سیاست کے ایکسٹرا اداکار

لطیف چوہدری  منگل 22 جنوری 2013
latifch910@yahoo.com

[email protected]

میں نے اب تک یہی پڑھا‘سنا اور دیکھا ہے کہ جمہوریت کا تختہ فوج نے الٹا‘ کسی تنظیم اور سیاسی جماعت نے نہیں لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنما چیخ رہے ہیں کہ طاہر القادری نے جمہوریت پر خود کش حملہ کرنے کی کوشش کی۔ ممکن ہے کہ وہ طاہر القادری کو قومی اتحاد سے تشبیہ دے رہے ہوں جس کی نظام مصطفی کے لیے چلائی گئی تحریک جنرل ضیاء الحق کے ظہور کا سبب بنی۔ ہر ایک کی اپنی اپنی رائے اور سوچ ہے۔

اب کئی حضرات طاہر القادری کے ماضی اور یہاں تک کہ خاندانی پس منظر تک کی باتیں کرتے ہیں‘ مزے کی بات یہ ہے کہ قادری کا خاندانی پس منظر تلاش کرنے والوں کا اپنا ماضی بھی کسی شاہی خاندان سے تعلق نہیں رکھتا‘ اس لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ کسی کے باپ کو برا نہ کہو صرف اپنے گھر پر نظر ڈال لیا کرو۔ میں طاہر القادری کا حامی ہوں نہ ان کے فکر و فلسفے کا مقلد‘ ان کی سیاسی سوچ سے بھی مجھے اختلاف ہے۔ ان کی شخصیت اور سیاست پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں لیکن بات صرف اتنی ہے کہ پاکستان کے سیاسی تھیٹرمیں کون ہے جس نے کپڑے اتار کر پرفارمنس نہ دی ہو۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ تو ٹپ آف دی آئس برگ ہے، ایسے میں طاہر القادری نے کوئی کھڑکی توڑ پرفارمنس دے دی ہے تو اس میں کیا برا ہو گیا۔

ہر اداکار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حقیقت سے قریب تر پرفارمنس دے۔ طاہر القادری نے بھی اپنے متعین کردہ کردار کو بہترین انداز سے نبھایا۔ جب سپر اور میگا اسٹار کی اداکاری سطحی ہو گی تو نیا اداکار اچھی پرفارمنس دے کر فلم ہٹ کرا سکتا ہے۔ اس موقعے پر مجھے خاندانی فنکاروں کے سر پنچ کی ایک بات یاد آ رہی ہے‘ خاندانی فنکاروں کی پنچایت میں شرفاء کے گھرانوں سے فن کاروں کی آمد سے پیدا ہونے والے معاملے پر گفتگو ہو رہی تھی‘ خاندانی فنکاروں کے سر پنچ نے شرفاء کے نمایندوں سے کہا: ’’دیکھیں جی! اگر شرفاء کے بیٹوں اور بیٹیوں نے گائیکی‘ رقص اور اداکاری شروع کر دی تو پھر ہماری بہو بیٹیوں کا کیا بنے گا؟‘‘ مجھے تو قادری صاحب کا معاملہ بھی ایسا ہی لگتا ہے‘ پاکستان کی سیاست پر قابض موروثی سیاسی گھرانوں کے سیاستدانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک معمولی مولوی اکیلا اٹھا اور لانگ مارچ کرتا ہوا‘ اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گیا‘ پورا ہفتہ میڈیا پر چھاپا رہا‘ کچھ نے دیکھاکہ اسٹیبلمشنٹ کے اس سے رابطے ہیں، امریکا اور یورپ بھی اس کے بارے میں سافٹ کارنر رکھتے ہیں، ایسے میں پاکستان کی سیاست اور اقتدارپر موروثی حق رکھنے والوں پر کپکپی طاری ہو گئی۔

انھوں نے چیخ و پکار شروع کر دی کہ طاہر القادری کون ہوتا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے رابطے رکھنے والا، یہ تو ہمارا حق ہے، ہم کسی سے رابطہ رکھیں یا نہ رکھیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ طاہر القادری جیسے لوگ کیوں‘ سیاسی منظر پر چھا گئے۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم ، ق لیگ ، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی اس بارے میں سوچا۔

جمہوریت کے موجودہ ارینجمنٹ میں اہم سیاسی جماعتیں اپنے اپنے حصے کا کیک کھا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی مرکز اور سندھ میں موج کر رہی ہے‘ ایم کیو ایم اپنا حصہ لے رہی ہے۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی نائب وزیراعظم ہیں اور ان کے ساتھیوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھاری ترقیاتی فنڈز مہیا کیے گئے ہیں۔ اے این پی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خیبر پختونخوامیں برسراقتدار ہے حالانکہ صوبائی اسمبلی میں اسے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے۔ مرکز میں اسی جماعت کے غلام احمد بلور وزارت ریلوے لے کر بیٹھے ہیں اور ریلوے تباہ ہو گئی مگر موصوف کے ماتھے پر پشیمانی کا پسینہ بھی نہیں آیا۔ ادھر پنجاب میں مسلم لیگ ن برسراقتدار ہے حالانکہ اسے بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے‘ پیپلز پارٹی بھی پنجاب کے خزانے سے حصہ وصول کر چکی ہے‘ قارئین کرام اب آپ ہی بتائیں کہ اس جمہوری ارینجمنٹ سے عوام کو کیا ملا؟ یہ سیٹ اپ دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکا نہ اقتصادی استحکام لا سکا۔ گیس ختم‘ بجلی غائب‘ کارخانے بند، بے روز گاری عام‘ قتل و غارت نان اسٹاپ۔

امریکا کے پہلوان نما نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے جنرل پرویز مشرف کو دھمکی دی تھی کہ ہمارا ساتھ دو ورنہ پتھر کے دور میں دھکیل دیے جائو گے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ جمہوری ارینجمنٹ ان کی دھمکی کو عملی شکل دے رہا ہے۔ اگر طاہر القادری کینیڈا کے شہری ہیں تو میرے دل سے پوچھیں تو میں بھی ایسا ہی چاہتا ہوں‘ ویسے یہاں کون ہے جس کا کاروبار برطانیہ‘ اسپین‘ اٹلی‘ امریکا‘ کینیڈا یا دبئی میں نہیں ہے۔ اگر کسی نے شہریت نہیں لی تو کیا فرق پڑتا ہے‘ اصل کام تو مفادات ہوتے ہیں‘ کاروبار ہوتا ہے‘ وہ محفوظ ہے تو سب اچھا ہے۔

شریف خاندان ہو یا چوہدری فیملی یا صدر آصف علی زرداری اپنا علاج تک بیرون ملک سے کراتے ہیں۔ فضل الرحمٰن وغیرہ کیا افغانستان پاسپورٹ لے کر جاتے ہیں؟ اے این پی کے اپنے تئیں فخر افغاناں جلال آباد میں دفن ہیں، کیا وہ پاکستان ہے، حالانکہ افغانستان کا قومی ہیرو احمد شاہ مسعود ہے‘ وہاں غفار خان یا ولی خان کو فخر افغان نہیں کہا جاتا ہے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے، اپنی ناکامی کو ناکامی تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں کہ ضیاء الحق نہ آتا تو ہم یہ کر دیتے، پرویز مشرف تختہ نہ الٹتا تو ملک جنت نظیر ہوتا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ان کی قیادت کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔طاہر القادری کا ڈراما اسٹیج کرنے میں مرکزی حکومت کے دو اتحادی پیش پیش تھے۔ سیاست کے پریشر گروپوں نے طاہر القادری کے پردے میں اپنا کھیل کھیلا، ان ہی اتحادیوں نے دھرنے پر پولیس ایکشن کو روکا اور حکومت سے معاہدہ کرایا۔ اگلے منظر نامے میں طاہر القادری، عمران خان، ق لیگ اور پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ انھی کے روپ میں آیندہ کے سیٹ اپ میں اپنا حصہ وصول کرے گی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سیاست میں جب روایتی ہتھکنڈے استعمال کریں گی تو پھر طاہر القادری جیسے ایکسٹرا اداکاروں کا رول بھی موجود رہے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔