دشت صحافت میں بگولے اور ٹیکنالوجی  (دوسرا حصہ)

نادر شاہ عادل  اتوار 7 مئ 2017

صحافی ادب سے رشتہ جوڑے، انگریزی ادب سے کسب فیض کرتے ہوئے اردو کا جو فکری، ڈرامائی فکشنل، ادبی، تنقیدی اور ساختیاتی سرمایہ جستہ جستہ ہماری لسانی، صحافتی اور نصابی تدریس کی چھلنی سے نکھرتے ہوئے تہذیب کے ارتقا کا اثاثہ بن گیا ہے، اسی ارتقائے صحافت میں مارشل میکلوہن کی کتاب کا بھی ایک اہم کردار ہے، یہ بات میں صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت میں کہہ رہا ہوں، کسی مربوط تحقیقی مقالے کے طرز پر نہیں کررہا، کیونکہ ہم کہاں کے دانا، کس ہنر میں یکتا، بے سبب اپنے نئے دشمن اہل صحافت میں کیوں پیدا کریں۔

میکلوہن نے پرنٹ ٹیکنالوجی کی وسعت پذیری کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بنیادی نظریہ پیش کیا کہ قدیم وجدید ذرایع ابلاغ میں فرق عمل اور رد عمل کا ہے، جسے زماں و مکاں کی تفاوتوں کے خاتمہ میں دیکھنا چاہیے۔ پہلے خبر بیل گاڑی سے چل کر شہروں اور دیہات کے کونے کھدروں میں پہنچتی تھی، آج خبر آواز اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہے، ادھر خبر آئی، ادھر اس کا عمل اور ردعمل قیامت برپا کرگیا۔ تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے۔

آزاد پریس کی مخفی طاقت سے پریشاں غیر مرئی حکومتیں عموماً اپنے بہت سے اہل نظر کے ذریعے اکثر سیمینار یا سیاسی بیانات میں کہتی ہیں کہ صحافتی آزادی کا تعین پیشہ ور صحافی کے ضمیر سے نہیں اخباری پالیسی، ادارہ جاتی تخمینوں، اشاریوں، برانڈ کی مقبولیت اور حکومت کے اشارہ ابرو سے ہوتا ہے۔ ایک رپورٹر، کالم نویس یا مضمون نگار اور فیچر رائٹر کی کوئی بھی تحقیق یا تخلیق روک لی جاتی ہے، اگر اخبار کی پالیسی کی ناک اس سے ٹکراتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا کہ ایک قلمکار، رپورٹر، ایڈیٹر، یا سینئر صحافی اخبارات کی چھوٹی سی دنیا میں کئی چکر کاٹتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں۔

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے

اگر اہل ایماں کی جگہ ’’اہل صحافت‘‘ لکھ دیں تو کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ خبر روکنے پر رپورٹر جھنجھلا کر اخبار چھوڑ دیتا ہے یا اصول پسندی کے تحت بطور احتجاج خبریں دیتا ہے، مگر اس کے اندر کا شعلہ بجھنے لگتا ہے، اس ضمن میں باب وڈورڈز اور کارل برنسٹائن کا واٹر گیٹ اسکینڈل زیر بحث آیا، آج ’’اندر کی خبر‘‘ پر سرل المیڈا یاد آئے، ایک معاصر ایڈیٹر کی انا کا مسئلہ بیچ میں در آیا، اور اس اعتراض کی بنیاد کمزور ہوئی کہ ایڈیٹر کا ادارہ ختم یا بے وقعت سا ہوگیا ہے، ہر گز نہیں، جہاز سمندر میں کپتان کے اشارہ کا منتظر ہوتا ہے، جس طرح آفاقی ادب نعرہ جاتی، مقصدی اور قومی نغموں کا پابند نہیں ہوتا، انقلاب کسی انقلابی شاعر کے بیاض کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ ساری بپھری قوتوں کے اجتماع اور ’’جوش اشک‘‘ سے نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

بے خوف ایڈیٹر اصولوں پر ڈٹ جاتے ہیں مگر جب پورا سماجی اور معاشی نظام اصول، اخلاق، ضابطہ یا شفاف انصاف پر مبنی نہ ہو وہاں انارکی اور بے یقینی معمول بن جاتی ہے، ایڈیٹر اخبار کی ادارہ جاتی انگوٹھی کا نگینہ ہوتا ہے، اس کا کپتان ہوتا ہے، اخبار کو ڈبو اور ترا بھی سکتا ہے، مگر پھر میکلوہن کی تھیوری بیچ میں آئے گی کہ ٹیکنالوجی کی توسیع نے اخباری کارپوریٹ کلچر کو ہی تبدیل کردیا، انسان کا مرکزی اعصابی نظام بھی میڈیا کے زیر دام آگیا ہے، مگر میڈیا سر نگوں کبھی نہیں ہوتا۔

مانا سرل المیڈا کے کالم کی ادبیت دلفریب اور دھماکا خیز خبر میں سیاست گری ایک ہنر، مگر ان کی خبر جس طرح چھپی وہ اس سارے صحافتی مشاعرہ میں جان غزل تھی، جس کی صحت عدم صحت، معروضیت، موضوعیت اور ساختیت پر درجنوں تبصرے، کالم اور خبروں کے انبار لگائے گئے، کسی کا کالم روک لیا جائے یا اسے ایڈٹ کردیا گیا ہو تو وہ کسی دوسرے اخبار سے وابستگی اختیار کرلیتا ہے، ایسا زندگی کے کئی شعبوں میں ہوتا ہے، آج یہ ہورہا ہے کہ خبر کی خبریت، اس پر عمل اور ردعمل کا تازہ جائزہ پاناما لیکس اور نیوز لیکس کے آئینہ میں لگایا جارہا ہے، صحافیوں سمیت کئی اہل دانش نے بڑی پرمغز باتیں کیں ہیں۔ ادھر چینلز پر بقراطوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔

بہرحال ہر کوئی بڑا صحافی اور اسٹار فٹ بالر نہیں ہوتا، کرسٹائن رونالڈو یا میسی نہیں ہوتا، دنیا کے بہترین فٹبالروں کی ٹیم ہوتی ہے، مگر ارجنٹائن کا میرا ڈونا اور برازیل کا پیلے، چمن میں برس ہا برس تک دیدہ ور کہلاتے ہیں۔کوئی شک میں نہ رہے کہ آزادی صحافت کی جدوجہد بے مثال تھی، کئی ستارے ہیں، بعض افق سے غائب ہوئے، دشت صحافت کے بھی کئی میراڈونا ہیں، صحافت میں اضمحلال یا زوال کی نشانیاں اور آثار پائے جاتے ہیں تو اس سوال کا جواب ان ہی کے ذمے ہے جنھوں نے اپنی صحافت مفاد پرستی اور حکمرانوں کے طبقاتی جال میں پھنسا دی۔

رپورٹر تو آج بھی وہی اچھا جس کے تمام اہل اقتدار سے بے داغ ذاتی تعلقات ہوں، لیکن اسے آپ ’’تھیف آف بغداد‘‘ کا نام نہیں دے سکتے، ایسے بھی کرائم رپورٹرز تھے یا ہیں جو آئی جی کو رات گئے جگا کر خبر کی تصدیق کرتے ہیں، کئی دیو قامت اور سچے بزرگ یا جواں سال صحافی جبین ِ صحافت کا زیور تھے، جن کی کوششوں سے اخبارات کا حسن ماند پڑا اور نہ جھوٹی خبروں سے صحافت کے منہ پر سیاہی ملی گئی، وہ کوچہ قاتل میں بستے آئے ہیں، متوسط طبقہ کے ذہین اور محنتی صحافیوں کو ہم نے سڑکوں پر پیدل چل کر خبروں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دیکھا۔

نیوز فوٹوگرافرز کیمرے اٹھائے ایم اے جناح روڈ ، صدر، بولٹن مارکیٹ، اورنگی، کورنگی، کیماڑی، ماری پور، منگھوپیر کی طرح ملک کے دیگر شہروں اور دیہات میں خبریں تلاش کرتے اور انسانی مصائب و آلام کی تصویریں بناتے، جن میں زندگی بولتی تھی، لوگ بہتے ہوئے آنسو پیتے تھے، نیوز فوٹوگرافرز کی تصویرپر اخبارات نازاں تھے، حالانکہ وہ خاموش تصویریں تھیں، یہی وجہ ہے کہ اسلم اظہر اور آغا ناصر کو آج کے جدید ترین ڈیجیٹل سہولتوں سے لیس سربراہان اور فن کے جوہریوں سے ایک الگ مقام حاصل ہے۔

فلم ’’بن حر‘‘ کا ری میک گزشتہ سال بنا مگر 6 عشرے پہلے بننے والی فلم کے مقابلے میں یہ ڈیجیٹل کچرا ہے۔ وجہ؟ ڈائریکٹر ولیم وائلر کا ٹیکنالوجی پر مکمل انحصار نہیں تھا، چند روایتی کیمرے تھے، مضبوط اسکرپٹ تھا اور لارجر دین لائف اداکاروں کا جمگھٹا، وہ تخلیق کا دیوتا نکلا، اس کی ہیروئن حیا حراریت کو آج بھی ’’بن حر‘‘ میں دیکھیے تو اس کے حسن وحیا کی ضیا پاشی اور محسوسات و جذبات کا فطری اظہار اسکرین کو چکاچوند کرجاتا ہے، فن اداکاری کو فلمی پنڈتوں نے کیا سے کیا بنا دیا؟

فلمی یا ٹی وی ہیروئن میکلوہن کی میکانیکل دلہن لگتی ہے، نیوز فوٹوگرافرز کی تصویریں کسی کا دل یقیناً بہلا نہیں سکتیں مگر ہزاروں کے دل دہلا سکتی ہیں، افریقہ میں بھوک، قحط اور غربت سے نڈھال قریب المرگ سیاہ فام بچی کی عہد ساز تصویر فوٹوگرافر کیون کارٹر کی زندگی کا حوالہ بن گئی۔ شکایت بجا ہے کہ میڈیا میں لحاظ و مروت کا چلن نہیں رہا، دریدہ دہنی عام ہے، مگر میڈیا کی آزادی کے الیکٹرانک تجربوں سے مرعوب جس کلچر نے سیاست و میڈیا کو نظروں سے گرایا ہے اس پر کسی آنکھ سے آنسو اس لیے بھی نہیں بہہ سکتا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

آج الزام یہ ہے کہ صحافت پر برا وقت آن پڑا ہے، میڈیا ٹاک سے پتہ چلا کہ خبر غائب ہوتی ہے، لیک ہوتی ہے ، چھپنے سے رہ جاتی،کاپی سے اچانک اتاری جاتی ہے، ایسے جیسے کبھی ہوائی جہاز سے کوئی ’’مسافر‘‘ آف لوڈ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرنٹ کی نمایاں خبر ایٹ دی الوینتھ آور ہٹا دی جاتی ہے۔ کیوں؟ ہزاروں ہیں قصے، کیا کیا بتاؤں۔ زندگی نے اجازت دی تو اگلی نشست میں سنائیں گے حال دل۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔