صحافیوں کی شہادت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 22 جنوری 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سیف الرحمٰن کی عمر 35 سال تھی، انھوں نے اپنی مرضی سے صحافت کا پیشہ چنا۔ بلوچستان کے انقلابی اخبار آساپ سے رپورٹنگ کا آغاز کیا۔ پھر یہ اخبار نادیدہ قوتوں کے دباؤ کے بعد بند ہو گیا۔ سیف نے پھر مختلف ٹی وی چینلز میں رپورٹنگ کی، انھوں نے ایک تعلیم یافتہ بلوچ خاتون سے شادی کی جو کوئٹہ کے سرکاری کالج میں تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں، ان کے تین صاحبزادے 10سالہ منیب الرحمٰن، 7 سالہ عبدالرحمٰن اور 3 سالہ شعیب الرحمٰن اب باپ کی آمد کے منتظر ہیں۔ سیف 10 جنوری کو کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ کے دھماکے میں شہید ہوئے۔

عمران، سیف الرحمٰن کے ساتھ کیمرہ مین تھے۔ ان کی دو بیٹیاں دو سالہ امینہ اور ایک سالہ حفصہ ایک بیوہ اور بوڑھے ماں باپ اپنے پیارے کی موت کو قبول کرنے کو تیار نہیں، اگرچہ بوڑھے باپ نے اپنے لخت جگر کو خود لحد میں اتارا، اس دھماکے میں ایک اور صحافی اقبال حسین بھی شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سیف الرحمٰن پہلے دھماکے میں لاپتہ ہوئے، 4 گھنٹے بعد حکام نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔ عمران اور اقبال دھماکے سے ہونے والی تباہ کاریوں کی خبریں عوام تک پہنچانے حادثے کے مقام پر پہنچے اور دوسرے دھماکے کا شکار ہو گئے۔ بلوچستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین علاقہ بن گیا ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق گزشتہ 6 برس کے دوران خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور فائرنگ کے واقعات میں 26 صحافی شہید اور 24 صحافی زخمی ہوئے۔

علمدار روڈ کے دھماکے میں ہلاک ہونے والے 100 سے زائد افراد میں تین صحافی اور ایدھی ٹرسٹ کے چار رضاکار بھی شامل تھے۔ ان دھماکوں کے بعد مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے ایدھی کے چار رضاکاروں کو ہلاک کر دیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ صحافیوں نے ایک کارکن کو مشتعل ہجوم سے بچایا جب کہ چار رضاکار اس تشدد کی بھینٹ چڑھ گئے، ایدھی سروس معطل ہو گئی۔ فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ غیر یقینی صورتحال اور سیکیورٹی نہ ہونے کی بنا پر کارکن ہنگامی خدمات انجام دینے پر تیار نہیں ہیں۔ علمدار روڈ پر خودکش دھماکے میں صحافیوں کی ہلاکت ایک المیہ ہے۔

اگرچہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور غیر ریاستی کردار مسلسل صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے ہیں مگر کوئٹہ کے علاوہ خضدار اور مکران ڈویژن میں صحافیوں کے لیے حالات انتہائی خراب ہیں۔ کوئٹہ میں غیر مقامی صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ سرگرمیاں انجام دینا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ کوئٹہ کے صحافی ریاستی اداروں کے ہراساں کرنے کی کارروائی کے ساتھ کالعدم تنظیموں اور پریشر گروپوں کے دباؤ کی بنا پر مشکلات کا شکار ہیں۔ مگر اب پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے تربیت نہ ہونے کی بنا پر ہلاک اور زخمی ہونے والے صحافیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

دنیا بھر میں Disaster Reporting کرنے والے صحافی سیکیورٹی کے پروٹوکول کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ اس پروٹوکول کے تحت فائرنگ اور دھماکوں کی رپورٹنگ کرے والے صحافیوں کے لیے بلٹ پروف جیکٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پھر اس قسم کی رپورٹنگ کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی طرح کی وردی نہ پہننے، اپنے ادارے کا نشان آویزاں کرنے اور حادثے کے مقام پر اس وقت تک نہ جانے کی ہدایت شامل ہوتی ہے جب تک قانون نافذ کرنے والے سیکیورٹی کلیئرنس جاری نہ کر دیں۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ جب تک حادثے کی جگہ کا معائنہ نہیں مکمل کرتا اور اس علاقے کو بم سے پاک قرار نہیں دیتا، اس وقت تک صحافیوں اور کیمرہ مین کو متاثرہ علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس دوران عملہ کسی محفوظ مقام سے رپورٹنگ اور کیمرے کا استعمال کرتا ہے۔ جب بم ڈسپوزل اسکواڈ متاثرہ علاقے کو محفوظ قرار دیتا ہے تو پھر ہی صحافی اور کیمرہ مین متعلقہ علاقے میں داخل ہو سکتا ہے، ٹی وی چینل اس وقت تک متاثرہ علاقے کی براہِ راست کوریج نہیں کرتے جب تک آپریشن جاری رہتا ہے۔ اس دوران صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ میڈیا ہاؤس ان صحافیوں کا خصوصی بیمہ کراتے ہیں۔ یہ سب کچھ صحافیوں کے تحفظ اور دہشت گردوں کو اطلاعات کی فراہمی کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں جب سے پرائیوٹ چینلز کے درمیان ریٹنگز وار شروع ہوئی ہے، خبر کے لیے معروضیت کے اصول اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی پروٹوکول کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ یوں صحافیوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے۔ میڈیا کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ کسی علاقے میں بم کی افواہ یا دھماکے کی آواز سننے کی افواہ کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کرنا عام سی بات بن گئی ہے جس کی بنا پر صرف متعلقہ شہر میں ہی نہیں بلکہ ملک کے کونے کونے میں خوف و ہراس کی فضا بن جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی مواد کی تصدیق کے بغیر خبر نہیں بنتی، افواہ کسی صورت میں تحریر یا نشر نہیں ہو سکتی، یوں افواہ کو خبر کی جگہ نشر کرنا صحافتی اقدار کو پامال کرتا ہے۔ پھر کسی دھماکے یا حادثے کے مقام پر رپورٹروں اور فوٹوگرافروں کا لائف جیکٹ

کے بغیر جانا خودکشی کے مترادف ہے۔ اس طرح سیکیورٹی عملے کی حادثے کی جگہ کو بم کی موجودگی سے پاک ہونے کی کلیئرنس کے بغیر صحافی کا اس جگہ جانا اور رپورٹنگ کرنا میڈیا کے سیکیورٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا ہاؤسز، اخباری تنظیمیں اور یونیورسٹیاں خبر کی معروضیت اور صحافیوں کے تحفظ کے معاملات پر کانفرنس، سیمینار اور ورکشاپس منعقد کرتے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس صحافیوں کی عالمی تنظیم IUJ کے تعاون سے اس قسم کی ورکشاپ منعقد کراتے ہیں۔ مگر میڈیا ہاؤس اس اہم معاملہ پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ ان کے چینل میں پینل پر بیٹھے ہوئے پروڈیوسر Exclusive خبر کے لیے رپورٹر اور کیمرہ مین کو حادثے کی جگہ پر رپورٹنگ کرنے اور براہِ راست کوریج پر مجبور کرتے ہیں۔

ملک میں کئی صحافی پروڈیوسرز کے دباؤ کی بنا پر موت کا شکار ہوئے۔ ستمبر 2007 میں کراچی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلوس پر خودکش حملے کے دوران ایک کیمرہ مین عارف کی شہادت کی بھی وجہ یہی تھی۔ محرم کے مہینے میں کراچی کے علاقے اورنگی میں بم دھماکوں میں زخمی ہونے والے صحافی جن میں ایک خاتون رپورٹر بھی شامل تھی ایسے ہی حالات کا شکار ہوئی تھیں۔ کوئٹہ میں اپنے ساتھیوں کی یاد میں ہونے والی مجلس میں خاص طور پر یہ ذکر کیا گیا کہ دو کیمرہ مین اعجاز رئیسانی اور عارف ملک کی موت کی وجہ یہی تھی۔ پی ایف یو جے کے سابق سیکریٹری جنرل مظہر عباس کا کہنا ہے کہ خطرناک علاقوں میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں کا بیمہ کرایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں کچھ نہیں ہوتا۔ دہشت گردی یا حادثے کی صورت میں براہِ راست کوریج پر بھی سخت اعتراضات ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی آپریشن کے دوران ہر لمحے کی کوریج سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو، کامرہ کمپلیکس اور شاہراہ فیصل آپریشن پر دہشت گردی کے دوران براہِ راست کوریج سے دہشت گردوں کو مدد ملنے کے امکانات پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح راولپنڈی کے قریب بھوجا ایئر لائنز کے حادثے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کا شناختی کارڈ ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر نے اسکرین پر دکھایا تھا جس کی بنا پر اس کی والدہ کو دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔ یوں براہِ راست کوریج کے معاملے کا تعلیمی اعتبار سے جائزہ لینا ضروری ہے مگر سیکیورٹی کے ضوابط پر عمل کر کے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ سیف الرحمٰن، عمران اقبال اپنے فرائض کی بجا آوری پر نثار ہو گئے مگر ان کی قربانی سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔