اسے اس قدر محسوس کیا کہ ان کا گھٹنا بھی ضرب المثل بن گیا۔

استاد کے دوسرے اعضاء گھٹنے کے درد پر رشک کرتے ہوں گے لیکن میرا یہ درد جو انگلیوں تک پہنچ گیا اور مجھے کسی حد تک ناکارہ کر گیا میرے جس مہربان نے انگلیوں کے اس درد کو بے جان کر کے مجھے کالم لکھنے کے قابل کر دیا علاوہ اس کے کہ قارئین کو شاید اس سے کچھ خاص خوش نہیں ہوں لیکن میری دیہاڑی لگ گئی اور میں غیر حاضری سے بچ گیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس اندھیرے کا شکار ایک میں ہی نہ تھا اس لاہور شہر کے کتنے ہی قلمکاروں کی غیر حاضری لگ گئی۔

ان کے خیالات ان کے ذہنوں میں کلبلاتے رہ گئے مگر ہمارے اس دور میں کسی کے خیالات ظاہر ہوں یا ذہنوں میں الجھتے رہ جائیں ایک ہی بات ہے۔ جن لوگوں نے بڑی جان سوزی کے ساتھ اپنے اندر کی بات ظاہر کر دی ان کو کیا مل گیا اور جن کی بات ان کے دل میں ہی رہ گئی ان کا کیا کھو گیا یہ خیالات کی بدقسمتی کا زمانہ ے اور بہتر یہی ہے کہ دل کی بات دل ہی میں رہ جائے۔ عمر گزر گئی سفید بے داغ کاغذوں کو داغدار کرتے لیکن اس کا نتیجہ سوائے ماہ بہ ماہ کی تنخواہ کے اور کچھ نہ نکلا۔ اب آپ اس تنخواہ کا نہ پوچھیے پتہ نہیں کہاں سے آئی اور کہاں چلی گئی۔ کسی بے وفا معشوق کی آنکھوں کی طرح جو ہمیشہ ماتھے پر رہتی ہیں۔

ہم عجیب لوگ ہیں جو روزی روزگار کے لیے پورا مہینہ دل کی مار کھاتے ہیں لیکن مہینہ ختم ہونے پر نہ دل خوش ہوتا ہے نہ ا سکا کوئی مطالبہ پورا ہوتا ہے۔ سبھی محروم رہتے ہیں کوئی کم کوئی زیادہ۔ ایک زمانہ تھا جب یکم کو تنخواہ ملتی تھی تو جیسے نئی زندگی مل جاتی تھی۔ اب تنخواہ ملتی ہے تو بازار میں گاہکوں کے منتظر جشن مناتے ہیں۔ مزدور کی مہینہ بھر کی کمائی چند لمحوں میں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہے۔

آپ مہینہ بھر جس کے لیے محنت کرتے ہیں وہ ہر ماہ کی پہلی تاریخوں کو آپ کا ہنس کر استقبال کرتا ہے اگر آپ اس کے مقروض ہیں تو اسے آپ سے مل کر جو خوشی ہوتی ہے اسے یہی دکان دار جانتا ہے جسے کچھ ملتا ہے جس کا قرض وصول ہوتا ہے۔ یا وہ کسی کو اپنا مزید مقروض کرتا ہے۔

نہایت ہی بدصورت تحریر پر معافی جو بدتمیز انگلیوں کی وجہ سے ہے لیکن چھٹی نہیں کر سکتا کہ غیر حاضریاں بہت ہو گئی ہیں لہٰذا بری اور بھدی تحریر لازم ہے کہ یہی تحریر ہی حاضری ہے اور اسی کا نام نوکری اور کچھ لکھنا ہے تا کہ قارئین کو کچھ ملتا رہے ورنہ وہ بھاگ جائیں گے اور سارا سلسلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت میری بیمار اور کسی حد تک معذور انگلیاں میرا ساتھ تو دے رہی ہیں لیکن بہت ہی بادل نخواستہ، نہ خیالات میں ربط ہے نہ تحریر میں روانی ہے اس لیے ان حالات میں لکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور عزت اسی میں ہے کہ قلم کو روک کر ان بیمار انگلیوں کے سپرد کر دیا جائے جتنا کچھ لکھ لیا ہے، اتنا ہی کافی ہے، اسے قبول فرمایئے۔ ہاتھوں نے ساتھ دیا تو آپ کو پریشان کیا جاتا رہے گا لیکن یہ سب جب تک ہے ایک جملہ ہی لکھنا نہیں چاہتا فی الحال مجھے میری کوتاہی پر معاف کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔