وڈیرے کا بیٹا

جاوید قاضی  اتوار 7 مئ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جو سندھ پرگزرتی ہے وہ معاملہ بھی کچھ شبِ ہجرکی طرح ہے اور امیدِ وَصل کہیں کھو سی گئی ہے ۔ سندھ کیا ہے کھڑکی کھلی تو کچھ آپ دیکھ پائیں وہ ماجرا جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کوسو موٹو تولینا پڑا۔ اب جب بات کھلی ہے تو کْھلے طرح طرح کے زاویے، نْکتے ، زائچے اور طرح طرح کی آنکھیں ہیں، سوچیںاور حوالے ہیں۔ پچاس سال کا ہوگیا ہوں اور اگر اپنے والد کی تاریخ کو بھی حساب میں رکھوں توایک صدی سے بڑا ہوں۔ اْس سندھ کے خلاف جو وڈیروں کا سندھ ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو بھی وڈیرے کے بیٹے تھے اور ایسے کئی غیور بیٹے ہیں جنہوں نے ایسے ایسے باب رقم کیے ہیںکہ ارتقاء کی مسافتیں تیزہوئیں مستقبل کے سندھ میں ایسے کئی بیٹے پیدا ہوئے ہونگے۔ جو خیمے کئی گاڑیں گے اورکتنے یزیدوں کو چیلنج کریں گے اور سندھ بلآخر آزاد ہوگا اِن وڈیروں کے شکنجوں سے۔

زید تالپورکْنری کے زمیندار ہیں۔ذہنیت کے وڈیرے تو ہونگے، حقیقت میں نہیں ۔ وڈیرہ وہ ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ میں تھانہ ہو اور جوتوں تلے کوتوال۔

زید تالپور کی برادری میں ایک سولنگی نامی شخص نے پانی کی شاخ کے نواح میں پانی کا پمپ لگا دیا۔ جس  سے طاقتور وڈیرے کی زمینوں کی طرف جانے والے پانی کی روانی متاثر ہوئی تھی یا نہیں لیکن سولنگی پر الزام یہی تھا۔ سولنگی کا پانی کا پمپ لگانا قانونی تھا یا غیر قانونی تھا اْس معاملے کی کوئی رپٹ کہیں درج نہیں ۔ تھانیدار جو کہ طاقتور وڈیرے کا ایک خاص ہتھیار ہوتا ہے۔

سولنگی کوپولیس موبائل میں اْٹھا کر تھانے لے کر آتا ہے۔ایف آئی آر درج کیے بغیر جوتوں کی بارش برسا دیتا ہے۔ میں نے کہا نا! زید  ذہنی طور پر وڈیرہ تھا اور حقیقت میں زمیندار ۔کسی زمانے میں مْرتضٰی بھٹو اپنے کارکن کو چْھڑانے کے لیے تھانے پہنچ گئے تھے۔ ان کی بہن اس وقت ملک کی وزیراعظم تھیں۔ اقتدار انھوں نے اپنے گھر میں دریا کی طرح بہتا ہوا دیکھا ، مگر زمانہ بدل گیا تھا۔ اْن کی بہن وزیراعظم تو تھیں اور کئی وڈیروں کی قطاریں ان کی دہلیز پر تھیں مگر بہن کے اس پاور اسٹرکچر میں بھائی کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ کیا ہوا تھا بلآخر، مرتضٰی بھٹو کراچی کے ایک چوراہے پر، اپنی  ہی بہن کے زمانہء اقتدار میں مارے گئے۔

زید تالپور اپنی ذہنیت کے زور پر، تھانے تک چلے گئے اور بغاوت کر دی اِس بھرے دستور سے۔ جو وڈیوآپ کو نظر آئی وہ ایک زاویہ تھا کہ زید نے تھانے پر دھاوا بول دیا ہے ۔ یہ ہو گیا وہ ہو گیا ۔ مگر ایسا کچھ  تھانہ، حقیقت کچھ اور تھی۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر زید ٹالپر کے بیٹے حسن ٹالپرکو بھی ایسے ہی پولیس لے گئی جس طرح سولنگی کو۔ یہ نئے تھانیدار عثمان باجوہ تھے ۔ اے ڈی خواجہ کے زمانے میں وڈیرے کا بیٹا حسن تالپور جس کا کوئی قصور نہ تھا، اس کو کسی چوپائے مال کی طرح زنجیروں میں جکڑ کر تھانے میں اْسی طرح مارا گیا اور پھر یہ وڈیو میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

اب ذرا غور سے دیکھیے میسج کیا جاتا ہے کہ جو وڈیروں کے مْروّج گروہ میں نہ ہوگا اْس کا حشر یہی ہو گا اور تھانہ ، پٹواری اسی کو ملے گا جو اِس مْروّج گروہ کا ہوگا پھر بھلے ہی اے ڈی خواجہ سندھ کے آئی جی کیوں نہ ہو۔

وڈیرے کے بنیادی معنی یہ ہے کہ اسے اپنے علاقے کے تھانے پر دسترس چاہیے اور تھانیدار کو دھندہ ۔ اور بہت سے فارغ  بندے ہوتے ہیں جن کو روزگار چاہیے۔اور روزگار ایک ہی ہے’’آؤ وڈیرے کی اوطاق کے درباری ہوجاؤ‘‘۔ کل جس پارٹی میں جیالے ہوتے تھے آج درباری ہیں ۔وڈیرے کے بیٹے ہیں ، وڈیروں کی پارٹیاں ہیں۔

اوطاقیں ہیں، بنگلے ہیں ، بندوقیں ہیں،پراڈو ہیں اور’’ جئے جئے بھٹو ہے‘‘یہ وہی بھٹو ہے جس نے جناح کے پاکستان کو ، جناح کا پاکستان بنانے کے لیے سرِمقتل اپنی جان کا نذرانہ  پیش کیا اور اپنے بچے بھی پیش کیے۔ جس طرح  جناح کی تصویر ہر نوٹ پر ہوتی ہے اور نوٹ بے چارہ کیا جانے کہ اْس کا استعمال حلال کے لیے ہے کہ حرام کے لیے۔ کل جو بھٹو وڈیروں کوکمزور کرنے کے لیے ووٹ کا شعور لایا تھا۔ آج وہی بھٹو وڈیروں کی وڈیرہ شاہی مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ اس سے بڑی تاریخ کی ستم ظریفی کیا ہو گی کہ گھر کا ہر فرد گنوادیا مگر وڈیرہ نہ گیا ۔

وڈیرہ جائے توکیسے جائے، جمہوریت سے لے کر آمریت تک وہ بِکتا ہے۔ جہاں اقتدار جاتا ہے وہ اْدھر پہنچ جاتا ہے ۔ جناح سے پہلے انگریز کے ساتھ ، جناح کو اقتدار منتقل ہوا تو جناح کے ساتھ۔

جی ایم سیّد جناح سے روٹھ گئے ، عین اسی زمانے میں جب اقتدار کے مزے اْڑانے کے دن تھے۔ بھٹو اقتدار میں آئے، تو وڈیرے بھٹو کے پاس ، ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو ضیاء الحق کے ساتھ اور مشرف آئے تو مشرف کے ساتھ غرض یہ کہ ’’تھانہ‘‘ چاہیے۔

زید تالپور بیچارہ تھانے کے بغیرکچھ بھی نہ تھا اور اْس نے طیش میں آ کر تھانے پر دھاوا بول دیا۔ ہواکیا ؟ وڈیرہ تھانے کی دفاع کے لیے پہنچ گیا۔ اْس کو تھانے کی حْرمت نا گوارگزری کہ اس کو اپنی سلطنت ہلتی ہوئی محسوس ہوئی کیونکہ تھانہ اس کی سلطنت کا اِک ستون تھا ۔اْسے اپنی زمینوں پر پانی درکار تھا ۔ یوں کہیے کہ زمینداری اقتدارکے بغیر ہو نہیں سکتی۔ اگرزمیندار اقتدار سے الگ ہوا تو زمینوں کا پانی تو گیا زمینوں  پر بھی قبضہ ہونا شروع ہو گیا۔

میں ایک ایسے سندھ کی تلاش میں ہوں جس کا محور اوطاق، تھانہ یا درگاہ نشینی نہ ہو بلکہ اسکول ہو، استاد ہو اور طالبعلم ہو ۔ وڈیرے کے سندھ میں اسکولوں کے اندر بچے نہیں پڑھتے بلکہ مویشی یا گندْم کی بوریاں پڑی ہوئی ہوتی ہیںاور استاد اِن کی اوطاقوں کے درباری ہوتے ہیں۔

چلو اچھا ہوا کھڑکی کْھلی تو صحیح، ورنہ اِن بند دریچوں کے اندر کون جھانکتا تھا۔اِک عمرگزرگئی یہی باب رقم  کرتے ہوئے مجھے تو اپنے اجداد سے یہ روایت ِملی لیکن ایک یقین ِ کامل ہے کہ بھٹوکی طرح  کئی وڈیروں کے بیٹے بلآخر اِس سندھ کو اِس شکنجے سے آزاد کرائیں گے ۔ ہم بھلے چاہے بھٹو کے نواسے ہوں اْس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بھٹو اور جناح کی کئی اور روحانی اولادیں ہونگی جو اِن مزارعوں اور مزدوروں کی زندگی میں تبدیلیاں لائیں گی۔ ایک ایسا سندھ اور پاکستان بنائیں گے جس کا محور اسکول ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔