خدا ان کا بھی ہے…

شیریں حیدر  اتوار 7 مئ 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

دنیا کو بنانے والے… زمین و زمان اور کون و مکان کے مالک!! کیا دنیا بنائی ہے تو نے اور کیا اس کا مربوط نظام ہے جس کے ہم حقیر سے کل پرزے ہیں۔ کیا کاریگری ہے، میں صبح آنکھ کھولتی ہوں تو سوچنا شروع کرتی ہوں اور اپنی ایک ایک سانس کے چلنے سے لے کر سورج اور چاند کے طلوع و غروب پر محو حیرت ہوتی ہوں۔

ہواؤں کے چلنے اور موسموں کے تغیر پر عش عش کر اٹھتی ہوں۔ اپنے ارد گرد زندگی اور اس کے رنگ دیکھ کر حیرانی کے سمندر میں غوطے کھاتی ہوں ، اتنی نعمتیں کہ جن کا شکر ادا کرنے کا سلیقہ بھی ہمیں معلوم نہیں۔ زندگی بذات خود، حواس، اعضاء، صحت، خوشی، عقل اور صلاحیتیں… اس نے ہمیں پیارے پیارے رشتے دیے کہ جن کے ساتھ ہماری زندگیوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

میں یہ بھی جانتی ہوں کہ کائنات کا پورا نظام ایک مقرر قرینے سے چل رہا ہے کیونکہ اسے تو نے ہی بنایا ہے اور اسے چلانے کی قدرت بھی تیری ہی ہے۔ ایک عام انسان ہوں نا، تو عام سی سوچیں بھی بسا اوقات دماغ میں بسیرا کر لیتی ہیں، کبھی سوچتی ہوں کہ تو نے فلاں فلاں درندے، موذی جانور یا کیڑے کو کیوں پیدا کیا، سیلاب، زلزلے اور طوفانوں جیسی قدرتی آفات کو پیدا کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے، نا قابل علاج امراض کیوں لاحق ہوتے ہیں، تجھے تو سب قدرت ہے… کیا تھا اگر دنیا میں سب اچھا ہی اچھا ہوتا۔ مگر جانتی ہوں کہ جس نفس نے دنیا میں آنا ہے اسے جانا بھی ہے، یہ سب ہونی ایک نظام کے تحت ہے اور تو نے اپنے نائب فرشتوں کو ذمے داریاں تفویض کر رکھی ہیں جنھیں وہ نبھا رہے ہیں۔

یہ بھی جانتی ہوں کہ تیرے ماتحت ، تیرے نائب جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں دراصل تیری ہی قدرت ہے کہ ایک ذرہ تک اپنی مرضی سے ہلنے کا مجاز ہے نہ تیرے نائب اپنی مرضی سے کچھ بھی ایسا کرتے ہیں جسے تیری تائید حاصل نہ ہو، ہوتا وہی ہے جو تو چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ سب سے اچھا ہوتا ہے۔

میں گھر سے نکلو ں اور کسی چوک پر گاڑی اشارے پر رکی ہو، میری کھڑکی کو کھٹکھٹا کر جب کوئی کہتا ہے، ’’ باجی اللہ تیرے بچوں کو سلامت رکھے… ‘‘ میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں ، اللہ کی یہ مخلوق!!! اسے ایسا پیدا کرنے میں اس کی کیا مصلحت ہے؟ کیا وہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں کسی ایسی مخلوق کو صرف اس لیے پیدا کرتا ہے کہ ان کے پیدا ہوتے ہی گھر میں صف ماتم بچھ جائے، ان کے ماں باپ بھی انھیں اپنانے سے گھبرائیں؟ لوگوں سے نظریں چراتے پھریں، اس کی پیدائش انھیں اپنی کسی غلطی کی سزا لگے… اپنی ہی اولاد کو وہ اپنے ہاتھوں سے کسی ایسے گروہ کے حوالے کر دیں جو اسی جیسے ہوں اور گھر گھر سونگھتے پھرتے ہوں کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو۔

ڈاکٹرز اور دائیاں ایسے بچوں کی پیدائش کو یوں بھی مشتہر کر دیتی ہیں۔ ماں باپ چاہتے ہوئے بھی بالآخر اپنے بچوں کو ایسے گروہ کے حوالے کردینے پر مجبور ہوتے ہیں جو بالآخر انھیں ہیجڑے بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان کے پاس صرف یہ ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے چہروں پر میک اپ تھوپ کر، زنانہ لباس پہن کر شہروں کے سگنل والے چوکوں میں کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر، دعائیں دے کر ہاتھ پھیلائیں اور اس بھیک سے گزارا کریں یا لوگوں کے گھروں میں بچوں کی پیدائش اور شادیوں پر جا کر بدھائیاں دیں، ٹھمکے لگا لگا کر سلامیاں وصول کریں۔کیسے ہو سکتا ہے کہ میرا اللہ کسی مخلوق کو ایسے مقصد کے لیے پیدا کرے!!

وہ تو وہ ہے جو پتھروں میں بھی کیڑے پیدا کرتا ہے اور سمندر کی تہہ میں بھی اس کی مخلوقات ہیں، پہاڑوں اور غاروں میں بھی زندگی ہے جہاں انسان کی پہنچ تک نہیں… وہاں بھی زندگی کے سراغ ملتے ہیں جہاں ہماری عقل اور فہم کی پہنچ نہیں۔ اس نے کسی انسان کو اس لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ سو کر یا بے مقصد بیٹھ کر زندگی گزار دے، اس نے سب کو اعضاء عطا کیے، دل و دماغ عطا فرمائے،سب کو وہ صلاحیتیں دیں جن کا استعمال کر کے وہ زندگی کو با مقصد بنا سکتا ہے۔

اگلے روز میں نے فیس بک پر ایک لنک دیکھا جس میں نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایسے لوگوں کے لیے قرآن فہمی اور کمپیوٹر کی تربیت کی کلاسز کا اجراء کیا ہے جو معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ہیں اور ناچنے گانے یا بھیک مانگنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے، ایک نئی اور روشن سوچ کہ یہ افراد بھی اللہ کے بنائے ہوئے انسان ہیں، ہماری طرح سب کچھ کر سکتے ہیں، لکھ پڑھ سکتے ہیں، ڈاکٹر اور انجینئر بن سکتے ہیں،خلا باز، استاد ، کاروباری افراد ، شیف، میک اپ آرٹسٹ، ڈیزائنرز، ڈرائیور یا کچھ بھی بن سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں، ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے افراد معاشرے کے فعال افراد ہیں اور مثبت انداز سے زندگی گزار رہے ہیں، ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔ شکر ہے کہ ہماری تاریخ میں بھی پہلی بار ایسے لوگوں کو انسان سمجھا گیا ہے، انھیں ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق دیا گیا ہے اور اس بار مردم شماری میں مخنثوں کے لیے بھی خانہ بنایا گیا ہے۔اس کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت ان کے دیگر معاملات پر بھی توجہ دے، ان کے لیے اگر عام اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا مشکل ہے کہ ان کے باقی سنگی انھیں ہتک سے دیکھیں گے، ابتدائی تعلیم کے چند برسوں میں انھیں علم ہو جائے گا کہ ان میں اور عام انسان میں فرق ہے اور اس ایک فرق کو لے کر وہ ان کی تضحیک کریں گے۔

انھیں اپنے گھروں میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ وہ عام انسان نہیں، بلکہ ہم سے کمتر ہیں اور وہ انسان ہیں کہ جنھیں ان کے اپنے ماں باپ بھی ٹھکرا دیتے ہیں۔ ہم سب کو اپنے انداز فکر اور طرز عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا میڈیا کسی حد تک ، چند ایک ڈراموں کی مدد سے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوا ہے… مگر اس سے کتنے لوگوں کی سوچ تبدیل ہوتی ہے اور کتنے عرصے کے لیے… دو چار ہفتوں میں ہر ڈرامے کا impact ختم ہو جاتا ہے۔

شادی شدہ جوڑوں کو اس بات کی تعلیم دینا ضروری ہے کہ ان کے ہاں جس بچے کی پیدائش ہوتی ہے، وہ اللہ کی رضا سے ہوتی ہے، اس کے سوا کوئی قادر نہیں کہ ان کے پیدا ہونے والے بچے کی جنس بنائے یا اسے تبدیل کرے۔ گلی محلوں میںکھلے ہوئے ان مراکز کو کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے جو لوگوں کو اولاد نرینہ کی پیدائش کے دعوؤں پر لوٹتے ہیں۔ اولاد اللہ کی بڑی نعمت ہے، بیٹیاں ہوں یا بیٹے، ان سے پوچھیں جو اس نعمت سے قطعی محروم ہیں۔

مختلف پروگراموں کے ذریعے اور سلیبس میں ایسے ابواب شامل کر کے عام بچوں کو آگاہی دی جائے کہ انھیں بھی انسان سمجھیں، ان سے بھی اچھا برتاؤ کریں، انھیں معاشرے کے فعال افراد بننے میں مدد کریں۔ اپنے گھروں سے ہمیں بچوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ انھیں خود سے کمتر نہ سمجھیں، انھیں اپنے ساتھ کھیل میں شامل کریں ، ان کا مضحکہ نہ اڑائیں… وہ بھی اللہ کی مخلوق اوراس کے پیدا کردہ انسان ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی معاملے میں ہم سے بہتر ہوں ۔ وہ بھی ہماری طرح سب کچھ کرنے کے اہل ہیں، ان میں جو کمی یا کجی ہے وہ ان کی اپنی پیدا کردہ ہے نہ ہی اس کی وجہ سے وہ کمزور، غبی یا نا اہل ہیں ۔

انھیں بھی پیار محبت اور توجہ کی اسی طرح ضرورت ہے ، اسی طرح جس طرح ہمیں۔ ایک پودے کو بھی پنپنے کے لیے سازگار ہوا فضا کی ضرورت ہوتی ہے، مٹی، پانی، دھوپ، ہوا اور روشنی۔ آج کل کے بچوں کی سوچ مختلف ہے، ان کا طرز فکر ہم سے جدا ہے، جو کچھ ہم سوچ کر رہ جاتے ہیں اور عمل کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے… ہمارے بچے ان فکروں سے ماورا ہیں اور وہ عمل کرنے میں ہم سے بہتر ہیں۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو نئی نسل زیادہ پر عمل نظر آتی ہے، ان میں چیریٹی کا رجحان بھی زیادہ ہے اور فلاح عامہ کے کاموں میں مصروف رہنے کا جذبہ بھی۔ ان کے اس جذبے کو پنپنے میں مدد کریں، ان کی حوصلہ افزائی کریں… دامے درمے، سخنے اور قدمے ان کے ساتھ رہیں۔

حکومت اپنی ذمے داری کو سمجھے، ہر تعلیمی ادارے میں ایسے افراد کے لیے چند فیصد کوٹہ مختص کردیا جائے خواہ وہ ادارہ سرکاری ہو یا نجی، بلکہ انھیں مفت تعلیم دی جائے۔ ان کے لیے ہر محکمے میں ملازمتوں کے لیے بھی کوٹہ مقرر ہو ۔ جہاں جہاں ممکن ہو ان کے لیے ملازمتوں کا حصول آسان بنایا جائے… اور سب سے بڑھ کر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے بھیک مانگنے کی حوصلہ شکنی کی جائے، صرف انھی کی نہیں، ملک میں ہر طرح کی گداگری کو جرم قرار دے کر اس کے خلاف سنجیدگی سے کریک ڈاؤن کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔