ایران پر اسرائیلی ممکنہ حملہ

شبیر احمد ارمان  منگل 22 جنوری 2013
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے ایران پر تمام تر پابندیاں عائد کرنے کے بعد اب عام ایرانی شہریوں کا بین الاقوامی سفر بھی غیر محفوظ دکھائی دینے لگا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مبینہ طور پر امریکی کسٹم حکام نے ایک ایرانی شہری سے مسلسل 5 گھنٹے تک غیر معمولی اور غیر انسانی تفتیش کی، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس شخص کی تشدد سے ہلاکت ہوئی۔ ایران نے اپنے شہری کی تشدد سے ہلاکت کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ایران نے اپنے شہریوں کو خبر دار کیا ہے کہ وہ روایتی حریف امریکا کے دورے سے محتاط رہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان امین مہمان پرست کا کہنا ہے کہ امریکا ایرانی مسافروں کے لیے انتہائی خطرناک منزل ہے، جہاں امریکا میں ایران کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں وہاں ایرانیوں کو ہدف بھی بنایا جاتا ہے۔ ادھر امریکا نے مزید 7 ایرانی کمپنیوں اور 5 جوہری ماہرین پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کی وجہ ایرانی متنازع جوہری پروگرام کی پاداش بتائی جاتی ہے۔ الزام لگایا گیا ہے کہ ان کمپنیوں اور شخصیات نے ایران کے جوہری پروگرام کے لیے ٹیکنالوجی، سازوسامان اور خدمات فراہم کی تھیں، جن کی مدد سے معتدل ریسرچ ری ایکٹر تیار کیا گیا۔

مزید یہ کہ امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون نہ کیا تو یہ معاملہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جائے گا۔ آئی اے ای اے چاہتا ہے کہ ایران 2003 تک اور اس کے بعد ممکنہ جوہری بم کی تیاری کے حوالے سے کی جانے والی سرگرمیوں سے متعلق ابہام دور کرے۔ جب کہ ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے کہا ہے کہ ایران یورپی یونین کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے فوری طور پر مذاکرات کے لیے تیار ہے جس کے لیے وہ امریکا سے براہ راست بات چیت کرنے پر بھی راضی ہے لیکن اس کے لیے امریکا کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔

لگتا ہے کہ مغربی دنیا نے ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے بہانے سے جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کا خمیازہ خود مغربی ممالک کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ مغربی ممالک ایران پر اقتصادی پابندیوں میں دن بہ دن جو اضافہ کر رہے ہیں اس سے ایرانی تیل کی برآمدات میں کمی واقع ہو گئی ہے لیکن اس کے منفی اثرات خود مغربی ممالک کی کرنسیوں پر مرتب ہو رہے ہیں اور ان ممالک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب اگر ایران دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت شروع کر دے تو اس سے بھی تمام خسارہ مغربی کمپنیوں کو ہی ہو گا۔ مثال کے طور پر جرمنی کے بجائے اب ترکی ایران کا اہم تجارتی حصے دار بن گیا ہے جب کہ دوسری طرف جاپان کے قبضے میں جو مارکیٹ تھی وہ اب چین ہتھیا لے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران پر پابندیوں کے باعث اس کی کرنسی کی قدر میں ایک اندازے کے مطابق کم ازکم دو تہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔

اقوام متحدہ جسے عرف عام میں امریکا اور مغربی یورپی ممالک کے زیر اثر تصور کیا جاتا ہے اور یہ تاثر اس پہلے بھی پختہ ہوتا رہا ہے کہ جنرل اسمبلی ہو یا سلامتی کونسل، بالعموم امریکا کے تمام فیصلوں کی با آسانی توثیق کر دی جاتی ہے، اس تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ امریکا کی پالیسی کے خلاف نہیں جاتے لیکن ان کی طرف سے ایران کے خلاف امریکی پالیسی پر تنقید یقینا حیران کن اور کمزور اقوام کے لیے حوصلہ افزا ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے امریکا اور یورپی یونین کی طرف سے ایران کے خلاف عائد کردہ یک طرفہ پابندیوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ان پابندیوں سے ایرانی عوام شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ متذکرہ پابندیوں کی وجہ سے ایران میں کینسر، سانس اور دل کی بیماریوں سمیت دیگر مہلک اور جان لیوا امراض کے علاوہ عام بیماریوں کے علاج کے لیے بھی ادویات نایاب ہو رہی ہیں۔ انھوں نے ایران کے خلاف یک طرفہ پابندیوں کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ بادی النظر میں ایران پر امریکا اور یورپی ممالک کی پابندیاں دراصل ایران کے خلاف جنگی کارروائیاں شروع کرنے کی پیش بندی کہی جا سکتی ہیں۔

حال ہی میں اسرائیل اور امریکا کی افواج نے اب تک کی سب سے بڑی مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیا ہے ان فوجی مشقوں کو آسٹر چیلنج 2012 کا نام دیا گیا۔ یہ مشقیں اس مفروضے پر کی گئیں کہ اسرائیل پر دو اطراف سے میزائل حملے کیے جاتے ہیں۔ ان مشقوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ میزائل دفاعی نظام کے مختلف اجزاء فضاء زمین اور سمندر سے بیک وقت کس طرح ایک مربوط انداز میں اس پیچیدہ صورت حال کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان مشقوں کے ایک مختصر حصے میں اصل یا لائیو فائرنگ کرنے کی مشق بھی کی گئی۔ اگرچہ امریکی حکومت نے ان مشقوں کو صرف اور صرف فوجی مقاصد بیان کیا ہے لیکن عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی ان مشترکہ فوجی مشقوں کا ایک مقصد بالکل عیاں ہے کہ اگر اسرائیل نے کبھی ایران کے جوہری اثاثوں پر حملہ کیا تو جواباً ایران اسرائیل پر بلیسٹک میزائلوں سے حملہ کر سکتا ہے۔

اگست2012 کے پہلے ہفتے میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اگر بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے میں کارگر ثابت نہ ہوئیں تو فوجی کارروائی کا حکم دیں گے، بالکل اگر ضروری ہوا تو میں بٹن دبانے کے لیے تیار ہوں۔ اسرائیل ٹی وی پر بات کرتے ہوئے نیتن یاہو نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اسرائیل ایران کے خلاف اکیلے کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ چینل ٹو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010میں بن یامین نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع ایہود براک نے فوج کو یہ حکم دیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ چند گھنٹوں کے نوٹس پر ایران پر حملہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔

اسرائیل کے سبکدوش ہونے والے وزیر متان ولنائی نے اگست 2012 کو ایک مقامی اخبار کو بتایا تھا کہ ایران پر حملے کے بعد اسرائیل 30 روز تک جنگ لڑ سکتا ہے۔ جس میں 500 اسرائیلیوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا گیا تو جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے سے دستبردار ہو جائیں گے اور ایرانی پارلیمنٹ حکومت کو اقوام متحدہ کی نیوکلیئر ایجنسی کو معائنے سے روکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ یہ بات عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی کے 35 ملکی بورڈ میں ایران کے سفیر علی اصغر سلطانیہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہی گئی ہے۔

ادھر گزشتہ دنوں اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں سیکڑوں اسرائیلیوں نے ایران کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کے خلاف فوجی امور کے وزیر ایہود بارک کی رہائش گاہ کے باہر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر امن کے حق اور جنگ مخالف نعرے درج تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو یہ ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کرے گا جس سے ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہوں گی، ہمیں اسرائیل کو جنگ میں جھونکنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک ایسی غلطی سے باز رہے۔ ادھر ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایسی غلطی کی تو اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا اور یہ لڑائی پورے خطے میں پھیل جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔