ایک پڑھے لکھے شخص کی نرالی منطق

نصرت جاوید  منگل 22 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

1857 کے پہلے چھ مہینوں میں بہادر شاہ ظفر کی دلی میں جو کچھ ہو رہا تھا، میں اس کو جنگِ آزادی یا غدر کہنے کی بحث میں کبھی نہیں اُلجھتا۔ اس کے باوجود گزشتہ 30 برسوں سے اس موضوع پر جو کتاب یا مضمون بھی میرے ہاتھ آ جائے اسے بغور پڑھنے کے بعد کافی دیر تک سوچتا رہتا ہوں۔ کوشش محض اتنی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ سمجھ میں آ جائے کہ کسی ملک یا معاشرے میں انتشار اور طوائف الملوکی پھیل جائے تو اس کی نمایاں نشانیاں کیا ہوا کرتی ہیں۔ ایسی نشانیوں میں سے سب سے اہم جو میں نے دریافت کی ہے، وہ یہ ہے کہ ہیجان میں مبتلا معاشروں میں لوگ حقائق کے مقابلے پر افواہوں کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں۔ جو سامنے نظر آ رہا ہوتا ہے ’’اس کے پیچھے‘‘ کیا ہے اور کون ہے کے بارے میں سوالات شروع ہو جاتے ہیں اور ایسے جوابات گھڑ لیے جاتے ہیں جو کسی طور بھی عقل و فہم کے دائرے میں نہیں آتے ۔

23 دسمبر 2012کے دن کینیڈا سے آئے ایک قادری نے بالآخر اسلام آباد میں جو تھیڑ لگایا، اس کے ’’اصل‘‘ مصنف، ہدایت کار اور سرمایہ کاروں کا ابھی تک پتہ چلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، ان کے بارے میں قطعی اور قابل فہم جوابات نہ مل سکنے کے باوجود اب بحث یہ چل پڑی ہے کہ آصف علی زرداری کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ رات گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان ایک ٹی وی پر Live شو کرنے والے اینکر کو گھبرا کر فون کریں اور قوم کے سامنے یہ عہد کریں کہ حکومت قادری دھرنا کے شرکاء کے خلاف کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لے گی۔

صدر زرداری کا قادری کو بات چیت کے ذریعے رام کرنے کا یہ عہد ان ہی کے لگائے وزیر داخلہ کے اس بیان کے چند ہی لمحوں بعد آیا جس میں رحمٰن ملک صاحب قادری تھیڑ کی تنبو، قناتیں اکھاڑنے کا فیصلہ کیے نظر آ رہے تھے۔ اس ضمن میں کچھ ٹھوس اطلاعات میرے پاس بھی موجود ہیں لیکن کچھ دنوں کے لیے خاموش رہنا زیادہ بہتر ہو گا۔ اس کالم کو لکھتے وقت میرے ذہن پر ویسے بھی ایک اور نوعیت کی پریشانی سوار ہے۔ میں اسے تفصیل سے صرف اس لیے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ سمجھ سکیں کہ میرے پاکستان میں مسلسل ہیجان کے ان موسموں میں بے پرکی کیوں اڑائی جا رہی ہیں۔

قطعی جہالت پر مبنی ایسی بے بنیاد باتوں کو میں ہرگز اہمیت نہیں دیتا، اگر ان کا تذکرہ ہمارے غریب محلوں میں تھڑوں پر بیٹھے عام انسان کر رہے ہوتے۔ زیادہ فکر اس لیے لاحق ہو گئی ہے کہ ایسی بے پرکی گھڑنے اور پھیلانے والے اسلام آباد کے خوشحال گھروں میں رہتے ہیں اور ان کا تعلق اس طبقے سے ہے جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے ۔

چند روز پہلے میں اپنے ایک مہربان دوست کے ہاں رات کے کھانے پر مدعو تھا۔ میرے یہ دوست ایک کامیاب سیاستدان ہیں اور 2002سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر کافی اہم سمجھتے جاتے ہیں۔ میرے ایک بڑے ہی با وقار بزرگ صحافی بھی اسی دعوت میں بلائے گئے تھے اور تین دوسرے شرکاء کا تعلق ان لوگوں سے تھا جو پاکستانی ریاست کی معاشی پالیسیوں کو خوب سمجھتے ہیں اور اکثر انھیں بنانے کے عمل میں بھی کافی اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

مجھے یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس دعوت میں زیادہ توجہ قادری تھیٹر کا پوسٹ مارٹم کرنے پر مرکوز رہی۔ مگر اچانک یہ سوال اٹھ گیا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کی کنٹرول لائن پر موجود افواج کے درمیان اتنی کشیدگی کیوں پیدا ہو گئی تھی جس نے بھارتی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ CBMS کے نام پر کیے گئے چند حالیہ فیصلوں پر عملدرآمد روک دے۔ اپنے ملک آئے پاکستان کی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کو واپس بھیج دے اور مدیحہ گوہر کے اجوکا تھیٹر کو ایک فیسٹیول میں وہ ڈراما بھی پیش نہ کرنے دے جس کی بڑے زور شور اور اہتمام سے تیاری کی گئی تھی۔ میں چونکہ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں دو روز امرتسر میں رہ کر آیا تھا اور میری وہاں بھارت کے وزیر خارجہ سے ایک غیر رسمی ملاقات بھی ہوئی تھی، اس لیے چند مہمانوں نے مجھے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کا تجزیہ کرنے پر مجبور کیا۔ میں نے بڑی ایمانداری سے اعتراف کیا کہ خود میری کھوپڑی میں بھی اس کشیدگی کو سمجھانے والی کوئی ٹھوس دلیل سامنے نہیں آ رہی۔

میری بے بسی اور لاعلمی کے اس مخلصانہ اظہار کے بعد ایک بہت ہی پڑھے لکھے شخص نے اس دعوت میں موجود حضرات کی فکری رہنمائی کا فریضہ سنبھال لیا۔انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اس بات کا انکشاف کیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے چند مؤثر حلقے انتہائی سنجیدگی سے اس خیال کا جائزہ لے رہے ہیں کہ صدر زرداری نے قادری تھیٹر کے بڑھتے ہوئے دبائو سے خائف ہو کر اپنے ’’غیر ملکی خیر خواہوں‘‘ سے رابطہ کیا ہو گا۔ ان ’’خیر خواہوں‘‘ کو شاید اس بات پر قائل کر دیا گیا کہ قادری کے اسلام آباد میں دھرنے کا اصل ہدف افواج پاکستان کو ایک بار پھر اس ملک کے سیاسی اور ریاستی معاملات کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لینے پر تیار کرنا ہے۔ صدر زرداری کی مبینہ کہانی ان کے ’’غیر ملکی خیر خواہوں‘‘ نے مان لی اور بھارت سے رابطہ کیا۔

سرحد گرم کرنے کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا کر دی گئی اور پاکستان کی فوج اس قضیے میں اُلجھ کر رہ گئی۔ اس دعوت کے دوسرے مہمانوں کی طرح میں بھی ان بہت ہی پڑھے لکھے شخص کی یہ کہانی خاموشی سے سنتا رہا۔ زیادہ حیرت مگر یہ جان کر ہوئی کہ وہاں بیٹھے مہمانوں کو یہ کہانی کافی معقول اور حقیقی محسوس ہو رہی تھی۔ میں پھر بھی خاموش رہا اور منافقانہ خوش دلی کے ساتھ کھانا کھاکر گھر لوٹ آیا۔ وہاں سے آنے کے بعد یہ کالم لکھنے تک میں بار بار پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کی اس بڑی ہی تخلیقی توجیہہ پر غور کرتا اور پریشان ہوتا رہا۔

ایک بہت ہی پڑھے لکھے شخص کی طرف سے جو بڑے اہم عہدوں پر فائز رہا ہے اور آیندہ کی حکومتوں میں بھی پالیسیاں بناتا ہوا نظر آ سکتا ہے بنائی اس تخلیقی کہانی کو من و عن مان لیا جائے تو ایک زرداری واقعی سب پر بھاری ہے۔ ان کے طاقتور ’’غیر ملکی خیر خواہ‘‘ ہیں۔ جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے دار ملک کی فوج کو پاکستان کے صدر کو ’’مصیبت کی گھڑیوں‘‘ سے نکالنے کے لیے کوئی کھیل رچانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ کاش کہ بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی اپنے ہی ملک میں اتنے طاقتور ہوتے جتنا اس کہانی کو گھڑنے والے نے صدر زرداری کے بارے میں تصور کر لیا ہے۔ یہ کہانی آپ کے لیے دہرانے کے بعد میں یہ ضرور جاننا چاہتا ہوں کہ اگر صدر زرداری کے غیر ملکوں میں واقعی کوئی ’’خیر خواہ‘‘ موجود ہیں تو وہ IMF کو ہماری مدد کا اشارہ دے کر ہماری معاشی مشکلات کیوں نہیں حل کرنا چاہ رہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔