یہ کروڑوں پہلے کہاں تھے

عبدالقادر حسن  منگل 9 مئ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سیاسی ہنگا مہ جاری ہے اور اسی قسم کے ہنگاموں سے سیاست کی رونقیں بحال رہتی ہیں ورنہ سیاست تو کوئی اتنا خاص رونق والا کام نہیں مگر سیاسی کارکنوں کے دم سے ہی اس میں ہل چل مچی رہتی ہے ۔سیاسی پنڈت ایک دوسرے کے خلاف لگے رہتے ہیں اور آجکل کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے جس میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف رونق لگائی ہوئی ہے اور عوام کو مصروف رکھا ہوا ہے۔

ہر محفل میں عدالتوں میں زیر بحث پانامہ کیس کے ہنگامے کا چرچا ہے اوربھانت بھانت کے تبصرے ، پیشن گوئیاں اور فیصلے صادر کیے جا رہے ہیں اور اس کے ذریعے اپنی خواہشات کی تسکین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن لگتا ہے کہ ہونا وہی ہے جو اس ملک میں ہوتا آیا ہے یعنی کسی بھی معاملے کی چھان بین کے لیے کمیشن بنا کر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے اور اس کے بعد ہم ایک نیا مسئلہ پیدا کر کے اس کے لیے ایک نیا کمیشن بنا لیتے ہیں۔

پانامہ کیس کے بارے میں اتنے صفحات کالے کیے جا چکے ہیں اور ٹی وی پر لاتعداد گھنٹوں کی گفتگو ہو چکی ہے کہ اب تو بچے بچے کو اس کیس کی تمام جزیات تک ازبر ہو چکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر عوامی جگہ بلکہ ہر گھر میں یہی موضوع بحث رہتا ہے اور جب تک اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں آْجاتا قوم اسی میں مصروف رہے گی اور اپنا قیمتی وقت ضایع کرتی رہے گی ۔الیکشن اگر اپنے مقررہ وقت پر ہوںگے تو یہ سال عوامی رابطہ مہم کا ہے اور اسی لیے ہماری ااپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے تو اپنی الیکشن مہم شروع کر دی ہے اور جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا آغاز کر دیا ہے جن میں حکومت کو آڑے ہاتھوںلیا جا رہاہے تا کہ عوامی حمایت کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔

برسر اقتدار نوا ز لیگ جو ابھی تک پیپلز پارٹی کی دوستانہ اپوزیشن کا مزہ لے رہی تھی لیکن اصل اپوزیشن کا کردار تحریک انصاف ادا کر رہی تھی پیپلز پارٹی کی جانب سے بھر پور تنقید کے بعد جس میں سابق صدر آصف زرداری نے ہمارے وزیر اعظم کو چور تک کہہ دیا ہمارے شاہی حکمرانوں نے بھی اپنی سیاسی صف آرائی کر لی ہے اور وزیر اعظم نے خود جلسوں کا آغاز کر دیا ہے اور عوام کا پیسہ عوام کو لوٹانے کی کوشش کر رہے ہیں گو اس کی یاد انھیں اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ہی آئی ہے اور اب وہ شاہانہ انداز میں کروڑوں روپے عوام پر لٹا رہے ہیں ،کوئی ان سے پوچھے کہ یہ کروڑوں روپے پہلے کہاں پڑے تھے اور اب اچانک یہ کہاں سے نکل آئے ہیں لیکن چلیں عوام کا پیسا ان پر استعمال تو ہونے لگا ہے اور اس کی نوبت یہ اپوزیشن لے کر آئی ہے اس کے لیے عوام کو اپوزیشن کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔

وزیر اعظم نواز شریف اپنی عوامی رابطہ مہم میں زور دار طریقے سے داخل ہوئے ہیں ان کا لب ولہجہ انتہائی تلخ ان کو شاید مشورہ دیا گیا ہے کہ اپنے اوپر تنقید کا بھر پور جواب دیںاور مزید خاموشی نقصان دہ ہو گی اسی بات کو وہ آگے بڑھا رہے ہیں اور اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوانے کے لیے سرکاری خرچے پر جلسے اور نئے پلوں اور سڑکوں اور منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں لیہ سے تو ایک حیران کن خبر آئی ہے کہ وزیر اعظم نے ایک ایسے دریائی پل کی تعمیر کا سنگ ِ بنیاد رکھا ہے جس کا وہ آج سے تیس سال پہلے بطور وزیر اعلیٰ بھی افتتاح کر چکے ہیں ۔

وزیر اعظم اس بار انتہائی جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں اور اپوزیشن کے ساتھ حساب برابر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کا پیچھا پانامہ کا کیس نہیں چھوڑ رہا جس کو اپنی ہی غلطیوںں سے خراب کر چکے ہیں اور اب اس کے بارے میں کمیشن کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں جو اب شاید اپنے مقررہ وقت میں ہی آجائے کیونکہ اس میں اب بہت سارے لوگ ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور اس کی پہلی جھلک اداروں کی جانب سے نامزد کردہ ممبران کے بارے میں  اعلیٰ عدلیہ کا عدم اعتماد ہے اور ان دو اداروں کو دوبارہ سے اپنے اعلیٰ افسران کی فہرستیںفراہم کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ اس میں سے عدالت اپنے مطلب کے تحقیقاتی افسران کاتقرر کر سکے، یہ صورتحال اس لیے پیش آرہی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اپنے خلاف تحقیقات کے دوران اپنے منصب پر ہی براجمان ہیں اور خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ان تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس چھان بین کے دوران اپنے منصب سے الگ ہو جاتے تاکہ ان پر مزید الزامات کا سلسلہ بند ہو جاتا جو اپوزیشن کی طرف سے مسلسل کیا جارہا ہے مگر انھوں نے واضح طور پر عوامی جلسوں میں اس بات کا اظہار کر دیا ہے کہ وہ کیوں استعفیٰ دیں اور انھوں نے شیر اور گیڈر کی مثال بھی دی ہے جس کے بارے میں کچھ عرض کرنا مناسب نہیں ہو گا۔

ان کا یہ جارحانہ انداز اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے منصب کا بھر پور دفاع کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور ان کو کسی کی کوئی پروا  نہیںحالانکہ اسی طرح کی اکثریت کے ساتھ وہ پہلے بھی حکمرانی کرچکے ہیں اور اب شاید وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا کی سیاست کے انداز بدل گئے ہیں اورنئے حالات وہ جارحانہ سیاست سے اپنے مخالفوں کو پیچھے دھکیل دیں گے، اس خطر ناک حد تک جارحانہ سیاست کے نتائج کیا نکلیں گے اس کے بارے میں ان کے مشیر اور درباری بہتر جانتے ہوں گے لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان کا یہ انداز ِ سیاست کتنا کامیاب ہوتا ہے اور دوبارہ کتنی کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔