قلم کا نیزہ

زاہدہ حنا  بدھ 10 مئ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

چند دنوں پہلے عرفان صدیقی کراچی آئے اور انجمن ترقی اردوکے مہمان ہوئے۔اس کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ان کی تازہ کتاب ’’کالم کہانی‘‘ کے اجراء کا اہتمام کیا۔ قمقموں سے جگمگاتے ہوئے انجمن کے سبزہ زار پر شہرکی کئی اہم ادبی شخصیات موجود تھیں۔ صدر انجمن ذوالقرنین جمیل، محمود شام، انگریزی صحافت سے وابستہ غازی صلاح الدین اور طویل قسط وار کہانیاں لکھنے والے شکیل عادل زادہ نے عرفان صدیقی کی کتاب ’’کالم کہانی‘‘ کو اپنے اپنے زاویہ نظریے سے دیکھا اور اس پر بات کی۔ اس تمام گفتگو کو رخسانہ صبا نے سلیقے سے آگے بڑھایا۔

دانشوروں اور کالم نگاروں کی اپنی ایک برادری ہوتی ہے،اس میں عرفان صدیقی کا نام نمایاں ہے۔ میں عرصۂ دراز سے ان کی تحریر کی اسیر رہی ہوں، پھر جب یہ وزیراعظم کے مشیر با تدبیر ہوئے تو دل ڈوب گیا۔ صفحوں پر قلم سے موتی ٹانکنے والا ایک بے بدل لکھاری، ایوان اقتدارکی غلام گردشوں میں گم ہوجائے، یہ کوئی اچھی خبر تو نہ تھی۔

کالم کہانی کے عنوان سے ان کی جو کتاب ان دنوں سامنے آئی ہے وہ اکتوبر 2011سے دسمبر 2013تک کے ان کالموں کا انتخاب ہے جن کا تعلق گزشتہ عام انتخابات سے ہے۔ کوئی گھڑی جاتی ہے کہ 2018کے عام انتخابات ہمارے سر پر آجائیں گے۔ اگلے انتخابات کو وقت سے پہلے سبوتاژ کرنے کی مہم اب سے نہیں 2014 سے چل رہی ہے اور کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتی۔ اس بات کو نظر میں رکھیے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ 2018کے انتخابی عمل کی حفاظت کس قدر اہم ہے۔ ہمارے یہاں جمہوریت مسلسل بادِ سموم کی زد میں ہے۔ داد ملنی چاہیے دو بڑی سیاسی جماعتوں کو جنھوں نے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے ہوئے بھی جمہوریت کے چراغ کی لو بھڑکنے یا بجھنے نہیں دی۔ ایک دوسرے سے ہزار اختلاف کے باوجود دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے زعما یہ جانتے ہیں کہ اگر چند مہم جو طالع آزماؤں کی للکار پر انھوں نے ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو آنے والے دنوں میں پاکستان کی نیا پار نہیں لگ سکے گی۔

عرفان صدیقی تاریخی ورثے ثقافت اور دوسرے ادبی اور تہذیبی امورکے بارے میں وزیراعظم کی مشاورت کرتے رہے۔کراچی کے کئی ادبی اورتحقیقی اداروں کو نئے سرے سے زندہ کیا اور ثقافتی معاملات کو سنوارنے میں بہت متحرک رہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ نہیں بھولے کہ آنے والے دن پاکستانی سیاست کے لیے پُرآشوب اور پُرخطر ہیں۔

ان کی حالیہ مصروفیات انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ قلم وقرطاس سے اپنا رشتہ پہلے کی طرح جوڑیں، لیکن لفظوں کے وہ چراغ تو پھر سے روشن کیے جاسکتے ہیں جو ایک اخبارکے صفحوں میں سوتے ہیں۔اس وقت بھی دروغ گوئی کی محمل میں کذب و افترا کی حسینہ سجا سنوار کر میدان میں لائی جارہی ہے، دشنام و اتہام کے جھانجھن بج رہے ہیں۔ عیاروں کی عیاریاں اوجِ پر ہیں، ضرورت اس بات کی تھی کہ لوگوں کو گزرے ہوئے ماہ سال کا قصہ یاد دلایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ دوستو جوگھڑی سر پر کھڑی ہے، اس میں گزشتہ پُرفریبیوں کو نئے رنگ سے آزمایا جائے گا اور ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا کہ جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اتر جائے تاکہ وہ لوگ جو ملوکیت اورآمریت کے پشتینی نمک خوار رہے ہیں، ایک بار پھر سے عروج پائیں اورملک وقوم کے روشن مستقبل کا چراغ بجھائیں۔ ایسے میں ’’کالم کہانی‘‘ کی بیشتر تحریریں چراغ راہ نما ہیں۔

’کالم کہانی‘ میں چشمے کی طرح بہتی ہوئی نثرکا لطف، زبان کی شیرینی، قلم کی کاٹ اور ذہن رسا کی کار فرمائی ہمیں ہر صفحے پر نظر آتی ہے ۔عرفان صدیقی نے نوک قلم سے سیاسی گتھیاں سلجھائی ہیں اور جابجا وہ جملے لکھے ہیں جو دانائی کے زمرے میں آتے ہیں اور برسوں یاد رکھے جاتے ہیں۔

ان کا یہ جملہ کیسے بھلا دیا جائے کہ ’’تاریخ کسی نام کو اپنی بیاض کے زریں ورق پرکندہ کرنے اورکسی کو انبوہِ خس و خاشاک کا رزق بنا دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کرکرتی ہے۔ اس کے یہاں سرسری سماعت کا دستور نہیں‘‘ ہمارے کچھ انمول رتن جو اپنے خیال میں خود کو ساتویں آسمان پر بچھے ہوئے تخت پر فروکش سمجھتے ہیں اور صبح و شام اپنی بڑائی کے دعوے کرتے ہیں، ان کے لیے بلا جھجھک یہ کہتے ہیں کہ ’جاہ جلال کا سارا طمطراق، خواب وخیال کی خود فریبی کے سوا کچھ نہیں‘ ریٹائر ہونے والے چیف آف آرمی اسٹاف سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ ’اللہ آپ کو آسودہ و خرم رکھے اور آپ کے دل میں کبھی اس خیال کی کونپل نہ پھوٹے کہ سیاست کا میدان آپ کے بغیر ویران ہے اور قوم آپ کی مسیحائی کی منتظر ہے‘۔ نیک نامی کے اثاثے کو سنبھالنا، نیک نامی کمانے سے کہیں کٹھن ہوتا ہے‘۔

ان کے یہ کالم پڑھتے ہوئے مجھے کئی بار ’’فسانۂ آزاد‘‘ کا خیال آیا۔ ہماری سیاست میں آزاد کے لکھے ہوئے کرداروں جیسے کئی مضحک ہیں، کئی خوجی، جن کا لاف وگزاف سن کر ہنسی آتی ہے۔ اپنی ایک تحریر میں وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ’ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم ملکۂ معظمٰی اس کے خاندان اور اس کی نسلوں سے عہد وفا باندھنے والے وہ افراد جنھیں دستور پاکستان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا، وہ عین اس وقت نظام کو تہہ وبالا کرنے آ پہنچے ہیں جب قوم انتخابات کے ذریعے نجات کے دروازے پرکھڑی ہے۔ دل میں درد مندی ہو اور ذہن ایسے بڑبولے لوگوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ بار بار یاد دلاتے ہیں کہ ’’اگر آپ پہلے کے مسخ شدہ جمہوری بندوبست کی سیاہ سرنگ کے اگلے سرے پر روشنی کی کسی کرن کی اُمید رکھتے ہیں تو یاد رکھیں کہ وہ نہایت ہی شفاف، منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے افق سے ہی طلوع ہوگی۔‘‘

عرفان کی تحریریں قلم کا ایسا نیزہ ہیں جس میں شیخ الاسلام، فرزند لال حویلی اور حضرت سونامی سب ہی پروئے گئے ہیں اور پھڑپھڑاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے یہ کالم ہمیں پاکستان کے گزشتہ انتخابات اور ان کے نتائج کی روشنی میں 2018کے عام انتخابات کے بارے میں سوچنے اور تجزیہ کرنے کا موقعہ فراہم کرتے ہیں۔انھوں نے ’حرف آغاز‘ کے عنوان سے 26 صفحات پر مشتمل جو ابتدئیہ لکھا ہے وہ گزشتہ انتخابات کا کھرا میزانیہ اور نہایت وقیع اور اہم دستاویز ہے۔اس کتاب کی ہر سطر آنے والے انتخابات کے بارے میں ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہم ہر اعتبار سے منصفانہ او ربے لاگ انتخابات کو یقینی بنائیں اس لیے کہ 2014 سے 2017 تک حشر بپا رکھنے والے یہ انوکھے لاڈلے ایک بار پھر دھاندلی کا اُودھم مچائیں تو سڑکوں کے کنارے اور چھتوں پرکھڑی مخلوق قہقہے لگا رہی ہو۔

چند برس پہلے سیاست کے تنور سے اُبلنے والے سونامی کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ انھوں نے لکھا کہ’’فرصت ملے تو سونامی کے چمنستان انقلاب کے تازہ گل ہائے رنگا رنگ میں سے ایک ایک کا جائزہ لیجیے کہ ماضی میں وہ کس کس چمن کی کون کون سی کیاری میں لہکتا، کس کس کی دستار میں مہکتا اور کس کس کے زیب گلوبنتا رہا۔

ان میں آپ کو سیاست کی متروکہ املاک بھی ملیں گی، وہ بھی جنھیں سیاست کا چسکا بے کل رکھتا تھا لیکن کہیں دال نہیں گل رہی تھی، وہ بھی جو ہواؤں کے رخ پر قبلہ تبدیل کرنے کا شرمناک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ وہ بھی جن کے اثاثوں کا کوئی اورچھور نہیں، وہ بھی جن پر کرپشن کے الزامات ہیں، وہ بھی جو جعلی ڈگریوں کا تمغہ اعزاز رکھتے ہیں، وہ بھی جو محض کسی پارٹی کا ٹکٹ یافتہ ہونا حاصل زندگی سمجھتے ہیں، وہ بھی جو اصول، نظریے اور آدرش جیسے الفاظ سے آشنا تک نہیں، وہ بھی جو ہر ثمر بار موسم سے جھولیاں بھرنے کو عقیدہ و مسلک کی طرح عزیز رکھتے ہیں اور وہ بھی جو زمینداری، جاگیرداری اور سیاسی بازیگری کی روایتوں کے امین ہیں۔ ایسے نابغے دیگر تمام روایتی جماعتوں میں بھی ہیں لیکن یہ جماعتیں کسی صبحِ انقلاب کی پیام بر نہیں، نہ خود کو فرشتہ قرار دے کر دوسروں کے اثاثوں کا کھوج لگانے والے پاک دامن ہیں اور نہ اس کے دعویدار کہ اسٹیٹس کو بہالے جانے والا سونامی ان کے ہم رکاب ہے‘‘۔

عرفان صدیقی کا قلم جس مہارت سے چوٹیں کرتا ہے او چٹکیاں بھرتا ہے، یہ ہمارے بہت کم لکھنے والوں کو نصیب ہوا ہے۔ میری خواہش ہے کہ جب 2018 کے عام انتخابات ہو جائیں اور تیسری منتخب حکومت اقتدار میں آکر ہماری تاریخ میں نیا باب رقم کرے تو اس کے بعد عرفان اپنی برادری میں واپس آکر پھرسے قلم کا جادو جگائیں۔ اپنی برجستہ اور بے ساختہ زبان سے کشتوں کے پشتے لگائیں۔ کسی لکھنے والے کو اپنے میدان سے زیادہ دنوں تک دور نہیں رہنا چاہیے۔

(’’کالم کہانی‘‘ کی تقریب میں پڑھا جانے والا خطبۂ صدارت)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔