وہ ایک ہیں

ڈاکٹر یونس حسنی  منگل 9 مئ 2017

اسلام بے یارومددگار حالت میں وجود میں آیا تھا اور بالآخر اسے پھر تنہا ہوجانا ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اور دانشور طبقہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ مسلم نشاۃ ثانیہ کو کوئی غیر مسلم طاقت برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔اس معاملے میں ہندوستان کی تخصیص نہیں۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے پچھلے چند سالوں میں اس نے منافقت کو ترک کیے بغیر مسلم دشمنی کو عیاں اورواضح کردیا ہے۔

اقوام مغرب جن میں پورا یورپ اورامریکا بھی شامل ہے البتہ منافقانہ روش کو اپنائے ہوئے ہیں۔گزشتہ کئی ماہ سے بھارت جس طرح کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور جیسا غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس پر ان اقوام کی مجرمانہ خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔ان کی انسانیت دوستی، ظلم سے گریز،آزادی کی حمایت کے کھوکھلے نعرے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔

اب بات کشمیر سے آگے نکل کر خود بھارتی مسلمانوں تک آ پہنچی ہے۔اب گائے کی رکشا کے نام پر مسلم اقلیت کا قتل عام بات ہوکر رہ گئی ہے اور پچھلے کئی ماہ سے کوئی دن نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی مسلمان گائے کی بھینٹ نہ چڑھا دیا جاتا ہو۔ مگر اس بے ہودہ، شرمناک اورہولناک رویے کے خلاف مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے کی طرف سے کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔ خود بھارت میں چند باضمیر لوگوں نے اس رویے کے خلاف آواز بلند کی مگر حرمت، انسان دوستی اورجمہوری اقدار کے پرستاروں کی پیشانی پرکوئی بل نہیں آیا وہاں سے کوئی آواز نہیں اٹھی بلکہ بھارت کو سیکولر جمہوری اور انسانی مساوات کا علم بردار ملک قرار دینے کا جو صداقت نامہ انھوں نے جاری کر رکھا تھا وہ ہنوز کارآمد ہے۔

بات یہ ہے کہ اہل مغرب بڑے دوربیں اور دروں بیں ہیں وہ اتنے سادہ لوح نہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے مزاج کے فرق کو نہ سمجھتے ہوں بلکہ وہ خود بھی پاکستان کے وجود، اسلام کی بقا اور اس پر عمل کو اپنے اور اپنی تہذیب کے لیے سم قاتل سمجھتے ہیں، اس لیے انھیں ہر حال میں بھارت کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت کرنا ہے۔ یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جسے سمجھ لینے کے نتیجے میں ہم جو لائحہ عمل اختیار کریں گے وہی معنی خیز ہوسکے گا۔

ٹوئن ٹاور کی تباہی کی حقیقت کیا تھی۔ کیا یہ امریکا پر حملہ تھا کیا یہ واقعی القاعدہ کا مرتب کردہ پلان تھا۔ جس کے نتیجے میں افغانستان کی منتخب حکومت کوگرایا گیا۔ افغانستان کو تباہ و برباد کیا گیا اور اس کے بعد بھی یورپ کو چین نہ آیا تو عراق پر انتہائی مہلک ایٹمی وغیرایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کے شبے میں اس پر حملہ کرکے اسے برباد کیا گیا۔ لاکھوں افراد مارے گئے اور امریکی فوجی مقامی آبادیوں میں عورتوں کی آبروریزی میں ملوث ہوئے۔ عراق کے بعد اب شام کی باری ہے اور اس طرح شاید باریاں آتی رہیں گی اور عراق کی تباہی کے بعد جب لفظ ’’سوری‘‘ کہہ کر معاملہ ختم کردیا گیا اور جنگی نقصان کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ عراق کی تعمیر نوکی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اس طرح دیگر مسلم ممالک کے ساتھ بھی ایسا ہی کھیل کھیلا جاسکتا ہے اور ہر ملک کو تنہا کرکے اس کے خلاف پروپیگنڈے کے ذریعے فضا بناکر اور اقوام متحدہ کو آلہ کار بناکر مسلم ممالک کی تباہی کے منصوبے پر عملدر آمد کیا جاتا رہے گا۔ اسامہ بن لادن نہ رہا توکوئی اور جواز پیدا کرلیا جائے گا۔ شیر تو میمنے کو اس لیے بھی چٹ کر جاتا ہے کہ اس نے دریا کے اس بلند مقام سے پانی کیوں پیا جہاں سے چند فرلانگ پر نشیب میں شیر پانی پی رہا تھا۔میمنے کی یہ مجال کہ اپنا جھوٹا پانی شیرکو پلادے۔

اب قدرت بھی اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ امریکا میں ٹرمپ فتح یاب ہوئے ہیں اور پہلی بار شور مچا ہے کہ انتخابات شفاف نہیں تھے بلکہ بعض مستند حلقوں نے الزام لگایا ہے کہ ٹرمپ کی فتح روس کے صدر پیوٹن کی مرہون منت ہے۔ امریکا میں شاید کئی دہائیوں بعد انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور اس کے نتیجے میں ہنگاموں اور مظاہروں تک نوبت پہنچی ہے۔

اب فرانس میں صدارتی انتخابات ہوئے ہیں۔ انتخاب کے پہلے مرحلے میں پانچ امیدواروں میں سے کوئی بھی 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکا تھا۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات 7 مئی کو ہوئے، امانویل میکرون اور انتہائی داہنے بازو کی لیڈر اینا لی پن میں مقابلہ ہوا۔ لی پن انتہا پسند نظریات کی حامل ہیں اور مسلم دشمنی کی شہرت رکھتی ہیں اور انھوں نے سب سے پہلے فرانس کے نعرے پر اپنی انتخابی مہم چلائی۔ لیکن وہ انتخابات ہار گئیں اور انھیں تقریباً 34 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ صدر ٹرمپ بھی اپنی مسلم دشمنی کو پوشیدہ نہیں رکھتے۔

لیکن مسلم دشمنی سے قطع نظر اس انتخاب کی اہمیت یوں بھی رہی کہ اگر لی پن کی فتح ہو جاتی تو نتیجے میں فرانس بھی برطانیہ کی ہم نوائی میں یورپی یونین سے علیحدگی کا اعلان کرسکتا تھا امریکا بھی یورپی یونین کے اتحاد کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے خیال کیا جا رہا تھا کہ فرانس کے انتخاب کے نتائج یورپی یونین کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

یورپی یونین میں پڑنے والی دراڑ مسلم دشمنی کے اتحاد کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ مگر مسلم دنیا کو اس پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر یورپی یونین پارہ پارہ بھی ہوجائے تو اس کا ہر ملک مسلم دشمنی میں دوسرے کا حلیف ہوگا۔

یہود ہوں یا نصاریٰ مسلم دشمنی میں ہنود سے ہم آہنگی اور اس کے ہم آواز ہی رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔